مُردے کی طرف دھیان دیں خواتین و حضرات۔۔۔۔۔۔'
نہیں مردے انتظار کر سکتے ہیں زندہ نہیں ۔۔۔۔۔ستار نقوی ایک باریک ہنسی ہنسا '' زندوں کی طرف دھیان دیں خواتین حضرات۔۔۔۔۔۔''
چلیے زندوں کی طرف دھیان کر لیتے ہیں ۔۔۔کیا تکلیف ہے زندوں کو ؟۔۔۔۔داود احمد لاش پر جھکا رہا سر نہیں اٹھایا وہیں سے بولا
''زندوں کو ہی تو تکلیفیں ہوتی ہیں جان من۔۔۔مردے تو خاک کی چارد اوڑھ کر مزے کرتے ہیں ۔۔۔۔دانش نے بھی ایک بیان جاری کرنا مناسب سمجھا
صباحت بیگم کی ناک اگرچہ اب تک ڈی کمپوز ہوتے مردوں اور فارملین کی بو کی عادی ہوچکی تھی لیکن پھر بھی اس نے ناک کو قدرے چڑھایا۔۔۔''ارے دانش مزے تو تم کر رہے ہو ایمان سے۔۔۔اتنا اچھا بازو ہے تمہارے پاس بالکل اصلی حالت میں میرے حصے میں جو معدہ اآیا ہے وہ تو بالکل برباد شدی کیفیت میں ہے۔۔۔کچھ پتہ نہیں چلتا سسٹم کا ۔۔۔کمبخت نے چاقو بھی کھانا تھا تو میرے والے حصے میں
یارآپ زرا خاموشی سے ڈائی سیکشن نہیں کر سکتے ۔۔رحمان گل نے سخت مائنڈ کرتے ہوئے تیوری چڑھائی۔۔۔ادھر میں چیرا لگاتا ہوں تو تم لوگ شور کرتے ہو اور چیرا ٹھیک نہیں لگتا۔۔۔پروفیسر مشتاق نے دیکھ لیا تو ایمان سے کان پکڑوا دے گا ۔کہے گا اور رحمان گل یہ تو مردہ تھا اس لیے ایسے کٹ پہ چپ رہا ،مریض کو لگائے گا تو وہ بے ہوشی سے اٹھ کر جھانپڑ لگا دے گا۔۔۔۔یارا شور مور نا کرو
واہ۔۔۔۔'' صباحت زبان سے پٹاخہ سا بجا کر بولی
رحمان گل نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا ۔۔۔کیا واہ؟
پروفیسر مشتاق مریض کو کیا زبردست چیرتے ہیں ۔۔۔۔وہ جھومتی ہوئی بولی ۔۔۔جیسے کسی شعر پر سر دھنتی ہو ۔۔۔ایسے لائن لگاتے ہیں ۔۔یوں جیسے فُٹے پُرکار کے ساتھ مسئلہ فیثا غورث حل کر رہے ہوں ۔۔اآرٹسٹ اآدمی ہے
بھئی۔۔۔۔
مائیکل اینجلو کی طرح سٹروک لگاتا ہے ۔۔واہ
اس نے پھر پٹاخہ بجایا اور اسی طرح جھومتی ہوئی اپنے معدے پہ جھُک گئی
یہ مائیکل اینجلو کا نام کس نے لیا ہے ؟ اظہار اعوان نے سر اٹھا کر تمام طالبعلموں کو خشمگیں نگاہوں سے گھورا
''میں نے لیا ہے''۔۔۔۔۔۔۔۔۔صباحت نے سینے پہ دھپ لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔اظہار اعوان اگر تم فتح جنگ جیسے پسمانہ علاقے سے آکر مائیکل اینجلو کا نام لے سکتے ہو تو ہم بھی لے سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
" میں کم از فتح جنگ سے آیا ہوں تم تو کہیں سے بھی نہیں آئے"
سب کے سانس رک گئے،وہ دم سادھے صباحت یا ستار نقوی کے رد عمل کے انتظار میں رہے لیکن ادھر سے کوئی جواب نا آیا
کچھ دیر بعد دانش نے ایک طرف کھڑے لچکیلے بدن کے کمند علی کو پکارا ۔۔۔تم کیوں نہیں آرہے؟
میرے لیے کچھ باقی ہی نہیں بچا۔پورے مردے کے حصے بخرے ہوچکے ہیں*۔۔۔اس لیے میں اگلے مردے کا انتظار کر رہا ہوں اور میں اسے دائی سیکشن ہال میں داخل ہوتے ہی دبوچ لوں گا وہ پورے کا پورا میرا ہوگا ۔۔میں ابھی سے انتباہ کر رہا ہوں
نور الہدی پہلی بار بولی ۔۔۔کراچی میں بجلی اور پانی کی کمی ہوسکتی ہے ۔۔مُردوں کی نہیں۔۔ابھی آتا ہوگا "
"ویسے یارا یہ جو مائیکل اینجلو تھا تو یہ تو ہم نے بھی پڑھا تھا کہ بچپن میں کچن میں چھری مری لے کر رات کو ایک گرجے میں جاتا تھا اور ادھر جو فقیروں کا لاوارث لاشیں ہوتا تھا انکا چیڑ پھاڑ کرتا تھا ۔۔ایسے اس نے اناٹمی سیکھا اور پھر بُت مُت بنایا
"رحمان گُل دیکھو زرا ہم کتنے خوش نصیب ہیں*۔۔اس غریب کو فقیروں کی لاشیں ملتی ہیں*جب کہ ہم ۔۔ہمارے پاس کیا شاندار وراءٹی ہے ۔۔ہر قسم کے نسلی لسانی اور مذہبی مردے وافر مقدار میں ہمہ وقت دستیاب ہوتے رہتے ہیں "
ویسے یہ۔۔۔۔۔کون تھا؟۔۔۔۔۔۔فارملین میں soak کی ہوئی سنگ مر مر کی میز پہ پڑی لاش کی جانب دیکھے بغیر شوبھا نے پوچھا
سب اپنے اپنے فریم میں سٹل ہوگئے کہ شوبھا نے کیا سوال پوچھا ہے۔۔۔
"
"اگر عوام الناس میرے تجزیے کو اپنی اپنی زات پر منطبق نا کریں تو میں کچھ عرض کروں ۔۔۔۔۔" کمند علی لچکتا ہوا بولا ۔۔۔اگر تو حضرت جو اس وقت کٹی پھٹی حالت میں میز پر اکڑے پڑے ہیں ،ہونٹ لال لال رکھتے ہیں اور اپنی پچکاری سے مخاطب کا چہرہ گلنار کیا کرتے تھے اور حلق ایسا رکھتے تھے ک "ق" پھنس پھنس کر نکلتا تھا تو واضح طور پر بھیے ہیں جنہیں عرف عام میں تلیر بھی کہا جاتا ہے۔۔۔یعنی میرے بھائی بند ہیں "
میرے بھی۔۔۔ستار نقوی نے شور مچایا
میرے بھی تو ہیں ۔۔۔صباحت مسکرانے لگی۔۔۔۔لیکن یہ طے نہیں پایا کی تلیر کی مادہ کو کیا کہتے ہیں کیونکہ میں تو وہ ہوں "
جی تو آپ اپنا تجزیہ جاری رکھیے۔۔دانش بے حد محظوظ ہورہا تھا
اور اگر موصوف کہ منہ سے نسوار کی لپیٹیں آرہی ہیں*اور ان کے اتارے ہوئے کپڑوں کے قریب سے گزرتا ہوا کوئی لال بیگ دس سیکنڈ میں اوندھا ہوکر سائیکل چلانی شروع کردے تو۔۔۔"
"آئی پروٹسٹ۔۔۔۔۔رحمان گل سر ہلاتا ہوا ہنسنے لگا "یارا مجھ سے قسم لے لو جو آج تک نسوار کھایا ہو"
"اور مجھ سے قسم لے لو جو میں نے آج تک پان کھایا ہو"۔۔۔کمند علی فورا بولا
باقی ڈائی سیکشن میں کروں گا ۔۔۔۔رحمان گل نے لاش کو ایک مرتبہ پھر دیکھا
"یارا اگر یہ ہر وقت سوتا موتا ہے اور نشہ کرتا ہے تو یہ سندھی مانو ہے۔۔۔نہ نہ نورالہدی پروٹسٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔"
"کیوں ضرورت نہیں ہمیشہ unkindest cut سندھیوں کو لگتا ہے ہم اتنے سست نہیں ہیں ۔۔"
"ایسے ہی شغل مغل ہورہا ہے نور۔۔۔"
"ہمارے لیے کیا حکم ہے ہم باقی رہ گئے ہیں*جناب عالی۔۔۔داود احمد نے جھک کر پوچھا
"ہان تم اور اظہار اعوان باقی رہ گئے ہو۔۔" اظہار نے ایک مرتبہ پھر خشمگیں نگاہوں سے سب کو دیکھا اور بطور خاص رحمان گل کو دیکھا لیکن وہ جاری رہا "بھئی اگر ان صاحب کے منہ سے لسی کی بو آئے ،کپڑوں کو گوبر لگا ہو اور زرا ڈھگے ہوں تو کیا ہونگے۔۔۔۔ادھر کراچی میں نعرہ لگتا ہے نا پاکستان سے کیا پایا جو پایا، چوپایا ۔۔۔تو بس یہ پنجاب کا بات ہے یارا ۔۔"
"نورالہدی"۔۔۔۔۔اظہار نے عینک اتار کر اوور آل میں رکھی اور اس کے قریب چلا گیا "کیا خیال ہے Unkindest cut کے بارے میں یہ سندھیوں کو نہیں ہمیشہ پنجابیوں کو لگتا ہے ۔۔۔"
"جیسا کے رحمان گل نے کہا تھا شغل مغل ہورہا ہے یارا "
"شغل مغل نا ہورہا ہوتا تو مجھے کوئی تلیر کہ کہ دکھاتا میں اسکا ٹینٹوا نا دبا دیتا۔۔" ستار نقوی جانتا تھا کہ اظہار کے دل کو ہر بات لگ جاتی ہے ۔وہ ہلکی پھلی گفتگو نا کرسکتا تھا نا سن سکتا تھا۔"اظہار بھائی میں نے تو آج تک تلیر دیکھا ہی نہیں کہ کیسا ہوتا ہے اور پھر بھی میں ہوں ۔۔۔آپ جو کچھ ہو آپ نے دیکھا ہے نا ؟
اظہار مسکرانے لگا "لیکن یار مجھے برا لگتا ہے"
زرا سب لوگ ادھر پلٹ پڑیں ۔۔۔برا تو مجھے لگتا ہے۔۔۔۔۔ شوبھا مسلسل دائیں سے بائیں جھولنے کے انداز میں سر ہلا رہی تھی ۔۔"سب کی شناخت ہوگئی لیکن میں کہاں ہوں ۔۔۔شوبھا مردان کون ہے اور کہاں ہے۔۔۔"
دانش نے اپنے گھنے اور گھنگریالے مکرانی بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کی کوشش کی۔۔اسکی آواز میں کم پانی والے کنویں کی گونج سی تھی اور ابھی وہ دائی سیکٹنگ ٹیبل کے قریب کھڑا تھا لیکن جب وہ چلتا تھا تو اسکا پاوں قدرے گھسیٹتا تھا ۔۔۔اور۔۔۔۔د۔۔۔د۔۔دانش کہاں ہے؟یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔کہاں کا رہنے والا ہے ۔۔۔اسے بھی تو کچھ کہو۔۔تلیر کہو۔۔۔۔۔ڈھگا کہو۔۔۔۔اسکی شناخت بھی تو ہونی چایئے "
چلئے ہم آپ کو اونٹ بھائی جان کا خطاب دے دیتے ہیں ۔۔۔کمند علی خوشدلی سے بولا "بلوچ بھائی اب تو آپ خوش ہیں ؟
"اونٹ بھائی جان کے لیے KINDEST CUT OF THEM ALL ۔۔۔اظہار نے صرف اپنے اپ سے کہا
شوبھا اب بھی کسی ملنگ کی طرح جھومنے کے انداز میں دائیں سے بائیں سر ہلائے چلی جا رہی تھی "میں نے گزارش کی تھی کہ سب لوگ میری جانب زرا پلٹ پڑیں ۔۔۔سب کا فیصلہ ہوگیا لیکن میں منتظر ہوں ۔۔"
"تم جانتی ہو کہ تمہارے بارے میں کیا فیصلہ ہوچکا ہے لیکن تم اسے بار بار سننا چاہتی ہو ۔۔اظہار کی آواز صرف شوبھا سنتی تھی "تم ہم میں سے نہیں ہو"
"میں*شوبھا مردان ہوںن"
"جو بھی ہو ہم میں سے نہیں*ہو"
شوبھا کی آنکھیں بھرنے لگیں
"شغل مغل ہورہا ہے شوبھا ۔۔۔رحمان گل ایک بزرگ کی تھپکتی ہوئی مشفقانہ آواز میں کہنے لگا "۔۔۔اس ملک میں ہر طرف شغل مغل ہورہا ہے ۔۔۔"
مردے کی طرف دھیان دیں خواتیں و حضرات ۔۔۔" داود احمد نے پھر سنجیدگی سے اعلان کیا ۔۔۔اور ڈائی سیکشن سے فارغ ہوکر فارملین میں ڈبویا ہوا کپڑا مردے کے اس زخم پر ضرور رکھ دیجیئے گا جو آپ کے دائی سیکشن چاقو کی وجہ سے ظہور پزیر ہوا ہے ۔۔۔پلیز۔۔۔ورنی مردہ اکڑ جائے گا ۔۔اور اللہ کو تکبر پسند نہیں "
مستنصر حسین تارڑ کے ناول "راکھ" سے اقتباس