ہُنزہ کی عورت نے مجھے بے پناہ متاثر کیا۔۔۔۔۔ یہ عورت ہمارے ہاں کی عورت سے بے حد مختلف ہے۔جہاں محنت اور مشقت اہل ہنزہ کے خون میں شامل ہے وہاں ان کی خواتین میں اعتماد اور اپنی زات پر بھروسے کی ایک ایسی کیفیت پائی جاتی ہے جو یقینا قابل تقلید ہے۔۔۔۔۔وہ سر اٹھا کر چلتی ہے گھر میں بازار میں کھیت میں خریادری کرتے ہوئے چشمے سے پانی لاتے ہوئے،بلند پہاڑواں میں گھر کے کسی کھیت میں مویشیوں کا چارہ لاتے ہوئے،اسکی کمر بالکل سیدھی ہوتی ہے
اسکی آنکھوں میں ایسی بے باکی ہوتی ہے جس کے سامنے شائد جنگلی درندے بھی نا ٹھہر سکتے ہوں ۔۔۔۔وہ مردوں سے بات کرتی ہے تو جھُک کر،منمناتے ہوئے ،آنکھیں چرا کر نہیں بلکہ برابری کی سطح پر جیسا کہ دو انسانوں میں ہونا چاہیئے۔۔۔لیکن انکا اعتماد اور بے باکی بلند پۃاڑوں اور دشوار ترین زندگی کا دین ہے
ایک ایسی دنیا جہاں جھجکتی ہوئی نظریں چراتی ہوئی عورت کا گزارہ نہیں ہوسکتا،اسے برفیلے موسموں پہاڑی راستوں اور گھریلو کام کاج کی زیادتی سے نپٹنے کے لیےے ایسا ہونا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ مرد کی دنیا میں نہیں اپنی دنیاا میں رہتی ہے
ہاں یہ ہے کہ پرکشش آزاد فطرت جب اخلاقیات کی حدود میں آتی ہے تو وہاں وہ وہی مشرقی عقرت بن جاتی ہےجس کی اپنی ایک روائت ہےلیکن ایک فرق کے ساتھ۔ہمارے ہاں کی عورتیں کسی بھی ؛نازک؛ صورت حال میں حواس کھو بیٹھی ہیں کیونکہ انھیں مرد کے سامنے جانے اور اس سے آزادانہ گفتگو کرنے کا تجربہ نہیں ہوتا جب کہ ہنزہ کی عورت ایک ٹھوس معاشرتی سسٹم کی وجہ سے اول تو کسی ؛نازک؛ صورتحال کا سامنا ہی نہیں کرتی اگر ایسا ہوجائے تو پھر اس سے پناہ حاصل کرنا ناممکن ہوجاتا ہے
اسکی آنکھوں میں ایسی بے باکی ہوتی ہے جس کے سامنے شائد جنگلی درندے بھی نا ٹھہر سکتے ہوں ۔۔۔۔وہ مردوں سے بات کرتی ہے تو جھُک کر،منمناتے ہوئے ،آنکھیں چرا کر نہیں بلکہ برابری کی سطح پر جیسا کہ دو انسانوں میں ہونا چاہیئے۔۔۔لیکن انکا اعتماد اور بے باکی بلند پۃاڑوں اور دشوار ترین زندگی کا دین ہے
ایک ایسی دنیا جہاں جھجکتی ہوئی نظریں چراتی ہوئی عورت کا گزارہ نہیں ہوسکتا،اسے برفیلے موسموں پہاڑی راستوں اور گھریلو کام کاج کی زیادتی سے نپٹنے کے لیےے ایسا ہونا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ مرد کی دنیا میں نہیں اپنی دنیاا میں رہتی ہے
ہاں یہ ہے کہ پرکشش آزاد فطرت جب اخلاقیات کی حدود میں آتی ہے تو وہاں وہ وہی مشرقی عقرت بن جاتی ہےجس کی اپنی ایک روائت ہےلیکن ایک فرق کے ساتھ۔ہمارے ہاں کی عورتیں کسی بھی ؛نازک؛ صورت حال میں حواس کھو بیٹھی ہیں کیونکہ انھیں مرد کے سامنے جانے اور اس سے آزادانہ گفتگو کرنے کا تجربہ نہیں ہوتا جب کہ ہنزہ کی عورت ایک ٹھوس معاشرتی سسٹم کی وجہ سے اول تو کسی ؛نازک؛ صورتحال کا سامنا ہی نہیں کرتی اگر ایسا ہوجائے تو پھر اس سے پناہ حاصل کرنا ناممکن ہوجاتا ہے
میری خواہش ہے کہ پاکستان کی تمام عورتیں اسی قوت اور اعتماد کی ھامل ہوجائیں لیکن شائد ہم مرد یہ برداشت نا کر سکیں کہ ہماری عورتیں ہم سے برابری کی سطح پر بات کریں ۔۔۔۔اس سے ہمارے ؛مردانگی؛ کو ٹھیس پہنچے گی
عورتوں کی طرح ہنزہ کے بہت کم ایسے مرد ہونگے جنہیں میں نے یونہی بازار یا کھیت میں ادھر ادھر بے مقصد ٹہلتے یا اونگھتے دیکھا ہو وہ بھی ہر وقت کسی نا کسی کام میں مشغول رہتے ہیں اور معاشرتی زمہدایوں کو اپنے فرائڈ میں اس طرح شامل کرتے ہئیں کہ راہ چلتے ہوئے اگر کسی کھیت کے گرد بنی ہوئی پتھر کی دیوار میں سے چند پتھر کھسک کر راستے پر آگرے تو وہ سب سے پہلے ان پتھروں کو اٹھا کر دیوار درست کریں گے اور پھر آگے جائیں گے،میں مے متعدد بار یہ دیکھا کہ انہھوں نے راہ چلتے ہوئی کسی ہم وطن کا بوجھ بانٹ لیا اور اپنا راستہ چھوڑ کر اس کے ہمراہ چلے گئے
ہنزہ داستان-ٴمستنصر حسین تارڑ
Comment