Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Pious Fairy K Naam

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Pious Fairy K Naam

    السلام وعلیکم

    فیری۔۔۔
    کچھ دن پہلے تم نے مجھ سے کہا تھا کہ ۔۔سارہ بہت دن سے تم نے نثری ادب میں شئیر نہیں کیا کچھ۔۔۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ تمہارے لیے کوئی خاص پیغام شئیر کرنا پڑ جائے گا مجھے

    ۔۔۔کاش تم ایسا نا ہی
    کہیتیں۔۔۔
      
    میں نے تمہاری جگہ پر خود کو سوچ کے دیکھا ہے ، اگر مجھ سے یوں میرا جیون ساتھی بچھڑتا،مجھ سے یوں میرا بچہ جدا ہوتا ۔۔۔۔

    تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے میں کچھ سوچ ہی نہین سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    مگر پھر بھی مجھے تم سےکچھ کہنا ہے,
    تم کو صبر کی تلقین کرنی ہے ،
    کیونکہ تم مسلمان ہو اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے تم میری بہن ہو مجھے تمہیں وہی تلقین کرنی ہے جو میرا ،تمہارا ،ایک مسلمان کا رب ہمیں حکم دیتا ہے
    ،تم بہت خاص ہو جو تمہیں اس آزمائش کے لیے چنا گیا اور اب تمہیں اس آزمائش میں پورا اترنا ہے،تمہیں صبر کرنا ہے
    تمہیں راکھ نہیں کندن بننا ہے
    ،اور یہ نہیں بھولنا ہے کہ ان اللہ مع الصابرین

    یہ اقتباس میں نے خاص نہیں ڈھوندا،بلکہ کل رات جب میں نے یہ پڑھا پہلی بار۔۔۔۔مجھے لگا شائد یہ تمہارے لیے ہی ہے،مجھے امید ہے اس میں دیے گئے پیغام کو تم سمجھ جاو گی

    -----------------------------------------------------



    کاریڈور میں لگا سافٹ بورڈ آج کچھ زیادہ ہی چمک رہا تھا ،شائد وہ کیلی گرافی کے کناروں پہ لگی افشاں کی چمک تھی جو سافٹ بورڈ کے وسط میں آویزاں تھی۔وہ ٓہستہ آہستہ چلتی ہوئی دیوار کے قریب آئی۔کیلی گرافی بہت خوبسورت تھی،
    اس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات کے موقع پر کہی گئے الفاظ رقم تھے،وہ گردن اٹھائے ان الفاظ کو پڑھنے لگی

    عبدالرحمن بن عوف نے کہا،یا رسول اللہ آپ بھی روتے ہیں ؟آپ نے فرمایا اے ابن عوف یہ رحمت اور شفقت ہے۔۔اور ٓپ پھر رو پڑے اور فرمایا
    بے شک آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے لیکن ہم زبان سے وہی بات نکالیں گےجس پہ ہمارا رب راضی ہو،اے ابراہیم بےشک ہم تیری جدائی پہ بہت غم زدہ ہیں۔۔

    وہ مسحور سی اسی طرح گردن اٹھائے کھڑی وہ الفاظ بار بار پڑھتی تھی،کچھ تھا ان میں جو اسے بار بار کھینچتا تھا،وہ وہاں سے جا ہی نا پارہی تھی،جانے کے لیے قدم اٹھاتی مگر وہ الفاظ اسے روک دیتے۔


    جب تفسیر کی کلاس کا وقت ہونے لگا تو وہ بمشکل خود کو وہاں کھینچ لائی،قران کھولتے ہوئی نظر درمیان میں کسی صفحے پر رک گئی


    ہر نفس موت کا زائقہ چکھنے والا ہے;


    وہ صفحے پلٹنے لگی
    انگلی سے صفحے پلٹتے ہوئے ایک اور جگہ یونہی نگاہ پھسلی


    ٓآج تم ایک موت نا مانگو،بلکہ آج تم کئی موتیں مانگو;


    وہ سر جھٹک کر اپنے پہلے سبق پر ٓئی ۔۔۔۔آج کی پہلی آئت ہی یہ تھی


    اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم میں سے کسی ایک پر موت حاضر ہوجائے۔;
    ۔

    اوہو مجھے کیا ہوگیا ہے وہ بے بسی سے مسکرا کر رہ گئی ۔۔۔آج تو ساری موت کی ٓئیتیں پڑھ رہی ہوں کہیں میں مرنے والی تو نہیں اف محمل ،فضول مت سوچو اور سبق پہ توجہ دو
    اچانک لکھتے لکھتے اسکا قلم پھسلا وہ رک گئی اور پھر آہستہ سے سر اتھایا

    کیا کوئی مرنے والا ہے اسکا دل زور سے دھڑکا تھا،وہ جو قران میں پڑھتی تھی وہ اسکے ساتھ پیش آجاتا تھا یا آنے والا ہوتا تھا کبھی ماضی کبھی حال اور کبھی مستقبل ۔۔۔کوئی لفظ بے مقصد بے وجہ اسکی اںکھوں سے نہیں گزرتا تھا پھر بار بار وہ کیوں آ ایک ہی طرح کی آیات پڑھ رہی تھی ،کیا کوئی مرنے والا ہے ،کیا کوئی اسے چھوڑ کر جانے ولاا ہے ،کیا قران اسے زہنی طور پر تیار کر رہا ہے اسے صبر کرنے کو کہ رہا ہے مگر کیوں کیا ہونے والا ہے
    وہ بے چینی سے قران کے صفحے ٓگے پلٹنے لگی


    اوراللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے;


    ایک سطر پڑھ کر اس نے ڈھیر ورق الٹے


    صبر کرنے والے اپنا صلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔;


    پورا پڑھے بغیر اس نے آخر سے قران کھولا


    ;اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہو



    اور پھر وہ صفحے تیز تیز پلٹتی ایل نظر سے سب گزارتی جا رہی تھی


    اور کوئی نہیں جانتا وہ کون سی زمین پر مرے گا ;


    محمل کا دم گھٹنے لگا ۔بے اختیار گھبرا کر اس نے قران بند کیا اسے پسینہ آرہا تھا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کچھ ہونے والا تھا کیا وہ برداشت کر پائے گی شائد نہیں اس میں اتنا صبر نہیں ہے وہ کچھ برداشت نا کر پائے گی ،کبھی بھی نہیں اس نے وحشت سے ادھر ادھر دیکھا
    میڈم مصباح کا لیکچر جاری تھا لڑکیاں سر جھکائے نوٹس لے رہی تھیں کوئی اس کی طرف متوجہ نا تھا اس نے گردن زرا سی اوپر اٹھائ اوپر چھت تھی ۔چھت کے پار ٓاسمان تھا وہاں کوئی ضرور اس کی طرف متوجہ تھا مگر وحشت اتنی تھی کہ وہ دعابھی نا مانگ سکی
    تب ہی آیا اماں دروازے پر کھڑی نظر ٓئیں ان کے ہاتھ میں ایک چٹ تھی وہ میڈم مصباح کے پواس ٓئیں اور چٹ انکی طرف بڑھایئ میڈم نے لیکچر روک دیا اور چٹ تھامی
    محمل بنا پلکیں انکو دیکھ رہی تھی
    میڈم مصباح نے چٹ پڑھ کر سر اٹھایا ایک نگاہ پوری کلاس پر ڈالی پھر چہرہ مائیک کے قریب کیا
    محمل ابراہیم پلیز ادھر آجائین

    اور اسے لگا وہ اگلا سانس نہیں لے سکے گی ،وہ جان گئی تھی ۔کوئی مرنے والا ہے۔اب کسی کو نہیں مرنا تھا ۔اسکا نام پکارا جا رہا تھا اور اسکی ایک ہی وجہ تھی
    جسے مرنا تھا مر چکا تھا کہیں کوئی اسکا پیارا مر چکا تھا
    وہ نیم جان قدموں سے اٹھی اور میڈم کی طرف بڑھی

    ؛آنکھ آنسو بہاتی ہے
    دل غمگین ہے
    مگر ہم زباں سے وہی کہیں گے جس پر ہمارا رب راضی ہو
    اے ابراہیم ۔۔۔۔۔بے شک ہم تیری جدائی پر بہت غم زدہ ہیں ؛
    صدیوں پہلے کسی کے کہے گے الفاظ کی بازگشت اسے سارے حال میں سنائی دے رہی تھی ،باقی ساری آوازیں بند ہوگئی تھیں اس کے کان بند ہوگئے تھے ،زبان بند ہوگئی تھی
    بس وہ ایکاﷺاز اسکے زہن میں گونج رہی تھی
    آنکھ آنسو بہاتی ہے
    دل غمگین ہے
    دل غمگین ہے
    دل غمگین ہے

    وہ بمشکل میڈم مصباح کے سامنے کھڑی ہوئی
    آپ کا ڈائور آپکو لینے آیا ہے ایمرجنسی ہے آپ کو گھر جانا۔۔۔۔۔۔
    مگر وہ پوری بات سنے بغیر ہی سیڑھیوں کی طرف بھاگی ،ننگے پاوں زینے پھلانگتی وہ تیزی سے اوپر آئی تھی جوتوں کا ریک ایک طرف تھا مگر محمل کو جوتوں کی ہوش نا تھی وہ سنگ مر مر کے فرش پر ننگے پاوں دوڑتی چلی جا رہی تھی
    باہت گاڑی میں ڈرائور منتظر تھا،۔۔۔۔بی بی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز خاموش رہو وہ بمشکل ضبط کرتی اند بیٹھی ۔۔۔۔۔اور خاموش رہو

    آغا ہاوس کا گیٹ پورا کھلا تھا باہر گاڑیوں کی قطار لگی تھی ،لوگوں کا جم غفیر تھا گاڑی رکتے ہی وہ ننگے پاوں تارکول کی سڑک پر بھاگی ۔۔۔اس نے سارے کاندان کو رش میں گھرے دیکھا۔۔۔وہ سب اسکی طرف لپکے تھے مگر وہ اندر کو بھاگ رہی تھی لوگوں کو ادھر ادھر ہٹاتی وہ اوازوں تک پہنچنا چاہتی تھی جو لان سے آرہی تھیں عورتوں کے بین ،رونے آہو بکا کی اﷺازیں

    لان میں عورتوں کا ہجوم اکٹھا تھا ۔درمیاں میں چارپائی رکھی تھی اس پر کوئی سفید چارد اوڑھے لیٹا تھا چارپائی کے چاروں طرف عورتیں رو رہی تھیں انکے طہرے گڈ مڈ ہورہے تھے ۔۔۔خاندان کی ساری عورتیں تو موجود تھیں پھر کون موجود نا تھا
    کون تھا اس چارپائی پہ۔۔۔۔کون۔۔۔کون تھا وہ؟
    اماں۔۔۔۔!
    اسکے لب پھڑپھڑائے
    اس نے انہھں پکارنے کے لیے لب کھولے مگر اواز نے گویا ساتھ چھوڑ دیا وہ وحشت میں ادھر ادھر دیکھنے لگی شائد اسکی ماں کسی کونے میں بیٹھی ہو مگر وہ کہیں نا تھی ۔۔۔اسکی ماں کہیں نا تھی

    محمل ۔۔۔ محمل۔۔۔۔۔؛


    جاری ہے.وہ عورتیں اسے پکار رہی تھیں اٹھ اٹھ کر گلے لگا رہی تھیں کسی نے راستہ بنا دیا تو کوئی میت کے پاس سے ہٹ گئا کوئی اسے ہاتھ سے پکڑ کر چارپائی کے قریب لے آیا کسی نے شانوں پر زور ڈال کر اسے بٹھایا کسی نے میت کی سفیف چادر ہٹا دی کون کیا کر رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ساری اوازیں آنا بند ہاگئیں ارد گرد کی عورتوں کے لب ہل رہے تھے مگر وہ سن نا پا رہی تھی وہ کیا کہ رہے ہیں وہ رو رہی ہیں یا ہنس رہی ہیں وہ تو بس یک ٹک بنا پلک جھپکے اس زرد طہرے کو دیکھ رہی تھی جو طارپائی پہ آنکھیں موندے لیٹا تھا نتھنوں میں رویئ ڈالی گئی تھی وہ چہرہ واقعی اماں سے ملتا تھا بالکل جیسے اماں کا چہرہ ہو اور شائد۔۔۔۔۔شائد وہ اماں کا ہی چہرہ تھا.........
    اور پھر اس نے چاہا کہ وہ بھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے نوحہ کرے بین کرے زور زور سے چلائے مگر وہ رحمتہ العالمین کے کہے گئے الفاظ
    ؛مگر ہم زباں سے وہی الفاظ کہیں گے جس پر ہمارا رب راضی ہو؛

    اور اس کے کھلے لب کھلے رہ گئے آواز حلق میں دم توڑ گئی زبان کھلنے سے انکاری ہوگئی
    اسے بس ایک پل لگااسکا شدت سے دل چاہا کہ اپنا سر پیٹے سینے پی دو ہٹھڑ مار کر بین کرے دوپٹی پھاڑ ڈالے اور اتنا چیخ چیخ کر روئے کہ اصمان ہل جائے اور پھر اس نے ہاتھ اٹھائے بھی مگر۔۔۔

    ؛نوحہ کرنے والی اگر توبہ کے بغیر مر گئی تو اس کے لیے تارکول کے کپڑے اور آگ کے شعلے کی قمیض ہوگی؛



    جو گریبان چاک کرے اور رکساروں پر طمانچے مارے اور بین کرے وہ ہم میں سے نہیں ؛
    یہ ہدایت تو ابد تک کے لیے تھی
    اسکے ہاتھ اٹھنے سے انکاری ہوگئے آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھےلیکن لب خاموش تھے
    اسے رلاو اس سے کہو اونچا رو لے ورنہ پاگل ہوجائے گی
    اس سے کہو دل ہلکا کر لے
    بہت سی عورتیں اس کے قریب زور زور سے کہ رہی تھیں
    وہ اسی طرح ساکت بیٹھی ماں کی میت کو دیکھ رہی تھی آنکھوں سے آنسو گر کر گردن تل لڑھک رہے تھے اسکا پورا چہرہ بھیگ گیا تھا مگر زبان۔۔۔۔زبان نہیں ہلتی تھی
    ادھوری ادھوری اﷺازیں اسکے ارد گرد سے آرہی تھیں مگر اسے سنائی نا دے رہی تھیں اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا اسے لگا اسے چکر آرہے ہیں عجیب سئ گھٹن تھی اسکے سانس بند ہونے لگے
    وہ ایک دم اٹھی اور عورتوں کو ہٹاتی اندر بھاگ گئی
    =================================


    مصحف سے ایک اقتباس
    Last edited by saraah; 10 June 2011, 12:27.
    شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

  • #2
    Re: Pious Fairy K Naam

    .......................!!!!!

    Comment


    • #3
      Re: Pious Fairy K Naam

      buhat umda tahreer hay...Allah inhay sabar ata farmyin may bhi jub bemar hota hoon samjhta hoon akhri waqt aan phuncha khbi tu aan phunchy ga...aisi azmish tu rasool pak tuk pay ayin hain ibhreem jub juda hoy aur unhy nay sabar kiya ye azmish naik logo kay liyi hi zaida hoti hain taky unhy achi tarah jannat may janny kay liyi parkh liya jay.....very very nice sarah agli tahrer ka intazar rahy ga
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #4
        Re: Pious Fairy K Naam

        bohat bara dukh he..Allah us ko sabar de...:rose

        Comment


        • #5
          Re: Pious Fairy K Naam

          آنکھ آنسو بہاتی ہے
          دل غمگین ہے
          مگر ہم زباں سے وہی کہیں گے جس پر ہمارا رب راضی ہو
          اے ابراہیم ۔۔۔۔۔بے شک ہم تیری جدائی پر بہت غم زدہ ہیں

          jazak ALLAH saraah... behad pur asar tehreer... ALLAH G bless u
          میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

          Comment

          Working...
          X