جب منڈيروں پر پھدکتي ہوئي چڑياں ايک دم بھرر سے فضا ميں ابھرا جاتيں اور کھرليوں کے قريب گٹھڑياں بنے ہوئے بچھڑۓ اپنے لمبے لمبے کانوں کے
آخري سرے ملا کر محرابيں سي بنا ليتے تو جھکي ہوئي ديواروں کے سائے ميں بيٹھے ہوئے کسان مسکراتے اور خشک تمباکو کو ہتھيليوں سے ملتے ہوئے يا کھيس کے دھاگوں ميں بل ڈالتے ہوئے کہتے، بابا عمرو کھانسا ہے۔
بابا عمرو کي کھانسي بہت گونجيلي تھي، يوں معلوم ہوتا تھا جيسے تانبے سے بنے ہوئے کنوئيں ميں يکبار چند پتھر گر پڑے ہيں۔۔۔۔۔وہ اپنے جھونپڑے کي چوکھٹ پر بيٹھا بکريوں کے بال بٹتا رہتا اور جب کھانستا تو پسليوں کو دنوں ہاتھوں سے جکڑ ليتا، اس زور سے تھوکتا کہ اس کي مونچھوں کے جيھکے ہوئے بال لوہے کے تنے ہوئے تار بن جاتے، خربوزے کے مرجھائے ہوئے چھلکوں کے گالوں پر چھريوں کا جال سا تنا جاتا، اور جھکي ہوئي بھوسلي بھووں کے نيچے سے ندي کنارے کے گول کنکروں کي سي آنکھوں پرپاني کي پتلي سي لہر تير جاتي، پڑوسن کے بچے تالياں بجاتے اور چلاتے، بابا عمرو کھانسا ہے۔۔۔۔۔۔بابا عمرو کے کانوں ميں ان چيخوں کي بھنک پڑجاتي تو بکريوں کے گولے پر بے تابانہ انگلياں پھيرتا، رسي ميں اتنے بل ڈالتا کہ وہ تن کہ ٹيڑھي ہوجاتي اور پھر پاس ہي بيٹھي ہوئي بلي کو گردن سے پکڑ کر اپني جھولي ميں بٹھا ليتا اور کہتا بابا عمرو کيا کھانسا، مداري نے پٹارے سے ڈھکنا ہٹا ديا، چھچھوندر کہيں کے ديکھوں گا ميري عمر کو پہنچ کر کيسے نہيں کھانستے، ميں بھي تو جب جواني ميں کھانستا تھا تو ايسا لگتا تھا جيسا کوئي طبلہ بجا رہا ہے۔
اچانک پڑوس کي ايک لڑکي لپک کر گھر سے نکلتي اور جب بابا عمرو کو اپنے آپ سے سرگوشياں کرتے ديکھتي تو آگے بڑھ کر کہتي، بابا عمرو ميں آ گئي۔
بابا عمرو چونک اٹھتا اور پھر اس کے لبوں پر ايسي جناتي مسکراہٹ نمودار ہونے لگتي جيسے ٹوٹے پھوٹے قبرستان ميں چاندني، کہتا ميں جانتا تھا ميري وليتو آئے گي، تو اتني دير تک کيا کرتي رہي وليتو بيٹا؟
ہمارے گھر چاول پکے ہيں، نھني وليتو تالي بجا کر کہتي، ميٹھے چاول ۔۔۔۔۔۔۔لے آئوں تمہارے لئے بابا عمرو؟ہيں بابا عمرو؟
چاول قابض ہوتے ہيں، وہ ہونٹ سيکٹر کر کہتا اور جب لڑکي کے صاف چہرے پر انکار کے صدمے کا احساس شفق کي پھوار سي چھڑک ديتا تو وہ انداز گفتگو بدل کر کہتا، پر وليتو تيري خاطر مٹھي بھر کھا لوں گا ميں بھي، وليتو بچي کا جي برا کروں، تو کہا جائو ميں بڈھا کھوسٹ؟
نھني وليتو اچھلتي کودتي اپنے گھر ميں گھس جاتي، گھڑۓ کے ڈھکنے پر مونگ کي گھنگھنياں ڈالے پلٹتي اور بابا عمرو کے سامنے گھٹنوں پر ٹھوڑي رکھے بانہوں کو پنڈليوں پر لپيٹے بيٹھ جاتي، بابا عمرو چاولوں کے تصور کو منگ ميں بدلتے ديکھ کر يوں ہنستا جيسے نيا نيا رہٹ رک رک کر چل رہا ہو اور پھر اس کے قہقہے گونجيل کھانسي ميں تبديل ہوجاتے، پسليوں کو دونوں ہاتھوں سے جکڑ کر سامنے پڑوسي کي ديوار پر چٹاخ سے تھوک کر کہتا، يہ چاول کہاں سے آئے نھنو؟
کرپالو کي دکان سے، ويستو پلکيں جھپکا کر مسکراتي۔
اور بابا عمرو کہتا ميں سمجھا وليتو نے ولايت سے چاول منگائے ہيں۔۔۔۔۔
گائوں بھر ميں مشہور تھا کہ بابا عمرو کا دل بھٹيارن کے توے کي طرح کالا ہے، اس بڈھے نے کسي سے محبت نہيں کي، يہ دوزخي ہے دوزخي !
آخري سرے ملا کر محرابيں سي بنا ليتے تو جھکي ہوئي ديواروں کے سائے ميں بيٹھے ہوئے کسان مسکراتے اور خشک تمباکو کو ہتھيليوں سے ملتے ہوئے يا کھيس کے دھاگوں ميں بل ڈالتے ہوئے کہتے، بابا عمرو کھانسا ہے۔
بابا عمرو کي کھانسي بہت گونجيلي تھي، يوں معلوم ہوتا تھا جيسے تانبے سے بنے ہوئے کنوئيں ميں يکبار چند پتھر گر پڑے ہيں۔۔۔۔۔وہ اپنے جھونپڑے کي چوکھٹ پر بيٹھا بکريوں کے بال بٹتا رہتا اور جب کھانستا تو پسليوں کو دنوں ہاتھوں سے جکڑ ليتا، اس زور سے تھوکتا کہ اس کي مونچھوں کے جيھکے ہوئے بال لوہے کے تنے ہوئے تار بن جاتے، خربوزے کے مرجھائے ہوئے چھلکوں کے گالوں پر چھريوں کا جال سا تنا جاتا، اور جھکي ہوئي بھوسلي بھووں کے نيچے سے ندي کنارے کے گول کنکروں کي سي آنکھوں پرپاني کي پتلي سي لہر تير جاتي، پڑوسن کے بچے تالياں بجاتے اور چلاتے، بابا عمرو کھانسا ہے۔۔۔۔۔۔بابا عمرو کے کانوں ميں ان چيخوں کي بھنک پڑجاتي تو بکريوں کے گولے پر بے تابانہ انگلياں پھيرتا، رسي ميں اتنے بل ڈالتا کہ وہ تن کہ ٹيڑھي ہوجاتي اور پھر پاس ہي بيٹھي ہوئي بلي کو گردن سے پکڑ کر اپني جھولي ميں بٹھا ليتا اور کہتا بابا عمرو کيا کھانسا، مداري نے پٹارے سے ڈھکنا ہٹا ديا، چھچھوندر کہيں کے ديکھوں گا ميري عمر کو پہنچ کر کيسے نہيں کھانستے، ميں بھي تو جب جواني ميں کھانستا تھا تو ايسا لگتا تھا جيسا کوئي طبلہ بجا رہا ہے۔
اچانک پڑوس کي ايک لڑکي لپک کر گھر سے نکلتي اور جب بابا عمرو کو اپنے آپ سے سرگوشياں کرتے ديکھتي تو آگے بڑھ کر کہتي، بابا عمرو ميں آ گئي۔
بابا عمرو چونک اٹھتا اور پھر اس کے لبوں پر ايسي جناتي مسکراہٹ نمودار ہونے لگتي جيسے ٹوٹے پھوٹے قبرستان ميں چاندني، کہتا ميں جانتا تھا ميري وليتو آئے گي، تو اتني دير تک کيا کرتي رہي وليتو بيٹا؟
ہمارے گھر چاول پکے ہيں، نھني وليتو تالي بجا کر کہتي، ميٹھے چاول ۔۔۔۔۔۔۔لے آئوں تمہارے لئے بابا عمرو؟ہيں بابا عمرو؟
چاول قابض ہوتے ہيں، وہ ہونٹ سيکٹر کر کہتا اور جب لڑکي کے صاف چہرے پر انکار کے صدمے کا احساس شفق کي پھوار سي چھڑک ديتا تو وہ انداز گفتگو بدل کر کہتا، پر وليتو تيري خاطر مٹھي بھر کھا لوں گا ميں بھي، وليتو بچي کا جي برا کروں، تو کہا جائو ميں بڈھا کھوسٹ؟
نھني وليتو اچھلتي کودتي اپنے گھر ميں گھس جاتي، گھڑۓ کے ڈھکنے پر مونگ کي گھنگھنياں ڈالے پلٹتي اور بابا عمرو کے سامنے گھٹنوں پر ٹھوڑي رکھے بانہوں کو پنڈليوں پر لپيٹے بيٹھ جاتي، بابا عمرو چاولوں کے تصور کو منگ ميں بدلتے ديکھ کر يوں ہنستا جيسے نيا نيا رہٹ رک رک کر چل رہا ہو اور پھر اس کے قہقہے گونجيل کھانسي ميں تبديل ہوجاتے، پسليوں کو دونوں ہاتھوں سے جکڑ کر سامنے پڑوسي کي ديوار پر چٹاخ سے تھوک کر کہتا، يہ چاول کہاں سے آئے نھنو؟
کرپالو کي دکان سے، ويستو پلکيں جھپکا کر مسکراتي۔
اور بابا عمرو کہتا ميں سمجھا وليتو نے ولايت سے چاول منگائے ہيں۔۔۔۔۔
گائوں بھر ميں مشہور تھا کہ بابا عمرو کا دل بھٹيارن کے توے کي طرح کالا ہے، اس بڈھے نے کسي سے محبت نہيں کي، يہ دوزخي ہے دوزخي !
Comment