Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ریت کے گھر

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ریت کے گھر



    خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں بہلول نامی ایک مجذوب بزرگ گزرے ہیں ، وہ مجذوب اور صاحب حال بزرگ تھے ۔ ہارون الرشید ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتے تھے ۔یہ کبھی کبھی جذب کے عالم میں پتے کی باتیں بھی کہہ دیا کرتے تھے ۔ہارون الرشید ان کی بڑی عزت اور بڑا ہی احترام کیا کرتے تھے۔ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ خاتون بھی ایک نیک اور پارسا عورت تھیں ۔ انہوں نے اپنے محل میں ایک ہزار (۱۰۰۰) ایسی خادمائیں رکھی ہوئی تھیں جو سب کی سب قرآن مجید کی حافظہ اور قاریہ تھیں ۔ ان سب کی ڈیوٹیاں مختلف شفٹوں میں لگی ہوئی تھیں ۔ چناں چہ ملکہ زبیدہ کے محل سے چوبیس (۲۴) گھنٹے ان بچیوں کے قرآن پڑھنے کی آوازیں آرہی ہوتی تھیں اور ان کا محل قرآن مجید کا گلشن محسوس ہوتا تھا ۔

    ایک دن خلیفہ ہارون الرشید اپنی بیوی ملکہ زبیدہ کے ساتھ دریا کے کنارے ٹہل رہے تھے کہ ایک جگہ بہلول مجذوب کو بیٹھے دیکھا ۔ ہارون الرشید نے سلام کیا:’’ السلام علیکم ! ‘‘بہلول مجذوب نے سلام کا جواب دیا : ’’ وعلیکم السلام! ‘‘ ہارون الرشید نے کہا : ’’بہلول !یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ بہلول مجذوب نے کہا : ’’ ریت کے گھر بنا رہا ہوں ۔‘‘ ہارون الرشید نے پوچھا : ’’کس کے لئے ؟ ‘‘ بہلول مجذوب نے کہا : ’’ہر اس شخص کے لئے کہ جو اس کو خریدے گا میں اس کے دعاء کروں گا کہ :’’ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے جنت میں اس کو گھر عطاء فرمائے ‘‘ ہارون الرشید نے پوچھا : ’’اس گھر کی قیمت کیا ہے؟‘‘ بہلول مجذوب نے کہا : ’’ایک دینار‘‘ہارون الرشید ٗ بہلول مجذوب کو دیوانہ سمجھ کر آگے کی طرف چل دیا۔
    ہارون الرشید کے پیچھے پیچھے ان کی بیوی ملکہ زبیدہ آرہی تھیں ۔ انہوں نے بھی بہلول مجذوب سے علیک سلیک کرکے وہی گفتگو کی جو اوپر ہارون الرشید نے کی تھی ۔ البتہ ملکہ زبیدہ نے بہلول مجذوب کی دعاء کی قدر کرتے ہوئے ایک دینار نکال کر ان کو دے دیا اور ان سے کہا کہ میرے لئے یہ والی دعاء کردینا ، اس کے بعد وہ بھی وہاں سے چل دیں۔

    رات کو جب ہارون الرشید سوگیا تو اس نے خواب میں جنت کے حسین نظارے ، وہاں کی آبشاریں ، مرغزاریں اور پھل پھول دیکھنے کے علاوہ بڑے بڑے اور اونچے اونچے خوب صورت محلات بھی دیکھے ۔ ایک سرخ یاقوت کے بنے ہوئے محل پر جب اس کی نظر پڑی تو دیکھا کہ اس پر اس کی بیوی ملکہ زبیدہ کا نام لکھا ہوا تھا ۔ ہارون الرشید نے کہا اندر جاکر دیکھوں تو سہی کہ میری بیوی کا محل کیسا ہے ؟ لیکن ہارون الرشید کی اس وقت حیرانگی کی انتہاء نہ رہی جب وہ محل میں داخل ہونے کے لئے اس کے دروازے پر پہنچے تو ایک دربان نے اندر جانے سے انہیں وہیں روک لیا۔ ہارون الرشید نے کہا : ’’ اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہوا ہے ، اس لئے مجھے اندر جانے دیا جائے۔‘‘ دربان نے کہا : ’’یہاں کا دستور مختلف ہے ، یہاں جس کا نام لکھا ہوتاہے وہی اندر جاسکتا ہے ‘‘ جب دربان نے ہارون الرشید کو پیچھے ہٹایا تو ان کی آنکھ کھل گئی ۔ انہیں بیدار ہونے پر فوراً خیال آیا کہ لگتا ہے کہ بہلول مجذوب کی دعاء ملکہ زبیدہ کے حق میں قبول ہوگئی ہے ۔ اب کیا تھا کہ ہارون الرشید کی ساری نیند اڑگئی اور وہ تمام رات کروٹوں پے کروٹیں بدلتا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

    اگلے دن ہارون الرشید پھر اسی طرح اپنی بیوی ملکہ زبیدہ کے ساتھ دریا کے کنارے ٹہلنے کے لئے نکل پڑے ۔ پھر اسی طرح بہلول مجذوب وہاں ریت کے گھر بناتے انہیں نظر آئے ۔ علیک سلیک ہوئی اور گزشتہ دن کی طرح آپس میںساری گفتگو ہوئی اورہارون الرشید نے بہلول مجذوب سے پوچھا کہ : آج اس ریت کے گھر کی قیمت کیا ہے؟‘‘ بہلول مجذوب نے کہا : ’’ آج اس کی قیمت پوری دنیا کی بادشاہی ہے ‘‘ ہارون الرشید نے کہا : ’’ اتنی قیمت تو میں دے نہیں سکتا ، کل تو ایک دینار کے بدلے دے رہے تھے اور آج پوری دنیا کی بادشاہی مانگ رہے ہو ؟ ‘‘ بہلول مجذوب نے کہا : ’’ بادشاہ سلامت! کل بن دیکھے سودا تھا اس لئے سستا مل رہا تھا اور آج چوں کہ آپ اسے دیکھ آئے ہیں اس لئے اسب اس کی قیمت بھی زیادہ دینی پڑے گی ..
    Never stop learning
    because life never stop Teaching
Working...
X