Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

(آخرمیں ہی کیوں؟ سے اقتباس)

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • (آخرمیں ہی کیوں؟ سے اقتباس)


    قاسم فردوس نے دیوار پر آویزاں دارالشکوہ کے قطعے پر نظریں جمائے کھڑاتھا - نہ جانے وہ سوچوں کی کن منزلوں میں تھا
    یک ذرہ ندیدیم ازخورشید جدا
    ہرقطرہ آب ہست عین دریا
    حق رابچہ کس بتواندن؟
    ہرنام کہ ہست است ازاسمائےخدا
    کچھ سال پہلے وہ لندن کی انڈیا لائبریری میں دارالشکوہ کی جمع کردہ تصویروں کے البم سے متعارف ہواتھا- تب اس کے دل میں دارالشکوہ کے لیے
    عجیب جذبات نے جنم لیاتھا- ہمیشہ سے مغل بادشاہوں کے متعلق دورُخے رویے کا شکاررہا تھا
    جب کبھی ان کے متعلق سوچتا اس کے دل میں محبت ونفرت کا دوہراچکرچلنے لگتا
    دارالشکوہ کی شخصیت پر اگرصوفی کا اطلاق ہوتا تھا تو ساتھ ہی بادشاہت کے نبردآزما ہونے کا چارج بھی تھا
    بھلا کسی صوفی کا بادشاہت سے کیا سروکار؟ کوئی صوفی ملکیت کا دعویٰ دار کب ہواتھا-
    کیا آبائی وطن سے دوری نے مغل شہزادوں کوایسا منقسم کیا کہ وہ کبھی بھی یکجائی اختیار نہ کرسکے؟
    بکھرے ہوئے شہزادوں میں دارالشکوہ سب سے زیادہ ذات کے خنجرسے خودکشی کرنے والاتھا
    اسے اورنگزیب سے کم اپنے وجود سے زیادہ تکلیف پہنچی تھی- وہ ایک ذات میں کئی روپ اکٹھے کرکے سب کی الگ الگ پرورش کرتا رہا-
    قاسم فردوس نے پرگنہ باڑی کے اس صوفی کے متعلق سوچا جس سے دارالشکوہ کو والہانہ عقیدت تھی اوراسے اپنا نام یہ کہہ کر نہ بتاتا تھاکہ
    ہرنام خدا کے ناموں میں سے ہے توپھراپنے نام سے کیا شناخت پیدا ہوگی؟
    جب پانی کا قطرہ سمندرہے تو پھر اس کا نام کیا معنی رکھتا ہے؟
    قاسم فردوس نے سوچا " اصل درالشکوہ کون تھا؟"
    (آخرمیں ہی کیوں؟ سے اقتباس)
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

Working...
X