Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Naml novel say iqtebaas

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Naml novel say iqtebaas



    ’’کیا ہم لڑکیاں ٹوٹل فیلیئر ہیں الله تعالیٰ؟‘‘ سلام پھیر کے وہ دو زانو بیٹھی ‘ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے گم صم سی پوچھ رہی تھی۔’’کیا ہم لڑکیاں واقعی اتنی بے بس اور لا چار اور بے چاری ہوتی ہیں؟ کیا عزت کے نام پہ کوئی بھی ہمیں بلیک میل کر سکتا ہے؟ کیا ہماری غلطیوں کی کہانیوں کے ’’مرد ‘‘ کرداروں کے ہاتھوں میں ہماری عزت ہوتی ہے یا آپ کے ہاتھ میں؟ کیا آپ کی مرضی کے بغیر کوئی بھی کسی کو بے عزت اور ذلیل و رسوا کر سکتا ہے ؟ مجھے بتائیے الله تعالیٰ ۔ آپ کہتے ہیں نا کہ اگر الله تمہارے دلو ں میں خیر معلوم کرے گا تو تمہیں اس سے بہتر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہیں بخش دے گا(سورۃ الانفال: 70) تو اگر میرے اندر کوئی خیر ہے تو کیا میری عزت مجھے واپس مل سکتی ہے؟ کیا دنیا والوں کی نظر میں میرا پردہ رہ سکتا ہے کہ وہ توواقف ہی نہیں ہیں‘ اور میرے گھر والے جو واقف ہیں‘ ان کی نظر میں پھر سے معتبر ہو سکتی ہوں میں؟‘‘

    Naml_Novel
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔


  • #2


    ’’وہ آ گیا ہے۔ وہ دیکھو۔ براؤن شرٹ میں‘ عینک والا۔‘‘
    ’’ہوں!‘‘ سعدی سامنے دیکھنے لگا مگر اس کا دماغ فوکس نہیں کر پا رہا تھا۔ لڑکے اسی طرح معذور لڑکے کو مار رہے تھے ‘ اور گالیاں دے رہے تھے ۔ ایسے میں اسے آنکھ کے کنارے پہ نظر آ یا ‘ ایک لڑکے نے اپنے بوٹ سے اس کے ٹیڑھے منہ پہ ٹھوکر ماری تھی۔
    بس بہت ہو گیا۔ وہ تیورا کے گھوما اور جارحانہ انداز میں ان کی طرف بڑھا۔
    ’’سعدی....نو...واپس مڑو....سعدی یوسف!‘‘ احمر اس کے کان میں گرجا تھا۔
    ’’یو نو واٹ ....‘‘ اس نے کان میں لگا آلہ دو انگلیوں سے پکڑ کر باہر نکالا ‘ اور ہاتھ منہ کے قریب لے جا کر بولا۔’’تم میری ماں نہیں ہو۔‘‘ اور اسے جیب میں ڈالتا تیزی سے ان کی طرف لپکا۔ (احمر نے بے اختیار اسٹیئرنگ پہ ہاتھ مارا۔)
    ’’کمزور سے کیوں لڑ رہے ہو؟ ادھر آؤ ‘ مجھ سے مقابلہ کرو۔‘‘ پی کیپ کا رخ پیچھے کو موڑا تاکہ چہرہ سامنے واضح نظر آئے اور آستین اوپر چڑھاتا وہ ان کی طرف آیا ۔ وہ چونکے تھے۔ ایک نے منہ بھر کے اسے گالیاں دیں۔ دوسرا اس کی طرف بڑھا ‘ مگر اب اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔
    وہ اور خاور قید خانے کے کمرے میں تھے ‘ وہ کمرہ جس کی دیوار پہ اَن گنت لکیریں لگی تھیں۔ اور خاور اس کو بتا رہا تھا کہ اسے کیسے کسی کو مارنا ہے ۔ صرف بے ہوش کیسے کرنا ہے ۔ اپاہج کیسے کرنا ہے۔ قتل کیسے کرنا ہے۔ اس کے سامنے صرف خاور تھا۔ اور وہ اپنا ہاتھ اور پاؤں گھما گھما کر اس کو مار رہا تھا ۔ اردگرد خاموشی تھی۔ صرف وہ دونوں تھے اور ان کے ہاتھوں کی مہارت تھی ۔ سر جھکا کے ایک طرف سے نکل جانا اور پلٹ کے دے مارنے کا انداز تھا۔ اردگرد اور کچھ نہیں تھا۔
    سرخ دھند چھٹی تو سامنے وہ تینوں اب قدرے زخمی حالت میں پیچھے کو ہٹ رہے تھے۔ بس چند لمحے لگے تھے ان کو بھگانے میں۔ چند راہگیر جو تماشہ دیکھنے رکے تھے ‘ اب وہ بھی مڑ گئے تھے۔ اپاہج لڑکا زمین پہ گرا ہوا تھا ‘ اور ا س کے جسم سے جا بجا خون نکل رہا تھا۔ منہ کی چوٹیں سب سے زیادہ تکلیف دہ تھیں۔ وہ جھکا اور اسے ایک ہاتھ کے سہارے سے اٹھانے لگا۔
    لڑکا نیم بے ہوش ‘ مندی آنکھوں سے اسے یک ٹک دیکھتا سہارا لے کر اٹھنے لگا۔
    ’’مجھے اس کو ہاسپٹل لے کر جانا ہے ۔‘‘ وہ دوسرے ہاتھ سے کان میں آلہ دوبارہ لگا چکا تھا۔
    ’’ٹیکسی کر کے جاؤ کیونکہ میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔‘‘وہ جلا بھنا سا بولا تھا۔ سعدی نے چونک کے دور رکھے میگزین اٹینڈ کو دیکھا۔ ’’وہ چلا گیا؟‘‘
    ’’نہیں۔ اس نے یہاں اعتکاف میں بیٹھنا تھا ‘ اس لئے دیکھو ‘ شاید ابھی تک ہو۔‘‘ وہ سخت سیخ پا تھا۔ ’’ یا تو مجھے کام نہ کہا کرو اور اگر کہا کرو تو میرے طریقے سے عمل بھی کیا کرو۔‘‘
    ’’احمر !‘‘ وہ لڑکے کو سہارا دے کر چلا رہا تھا۔ ’’میں نے یہ جنگ یہ صرف ایک کیس جیتنے کے لئے یا ایک امیر لڑکے کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنے کی خواہش کے لئے نہیں شروع کی تھی ۔ میں نے یہ لڑائی اس لئے مول لی تھی تاکہ کوئی مغرور اور بددماغ لڑکا کسی عام کمزور لڑکے کو یوں نہ مار سکے ۔ کوئی اپنے گھمنڈ میں کسی کو bully نہ کر سکے۔ اور جب بھی کوئی یہ کرے تو اس کا ہاتھ روکا جائے ‘ اور اگر رکنے سے نہ رکے ‘ تو اس کا ہاتھ توڑاجائے ۔ تاکہ خاص لوگ عام لوگوں کو اپنے پیروں تلے نہ روند دیں۔ اگر میں یہ ہونے دوں تو میں کیسا انسان ہوا؟ ‘‘
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

    Comment

    Working...
    X