’’تمہیں پتا ہے مدینہ میں یہود کے ساتھ مومنین کا معاہدہ تھا کہ مدینہ پر حملہ ہوا تو مل کر دفاع کریں گے، مگر یہود تو پھر یہود ہوتے ہیں۔ بنو قریظہ، یہود کے گروہ نے اہل مکہ سمیت کئی گروہوں کو جا جا کر اکسایا کہ مدینہ پہ حملہ کردیں، وہ ان کے ساتھ ہیں۔ یوں جب سارے گروہوں نے لشکر کی صورت مدینہ کے باہر پڑاؤ ڈال دیا تو بنو قریظہ، آپ کا اعتماد توڑ کر’’گروہوں‘‘ کے ساتھ جا ملا۔’’عائشے سانس لینے کو رکی۔ بہارے بگلوں کو بھول کر، روٹی توڑنا چھوڑ کر عائشے کو دیکھ رہی تھی۔
’’تب مسلمانوں نے اپنے دشمن کے ’’گروہوں‘‘ کے درمیان ایک بہت لمبی، بہت گہری خندق کھودی تھی۔ سردی اوربھوک کی تکلیف واحد تکلیف نہیں تھی۔ اصل اذیت کسی حلیف کے دھوکا دینے کی ہوتی ہے۔ باہر والے تو دشمن ہوتے ہیں، مگر جب کوئی اپنا بیچ جنگ میں چھوڑ کر چلا جائے، وہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اسی لیے جب یہ’’گروہ‘‘ محاصرے سے تنگ آکر ایک عرصے بعد واپس چلے گئے اوربنو قریظہ خوف کے مارے اپنے قلعوں میں چھپ گئے، تو ان کو سزا یہ ملی کہ بنو قریظہ کے ایک ایک مرد کو چن چن کر مارا گیا کہ یہ اللہ کاحکم تھا۔ جانتی ہو، میں نے تمہیں اتنی لمبی کہانی کیوں سنائی؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ حیا کے بجائے، بہارے کے لبوں سے پھسلا۔ وہ اب ساری خفگی بھلائے عائشے کی طرف پوری گھومی بیٹھی تھی۔
’’کیونکہ حجاب پہننا، جنگ خندق کو دعوت دینا ہے۔ گروہوں کی جنگ میں حجابی لڑکی کو دل پہ پتھر باندھ کر اپنے گرد خندق کھودنی پڑتی ہے، اتنی گہری کہ کوئی پاٹنے کی جرات نہ کرسکے۔ اورپھر اسے اس خندق کے پار محصور رہنا پڑتا ہے۔ اس جنگ میں اصل دشمن اہل مکہ نہیں ہوتے، بلکہ اصل تکلیف بنو قریظہ سے ملتی ہے۔ یہ جنگ ہوتی ہی بنو قریظہ سے ہے اورخندق کی جنگ کبھی بھی بنو قریظہ کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔‘‘
عائشے خاموش ہوئی تو کوئی سحر سا ٹوٹا۔ حیا نے سمجھ کر سرہلایا۔ قرآن کی پہیلیاں زیادہ دلچسپ ہوتی ہیں۔
Jannat Kay Pattay