بندے کا دارو بندہ
ہمارے ہاں آج کل لوگوں کی لوگوں پر توجہ بہت زیادہ ہے اور اس اعتبار سے یہاں اللہ کے فضل سے بہت سارے شفاخانے اور ہسپتال بن رہے ہیں اور جس مخیّر آدمی کے ذہن میں لوگوں کی خدمت کا تصور اٹھتا ہے تو وہ ایک ہسپتال کی داغ بیل ضرور ڈالتا ہے اور پھر اس میں اللہ کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے اور وہ ہسپتال پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے لیکن سارے ہی لوگوں کی کسی نہ کسی جسمانی عارضے میں مبتلا خیال کرنا کچھ ایسی خوش آئیند بات نہیں ہے۔ لوگ جسمانی عوارض کے علاوہ ذہنی، روحانی، نفسیاتی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں یا یوں کہیۓ کہ لوگوں پر کبھی ایسا بوجھ بھی آن پڑتا ہے کہ وہ بلبلاتے ہوۓ ساری دنیا کا چکر کاٹتے ہیں اور کوئی بھی ان کی دستگیری کرنے کے لۓ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں ایک یونس مالی تھا۔ وہ بیچارہ بہت پریشان تھا اور وہ یہ سمجھتے ہوۓ کہ کوئی ہسپتال ہی اس کے دکھوں کا مداوا کرے گا وہ ایک بہت بڑے ہسپتال میں چلا گیا اور وہاں جا کر واویلا کرنے لگا کہ مجھے یہاں داخل کر لو کیونکہ علاقے کے تھانیدار نے مجھ پر بڑی زیادتی کی ہے اور میری بڑی بے عزتی کی ہے جس کے باعث میں بیمار ہو گیا ہوں۔ اب ہسپتال والے اسے کیسے داخل کر لیں۔ انہوں نے اس سے کہا کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے کہ ہم آپ کے دکھوں کا مداوا کر سکیں یا آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ سکیں یا آپ کی تشفّی کر سکیں۔ اس کے لۓ تو کوئی اور جگہ ہونی چاہیۓ اور ہم اس بات سے بھی معذور ہیں کہ آپ کو کوئی ایسی جگہ بتا سکیں۔ یونس بےچارہ پریشان حال سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا اور اب تک پھرتا ہے اور اس کی تشفّی، دستگیری یا حوصلہ جوئی کرنے والا کوئی بھی شخص یا ادارہ نہیں ہے۔ پرانے زمانے میں بطورِ خاص برصغیر اور وسطی ایشیا کے اسلامی ملکوں میں خانقاہیں ہوتی تھیں، ڈیرے ہوتے تھےاور درگاہیں ہوتی تھیں جہاں سے کھانا بھی ملتا تھا اور رہنے اور وقت گزارنے کے لۓ جگہ بھی ملتی تھی اور ایسی جگہوں پر ایسے لوگ بھی ملتے تھے جو دکھ بانٹتے تھے اور یونس جیسے دکھی لوگ ان کے پاس اپنے دکھ لے کر جاتے تھے گو وہ ان کے دکھوں کا علاج تو نہیں کر سکتے تھے لیکن جتنے بھی آدمی وہاں جمع ہوتے تھے تو سارے لوگ اکٹھے ہو کر اس دکھی شخص کی دل جوئی کرتے اور اللہ سے اس کے حق میں دعا کرتے کہ اے اللہ اس کا دکھ دور فرما دے اور ایسے ڈیروں، درگاہوں اور خانقاہوں پر موجود سوغاتیں کھانے والے اور لانے والے سب لوگ اس شخص کے لۓ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے۔ کئی یونسوں کے کندھوں سے بوجھ اتر جاتا تھا لیکن اب ایسی چیزیں مفقود ہو گئی ہیں کیونکہ نئی تعلیم اور ترقی کے دور نے یہ بات واضح کی ہے کہ اس قسم کے ڈیرے اور درگاہیں اور اس قسم کے زاویے ( زاویہ پروگرام کی مثال دیتے ہوۓ جہاں کئی لوگ اکٹھے ہوتے ہیں) اور دائرے ہمیں نہیں چاہئیں کیونکہ انسان صرف جسمانی طور پر ہی مریض ہوتا ہے اور اس کی کیمسٹری میں ہی کوئی فرق پڑتا ہے۔
خواتین و حضرات لوگ ایک دوسرے کا سہارا مانگتے ہیں۔ ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں لیکن ترقی کے اس دور میں ایک دوسرے کے قریب آنے کی ساری راہیں مسدود و مفقود ہو گئی ہیں لیکن پھر بھی انسان اپنے ساتھ والوں کو، اپنے پرکھوں اور آباؤاجداد کو ساتھ ساتھ اٹھاۓ پھرتا ہے۔ اگر کسی روشن دان میں آپ اپنا ہاتھ کھول کر دیکھیں تو آپ کے ہاتھ کی ان لکیروں میں ان چوکھٹوں، چوکھڑیوں اور مساموں کے اندر بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کے جینز موجود ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپ کے آباؤاجداد یا آپ کے پُرکھ تھے۔ ہر وقت ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور آپ کا ہنسنا‘ بولنا‘ غصہ اور آپ کی شوخی و ضد آپ کے اندر ان ہی لوگوں کی طرف سے منتقل ہوتی ہے۔ اگر کسی نہ کسی طرح سے آپ ان کے قریب رہیں یا وہ آپ کے قریب رہیں یا آپ کے اردگرد کے موجود لوگ آپ کو ہاتھ لگا کر محسوس کرتے ہیں یا آپ ان کو Touch کرکے ایک دوسرے کے ہونے کا ثبوت بہم پہنچاتے رہیں تو پھر ایسے ذہنی اور نفسیاتی عارضے لاحق نہیں ہوں گے۔ انسان انسان کی قربت چاہتا ہے اس سے علاج نہیں کروانا چاہتا ہے اور مختلف کمروں میں منتقل ہو کر یہ تقاضا نہیں کرتا کہ میرا کمرہ نمبر 144 یا 213 ہے آپ مجھے وہاں ملنے آ جاؤ۔ لیکن آج کی ترقی ہمیں کمروں میں بند کرکے علاج کروانے کی ترغیب دیتی ہے کہ وقت پر ڈاکٹر آتا ہے اور وقت پر نرس چیک کرتی ہے پھر مشینوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے کہ آپ سی ٹی سکین کے عمل سے گزریں اور دیگر مشینوں سے علاج کروائیں لیکن اس طرح سے علاج ہو نہیں پاتا کیونکہ انسان بکھرا ہوا ہے۔
مجھے اپنے بچپن کے قصبے کا واقعہ یاد ہے۔ قصبوں میں عجیب و غریب قسم کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ "منہ کھر" کی بیماری لاحق ہو گئی( اب بھی یہ بیماری آئی ہوئی ہے جس میں بے شمار جانور مر جاتے ہیں) تو ہمارے قصبے میں کچھ لوگ آۓ جنہیں بھوکے قسم کے لوگ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے کھدر کے کئی تھان منگواۓ اور شام کو گڈوں ( چھکڑوں) پر ان تھانوں کو پھیلا کر ( ہم چھوٹے بچے انہیں دیکھتے تھے کہ یہ کیا کر رہے ہیں) بڑے بڑے ہاتھیوں کی شکل بنا ( آپ ہاتھیوں سے تو واقف ہوں گے یہ بڑا مویشی ہوتا ہے اور اس سے بڑا کام لیا جاتا ہے ۔سری لنکا میں لوگ اس سے ہل بھی چلاتے ہیں) کر ان گڈوں کو دریا کنارے لے گۓ اور وہ لوگ ان پر اپنے کچھ مخصوص سے منتر پڑھتے تھے اور دعا کرتے تھے کہ یا اللہ اس قصبے سے یہ بیماری چلی جاۓ۔ میں اب ٹھیک سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسی چیزوں سے علاج ہوتا تھا یا نہیں لیکن لوگوں کا یہ اجتماع انہیں ایسی طاقت عطا کرتا تھا کہ وہ بیماری پر بڑی شدت اور زور کا حملہ کرتے تھے اسی لۓ ہمارے بزرگانِ دین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مخلوقِ خدا کا ساتھ دو اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرو، اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے کیونکہ مخلوقِ خدا کی Magnetic Force الٹ کر آپ کے اندر کی جو خرابیاں ہیں وہ بھی ٹھیک کر دے گی اور ان کا بھی علاج کر دے گی۔ میں تقسیمِ برصغیر کے اترپردیش کے جس قصبے کا ذکر کر رہا ہوں وہاں مویشیوں کا اس طرح سے علاج کیا جاتا تھا۔ وہاں ایک مرتبہ بارش نہ ہوئی۔ وہاں اکثر ایسا ہو جاتا تھا اور اب اس طرح ہمارے ہاں بھی مسئلہ ہے۔ میرے قصبے والے سخت خشک سالی کے خاتمے کی دعا کروانے کے لۓ ایک صاحبِ دعا کو لے آۓ اور اس سے درخواست کی کہ آپ ہمارے قصبے میں دعا کریں کہ ابرِ رحمت برسے کیونکہ بڑی تنگی ہے۔ اس صاحبِ دعا نے کہا کہ میں قصبے کے کنارے ایک جھونپڑی میں رہوں گا اور کوئی آدمی مجھے Disturb نہ کرے اور پھر میں دعا کروں گا، آپ لوگوں کو سات دن تک انتطار کرنا ہو گا چناں چہ ان کے لۓ ایک جھونپڑی کا انتظام کر دیا گیا۔ ساتویں دن سے پہلے ہی یعنی پانچویں دن ہی اللہ کا فضل ہو گیا اور بارش ہونے لگی اور ہر طرف جل تھل ہو گیا۔ لوگ بڑی مٹھائی، سوغاتیں اور پھولوں کے ہار لے کر اس صاحبِ دعا کی جھونپڑی میں آۓ تو انہوں نے ہنس کر کہا بھئی میں نے تو کوئی خاص دعا نہیں کی۔ میں نے تو کچھ خاص نہیں کیا، جب آپ لوگ مجھے قصبے میں لاۓ تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ سارے لوگ بکھرے ہوۓ اور Disorder کی کیفیت میں پھر رہے ہیں، بے ہنگم سے ہیں اور کسی کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب ایک آدمی دوسرے کے پاس سے گزرتا ہے تو دوسرے کو مخاطب کرکے نہ سلام کہتا ہے نہ دعا دیتا ہے بس گزر جاتا ہے۔ میں دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ ان کے اندر Unity کا جو کرنٹ ہے وہ نہیں چل رہا۔ ہر آدمی الگ الگ زندگی بسر کر رہا ہے اور مجھے جانوروں کو دیکھ کر آپ کے رویے سے تکلیف ہوئی کہ یہاں تو چیونٹیاں بہت اچھی ہیں جو جب قطار میں چل رہی ہوتی ہیں تو رک کر دوسری چیونٹی سے اس کا حال ضرور پوچھتی ہیں۔ ( اگر آپ نے بھی کبھی غور سے دیکھا ہو تو آپ نے بھی یہ مشاہدہ کیا ہو گا) اور میں یہ دیکھ کر ایک الگ جھونپڑی میں چلا آیا اور میں نے اپنے آپ کو ہی مُجتَمِع کیا کیونکہ آپ لوگوں کے ساتھ رہنے سے میری ذات بھی بٹ گئی تھی اور الگ الگ حصوں بخروں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ میں اس لۓ الگ تھلگ بیٹھا رھا اور پھر میں نے اللہ کے فضل سے محسوس کیا کہ آپ لوگوں کے اندر بھی تعاون اور یکجِہَتی اور یگانگت پیدا ہونے لگی ہے۔ کیونکہ میری خدا سے یہی دعا تھی۔ جب آپ لوگوں میں یگانگت پیدا ہونے لگی تو آپ کے اردگرد کے موسم اور ان بخارات میں بھی یکجہتی پیدا ہونے لگی اور مل کر بادل بنتے ہیں چناچہ بادل بنے اور برکھا ہوئی۔ میں نے تو کوئی کمال نہیں کیا اور نہ ہی میں نے بارش کے لۓ دعا مانگی ہے بلکہ میں تو اس جھونپڑی میں بیٹھ کر اس بات پر زور دیتا رہا کہ آپ میں اتحاد ہو اور آپ کی سوچ میں اتحاد ہو۔ میں نے اس دوران آپ کو پہچانا ہے اور محسوس کیا ہے کہ آپ (کی) کیا خطا ہے۔ ہمارے بابا جی تھے وہ رات کو کبھی ڈیڑھ کبھی دو بجے تہجد کے بعد ہمیں درس دیا کرتے تھے۔ وہ وقت بڑا خاموش لمحہ ہوتا ہے اور وہاں چند ایک آدمی ہوتے تھے۔ درس کے بعد پھر فجر کی نماز آ جاتی تھی اور سلام پھیرنے کے بعد روشنی آنے لگتی تھی۔ ایک روز فجر کی نماز سے قبل بابا جی نے پوچھا کہ "بتاؤ اندھیرا روشنی میں کب تبدیل ہوتا ہے اور اجالا کب ہوتا ہے۔
وہاں ہمارے دوست ڈاکٹر صاحب تھے وہ ہم سے بڑے تھے اور بڑے ذہین آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار جب آدمی کو دور سے یہ نظر آنے لگے کہ یہ کونسا جانور ہے تو تب اجالا ہو رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ جب کتے اور بکری کی پہچان واضح طور پر ہونے لگے تو روشنی ہو رہی ہوتی ہے۔ وہاں آفتاب صاحب جنہیں ہم سیکرٹری صاحب کہتے تھے انہوں نے کہا جب درخت اچھی طرح سے نظر آنے لگیں اور آدمی کی نگاہیں یہ بھانپ جائیں کہ یہ نیم یا شہتوت کا ہے تو روشنی قریب تر آجاتی ہے۔
بابا جی نے کہا نہیں یہ بات نہیں ہے۔ روشنی تب ہوتی ہے جب آپ ایک شخص کو دیکھ کر یقین کے ساتھ یہ کہنے لگیں کہ یہ میری ہمشیرہ ہے، یہ میرا بھائی ہے۔ جب انسانوں کے چہرے آپ پہچاننے لگیں اور آپ کو ان کی پوری شناخت ہو جاۓ تو اس کے بعد اجالا ہوتا ہے۔ جانور یا نباتات کو جاننے سے اجالا نہیں ہوتا۔ ان کا مطلب تھا کہ “ آدمی آدمی کا دارو ہے۔“
آدمی جب آدمی کے قریب آۓ گا تو پھر ہی کچھ حاصل ہو گا جب یہ دور جاۓ گا تو پھر کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ آج کل آپ افغانستان کی جنگ کے حوالے سے ڈیزی کٹر بم کی بڑی بات کرتے ہیں کہ اس نے ایسا کام کیا کہ پتھروں کو ریت میں تبدیل کر دیا اور ہزاروں انسانوں کو چشمِ زدن میں تہِ تیغ کر دیا۔ ڈیزی کٹر کا ذکر کرتے ہوۓ کئی لوگوں کے چہروں پر عجیب طرح کی فتح مندی کے آثار دیکھتا ہوں۔ یہ چشم زدن میں انسانی و نباتاتی تباہی کرنے والے آلات یا بم ترقی یا روشن مستقبل کی دلیل ہرگز ہرگز نہیں ہے کیونکہ جب تک انسان انسان کے قریب نہیں آۓ گا اور اس کے دکھوں کا “ دارو“ نہیں کرے گا بات نہیں بنے گی۔
ایک بڑے اچھے جلد ساز تھے اور ہم سب علم دوست ان سے مخصوص کاغذوں کی جلدیں کروایا کرتے تھے۔ یہ ہماری جوانی کے دنوں کی بات ہے اور اس جلد ساز کا نام نواز محمد تھا۔ جب ہم ایم - اے میں پڑھتے تھے تو ہمارا ایک دوست نشے کا عادی ہو گیا۔ ہم چونکہ سمجھدار، پڑھے لکھےاور سیانے دوست تھے ، ہم اسے مجبور کرنے لگے کہ تمہیں یہ بری عادت چھوڑ دینی چاہیۓ ورنہ ہم تمھارا ساتھ نہیں دے سکیں گے اور ہم تمھارے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔ وہ بیچارہ ایک تو نشے کی لعنت میں گرفتار تھا دوسرا وہ روز ہماری جھڑکیاں سہتا تھا جس کے باعث وہ ہم سے کنارہ کشی کرنے لگا۔ محمد نواز جلد ساز بڑے خوبصورت دل کا آدمی تھا۔ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔ گو وہ اقتصادی طور پر ہمارے دائرے کے اندر نہیں تھا لیکن وہ خوشگوار طبیعت کا مالک تھا۔ اس نے ایک دن اس آدمی(ہمارے دوست) کا ہاتھ تھام کر کہا کہ بھلے تم نشہ کرو اور جتنا مرضی کرو مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے اور تو چاہے نشہ کرے یا نہ کرے میں تمھیہں چھوڑوں گا نہیں، تو ہمارا یار ہے اور یار رہے گا۔ اس نے کہا پنجابی کا ایک محاورا ہے کہ یار کی یاری دیکھنی چاہیۓ یار کے عیبوں کی طرف نہیں جانا چاہیۓ۔ خواتین و حضرات آپ یقین کیجیۓ کہ بغیر کسی طبعی علاج اور ماہرِ نفسیات کی مدد کے جب ہمارے نشئی دوست کو محمد نواز جلد ساز کا سہارا ملا تو وہ نشے کی بری اور گندی عادت سے باہر نکل آیا اور صحت مند ہونا شروع ہوگیا۔ انسان کو انسان ہی سہارا دے سکتا ہے۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہیۓ کہ کیا انفرادی طور پر ہی کسی کا ساتھ دیا جا سکتا ہے یا پھر انسان مدد کے لۓ ادارے ہی بناتا رہے۔ پرانے زمانے میں اس بات کی بڑی تلقین کی جاتی تھی کہ “مخلوقِ خدا کا ساتھ دیں “ کیونکہ جب تک اس کا ساتھ نہیں دیں گے ان کی طرف سے آنے والی طاقت آپ تک نہیں پہنچ پاۓ گی۔ مجھے وہ بات یاد آ رہی ہے جو میں نے شاید ٹی وی پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیۓ جس میں دنیا کا رنگین نقشہ تھا اور اس نقشے کو ٣٢ ٹکروں میں تقسیم کردیا اور اپنے پانچ چھ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا ور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکڑوں میں ہے تم اسے جوڑ کر دکھاؤ۔ اب وہ بےچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہو کے بیٹھ گیا کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے کوئی میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا لیکن کچھ دیر کے بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپ کو دے دیا۔ اس کا باپ بڑا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹے مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے یہ نقشہ جوڑنا پڑتا تو میں اسے نہیں جوڑ سکتا تھا۔
اس پر اس لڑکے نے کہا بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کی دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا برا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دیکھایا گیا تھا۔ میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کر دیا اور چار منٹ کی مدت میں مَیں نے پورا آدمی جوڑ دیا۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جاۓ توساری دنیا جڑ جاۓ گی۔ خواتین و حضرات میں یہی درخواست اپنی ذات سے بھی کرتاہوں کہ کاش جانے سے پہلے ایک ایسی صورت پیدا ہو کہ اردگرد بسنے والے لوگ اور انسان اور اپنے عزیز و اقارب اور ان کے علاوہ لوگوں میں محبت الفت اور یگانگت پیدا ہو جاۓ اور اچھے لگنے لگیں اور اتنے اچھے لگنے لگیں کہ جتنی اپنی ذات اچھی لگتی ہے، لیکن ایسے ہوتا نہیں ہے۔ ہم تو رفاعی ادارے بنانے پر لگے ہوۓ ہیں۔ ماشاء اللہ یہ کام قابلِ داد ہے۔ضرور بنائیں لیکن انفرادی طور پر انسانوں کا خیال رکھیں۔ لوگ عام طور پر سسٹم کی بات کرتے ہیں۔ انسان کی بات نہیں کرتے۔ گورنمنٹ کالج (جس کا نام اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ہے) کے پیچھے ایک محلہ ہے جہاں سے سٹیشنری کی چیزیں ملتی ہیں۔ میں وہاں سے کبھی کاپیاں، کاغذ، لفافے وغیرہ خریدنے چلا جاتا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل میں وہاں گیا تو ایک دکان پر اسّی پچاسی سال کا بوڑھا آدمی بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ اسی عمر کی اس کی بیوی بیٹھی تھی۔ آخر بوڑھا آدمی سخت مزاج تو ہو ہی جاتا ہے اس طرح وہ بوڑھا شخص اپنی بیوی کی جان عذاب میں ڈال رہا تھا اور اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا“ مرجا مرجا‘ آخر تو نے مر تو جانا ہی ہے اور مجھے اس بات کا پتہ ہے لیکن تیرے مرنے کی مجھے کوئی پروا نہیں ہے تو مر جا دفع ہو جا۔“
وہ کہنے لگی “ میں نئیں مردی جدوں اللہ دا حکم ہوۓ گا اودوں مراں گی۔“ میں نے اس سے کہا بابا کیا بات ہے اس سے کیوں لڑتـا ہے۔ کہنے لگا میں اس کے لۓ دوائیاں لاتا ہوں لیکن یہ کھاتی نہیں ہے اور جب یہ انہیں کھاۓ گی نہیں زندہ نہیں رہے گی اور جب یہ زندہ نہیں بچے گی تو میں بھی زندہ نہیں بچوں گا اور اس کا دوائی کھانا میری خود غرضی کا معاملہ ہے۔ یہ تو ایک تعلق کی بات ہوتی ہے اور بابا اسی بات پر ناراض ہو رہا تھا۔ اس کا اس بڑھیا سے گہرا تعلق تھا اور وہ اس تعلق کا خاتمہ نہیں چاہتا تھا۔ کوئی لڑائی جھگڑا ہو‘ محبت ہو یا کوئی گیت گا رہا ہو تو یہ باتیں انسان اور انسان کے درمیان ہوتی ہیں اور یہ انسان کو ایک دوسرے کے قریب لا رہی ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک انسان انسان کے قریب نہیں آۓ گا تب تک وہ سب کچھ ہونے کے باوصف کچھ نہیں ہو سکے گا جس کی ہمیں آرزو ہے اور جس خواہش اور آرزو کے لۓ ہم اپنا دامن پھیلاۓ رکھتے ہیں اور اس آس میں زندہ رہتے ہیں کہ وہ جنتِ ارضی کہاں ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔
ہمارے ہاں آج کل لوگوں کی لوگوں پر توجہ بہت زیادہ ہے اور اس اعتبار سے یہاں اللہ کے فضل سے بہت سارے شفاخانے اور ہسپتال بن رہے ہیں اور جس مخیّر آدمی کے ذہن میں لوگوں کی خدمت کا تصور اٹھتا ہے تو وہ ایک ہسپتال کی داغ بیل ضرور ڈالتا ہے اور پھر اس میں اللہ کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے اور وہ ہسپتال پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے لیکن سارے ہی لوگوں کی کسی نہ کسی جسمانی عارضے میں مبتلا خیال کرنا کچھ ایسی خوش آئیند بات نہیں ہے۔ لوگ جسمانی عوارض کے علاوہ ذہنی، روحانی، نفسیاتی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں یا یوں کہیۓ کہ لوگوں پر کبھی ایسا بوجھ بھی آن پڑتا ہے کہ وہ بلبلاتے ہوۓ ساری دنیا کا چکر کاٹتے ہیں اور کوئی بھی ان کی دستگیری کرنے کے لۓ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں ایک یونس مالی تھا۔ وہ بیچارہ بہت پریشان تھا اور وہ یہ سمجھتے ہوۓ کہ کوئی ہسپتال ہی اس کے دکھوں کا مداوا کرے گا وہ ایک بہت بڑے ہسپتال میں چلا گیا اور وہاں جا کر واویلا کرنے لگا کہ مجھے یہاں داخل کر لو کیونکہ علاقے کے تھانیدار نے مجھ پر بڑی زیادتی کی ہے اور میری بڑی بے عزتی کی ہے جس کے باعث میں بیمار ہو گیا ہوں۔ اب ہسپتال والے اسے کیسے داخل کر لیں۔ انہوں نے اس سے کہا کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے کہ ہم آپ کے دکھوں کا مداوا کر سکیں یا آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ سکیں یا آپ کی تشفّی کر سکیں۔ اس کے لۓ تو کوئی اور جگہ ہونی چاہیۓ اور ہم اس بات سے بھی معذور ہیں کہ آپ کو کوئی ایسی جگہ بتا سکیں۔ یونس بےچارہ پریشان حال سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا اور اب تک پھرتا ہے اور اس کی تشفّی، دستگیری یا حوصلہ جوئی کرنے والا کوئی بھی شخص یا ادارہ نہیں ہے۔ پرانے زمانے میں بطورِ خاص برصغیر اور وسطی ایشیا کے اسلامی ملکوں میں خانقاہیں ہوتی تھیں، ڈیرے ہوتے تھےاور درگاہیں ہوتی تھیں جہاں سے کھانا بھی ملتا تھا اور رہنے اور وقت گزارنے کے لۓ جگہ بھی ملتی تھی اور ایسی جگہوں پر ایسے لوگ بھی ملتے تھے جو دکھ بانٹتے تھے اور یونس جیسے دکھی لوگ ان کے پاس اپنے دکھ لے کر جاتے تھے گو وہ ان کے دکھوں کا علاج تو نہیں کر سکتے تھے لیکن جتنے بھی آدمی وہاں جمع ہوتے تھے تو سارے لوگ اکٹھے ہو کر اس دکھی شخص کی دل جوئی کرتے اور اللہ سے اس کے حق میں دعا کرتے کہ اے اللہ اس کا دکھ دور فرما دے اور ایسے ڈیروں، درگاہوں اور خانقاہوں پر موجود سوغاتیں کھانے والے اور لانے والے سب لوگ اس شخص کے لۓ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے۔ کئی یونسوں کے کندھوں سے بوجھ اتر جاتا تھا لیکن اب ایسی چیزیں مفقود ہو گئی ہیں کیونکہ نئی تعلیم اور ترقی کے دور نے یہ بات واضح کی ہے کہ اس قسم کے ڈیرے اور درگاہیں اور اس قسم کے زاویے ( زاویہ پروگرام کی مثال دیتے ہوۓ جہاں کئی لوگ اکٹھے ہوتے ہیں) اور دائرے ہمیں نہیں چاہئیں کیونکہ انسان صرف جسمانی طور پر ہی مریض ہوتا ہے اور اس کی کیمسٹری میں ہی کوئی فرق پڑتا ہے۔
خواتین و حضرات لوگ ایک دوسرے کا سہارا مانگتے ہیں۔ ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں لیکن ترقی کے اس دور میں ایک دوسرے کے قریب آنے کی ساری راہیں مسدود و مفقود ہو گئی ہیں لیکن پھر بھی انسان اپنے ساتھ والوں کو، اپنے پرکھوں اور آباؤاجداد کو ساتھ ساتھ اٹھاۓ پھرتا ہے۔ اگر کسی روشن دان میں آپ اپنا ہاتھ کھول کر دیکھیں تو آپ کے ہاتھ کی ان لکیروں میں ان چوکھٹوں، چوکھڑیوں اور مساموں کے اندر بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کے جینز موجود ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپ کے آباؤاجداد یا آپ کے پُرکھ تھے۔ ہر وقت ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور آپ کا ہنسنا‘ بولنا‘ غصہ اور آپ کی شوخی و ضد آپ کے اندر ان ہی لوگوں کی طرف سے منتقل ہوتی ہے۔ اگر کسی نہ کسی طرح سے آپ ان کے قریب رہیں یا وہ آپ کے قریب رہیں یا آپ کے اردگرد کے موجود لوگ آپ کو ہاتھ لگا کر محسوس کرتے ہیں یا آپ ان کو Touch کرکے ایک دوسرے کے ہونے کا ثبوت بہم پہنچاتے رہیں تو پھر ایسے ذہنی اور نفسیاتی عارضے لاحق نہیں ہوں گے۔ انسان انسان کی قربت چاہتا ہے اس سے علاج نہیں کروانا چاہتا ہے اور مختلف کمروں میں منتقل ہو کر یہ تقاضا نہیں کرتا کہ میرا کمرہ نمبر 144 یا 213 ہے آپ مجھے وہاں ملنے آ جاؤ۔ لیکن آج کی ترقی ہمیں کمروں میں بند کرکے علاج کروانے کی ترغیب دیتی ہے کہ وقت پر ڈاکٹر آتا ہے اور وقت پر نرس چیک کرتی ہے پھر مشینوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے کہ آپ سی ٹی سکین کے عمل سے گزریں اور دیگر مشینوں سے علاج کروائیں لیکن اس طرح سے علاج ہو نہیں پاتا کیونکہ انسان بکھرا ہوا ہے۔
مجھے اپنے بچپن کے قصبے کا واقعہ یاد ہے۔ قصبوں میں عجیب و غریب قسم کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ "منہ کھر" کی بیماری لاحق ہو گئی( اب بھی یہ بیماری آئی ہوئی ہے جس میں بے شمار جانور مر جاتے ہیں) تو ہمارے قصبے میں کچھ لوگ آۓ جنہیں بھوکے قسم کے لوگ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے کھدر کے کئی تھان منگواۓ اور شام کو گڈوں ( چھکڑوں) پر ان تھانوں کو پھیلا کر ( ہم چھوٹے بچے انہیں دیکھتے تھے کہ یہ کیا کر رہے ہیں) بڑے بڑے ہاتھیوں کی شکل بنا ( آپ ہاتھیوں سے تو واقف ہوں گے یہ بڑا مویشی ہوتا ہے اور اس سے بڑا کام لیا جاتا ہے ۔سری لنکا میں لوگ اس سے ہل بھی چلاتے ہیں) کر ان گڈوں کو دریا کنارے لے گۓ اور وہ لوگ ان پر اپنے کچھ مخصوص سے منتر پڑھتے تھے اور دعا کرتے تھے کہ یا اللہ اس قصبے سے یہ بیماری چلی جاۓ۔ میں اب ٹھیک سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسی چیزوں سے علاج ہوتا تھا یا نہیں لیکن لوگوں کا یہ اجتماع انہیں ایسی طاقت عطا کرتا تھا کہ وہ بیماری پر بڑی شدت اور زور کا حملہ کرتے تھے اسی لۓ ہمارے بزرگانِ دین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مخلوقِ خدا کا ساتھ دو اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرو، اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے کیونکہ مخلوقِ خدا کی Magnetic Force الٹ کر آپ کے اندر کی جو خرابیاں ہیں وہ بھی ٹھیک کر دے گی اور ان کا بھی علاج کر دے گی۔ میں تقسیمِ برصغیر کے اترپردیش کے جس قصبے کا ذکر کر رہا ہوں وہاں مویشیوں کا اس طرح سے علاج کیا جاتا تھا۔ وہاں ایک مرتبہ بارش نہ ہوئی۔ وہاں اکثر ایسا ہو جاتا تھا اور اب اس طرح ہمارے ہاں بھی مسئلہ ہے۔ میرے قصبے والے سخت خشک سالی کے خاتمے کی دعا کروانے کے لۓ ایک صاحبِ دعا کو لے آۓ اور اس سے درخواست کی کہ آپ ہمارے قصبے میں دعا کریں کہ ابرِ رحمت برسے کیونکہ بڑی تنگی ہے۔ اس صاحبِ دعا نے کہا کہ میں قصبے کے کنارے ایک جھونپڑی میں رہوں گا اور کوئی آدمی مجھے Disturb نہ کرے اور پھر میں دعا کروں گا، آپ لوگوں کو سات دن تک انتطار کرنا ہو گا چناں چہ ان کے لۓ ایک جھونپڑی کا انتظام کر دیا گیا۔ ساتویں دن سے پہلے ہی یعنی پانچویں دن ہی اللہ کا فضل ہو گیا اور بارش ہونے لگی اور ہر طرف جل تھل ہو گیا۔ لوگ بڑی مٹھائی، سوغاتیں اور پھولوں کے ہار لے کر اس صاحبِ دعا کی جھونپڑی میں آۓ تو انہوں نے ہنس کر کہا بھئی میں نے تو کوئی خاص دعا نہیں کی۔ میں نے تو کچھ خاص نہیں کیا، جب آپ لوگ مجھے قصبے میں لاۓ تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ سارے لوگ بکھرے ہوۓ اور Disorder کی کیفیت میں پھر رہے ہیں، بے ہنگم سے ہیں اور کسی کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب ایک آدمی دوسرے کے پاس سے گزرتا ہے تو دوسرے کو مخاطب کرکے نہ سلام کہتا ہے نہ دعا دیتا ہے بس گزر جاتا ہے۔ میں دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ ان کے اندر Unity کا جو کرنٹ ہے وہ نہیں چل رہا۔ ہر آدمی الگ الگ زندگی بسر کر رہا ہے اور مجھے جانوروں کو دیکھ کر آپ کے رویے سے تکلیف ہوئی کہ یہاں تو چیونٹیاں بہت اچھی ہیں جو جب قطار میں چل رہی ہوتی ہیں تو رک کر دوسری چیونٹی سے اس کا حال ضرور پوچھتی ہیں۔ ( اگر آپ نے بھی کبھی غور سے دیکھا ہو تو آپ نے بھی یہ مشاہدہ کیا ہو گا) اور میں یہ دیکھ کر ایک الگ جھونپڑی میں چلا آیا اور میں نے اپنے آپ کو ہی مُجتَمِع کیا کیونکہ آپ لوگوں کے ساتھ رہنے سے میری ذات بھی بٹ گئی تھی اور الگ الگ حصوں بخروں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ میں اس لۓ الگ تھلگ بیٹھا رھا اور پھر میں نے اللہ کے فضل سے محسوس کیا کہ آپ لوگوں کے اندر بھی تعاون اور یکجِہَتی اور یگانگت پیدا ہونے لگی ہے۔ کیونکہ میری خدا سے یہی دعا تھی۔ جب آپ لوگوں میں یگانگت پیدا ہونے لگی تو آپ کے اردگرد کے موسم اور ان بخارات میں بھی یکجہتی پیدا ہونے لگی اور مل کر بادل بنتے ہیں چناچہ بادل بنے اور برکھا ہوئی۔ میں نے تو کوئی کمال نہیں کیا اور نہ ہی میں نے بارش کے لۓ دعا مانگی ہے بلکہ میں تو اس جھونپڑی میں بیٹھ کر اس بات پر زور دیتا رہا کہ آپ میں اتحاد ہو اور آپ کی سوچ میں اتحاد ہو۔ میں نے اس دوران آپ کو پہچانا ہے اور محسوس کیا ہے کہ آپ (کی) کیا خطا ہے۔ ہمارے بابا جی تھے وہ رات کو کبھی ڈیڑھ کبھی دو بجے تہجد کے بعد ہمیں درس دیا کرتے تھے۔ وہ وقت بڑا خاموش لمحہ ہوتا ہے اور وہاں چند ایک آدمی ہوتے تھے۔ درس کے بعد پھر فجر کی نماز آ جاتی تھی اور سلام پھیرنے کے بعد روشنی آنے لگتی تھی۔ ایک روز فجر کی نماز سے قبل بابا جی نے پوچھا کہ "بتاؤ اندھیرا روشنی میں کب تبدیل ہوتا ہے اور اجالا کب ہوتا ہے۔
وہاں ہمارے دوست ڈاکٹر صاحب تھے وہ ہم سے بڑے تھے اور بڑے ذہین آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار جب آدمی کو دور سے یہ نظر آنے لگے کہ یہ کونسا جانور ہے تو تب اجالا ہو رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ جب کتے اور بکری کی پہچان واضح طور پر ہونے لگے تو روشنی ہو رہی ہوتی ہے۔ وہاں آفتاب صاحب جنہیں ہم سیکرٹری صاحب کہتے تھے انہوں نے کہا جب درخت اچھی طرح سے نظر آنے لگیں اور آدمی کی نگاہیں یہ بھانپ جائیں کہ یہ نیم یا شہتوت کا ہے تو روشنی قریب تر آجاتی ہے۔
بابا جی نے کہا نہیں یہ بات نہیں ہے۔ روشنی تب ہوتی ہے جب آپ ایک شخص کو دیکھ کر یقین کے ساتھ یہ کہنے لگیں کہ یہ میری ہمشیرہ ہے، یہ میرا بھائی ہے۔ جب انسانوں کے چہرے آپ پہچاننے لگیں اور آپ کو ان کی پوری شناخت ہو جاۓ تو اس کے بعد اجالا ہوتا ہے۔ جانور یا نباتات کو جاننے سے اجالا نہیں ہوتا۔ ان کا مطلب تھا کہ “ آدمی آدمی کا دارو ہے۔“
آدمی جب آدمی کے قریب آۓ گا تو پھر ہی کچھ حاصل ہو گا جب یہ دور جاۓ گا تو پھر کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ آج کل آپ افغانستان کی جنگ کے حوالے سے ڈیزی کٹر بم کی بڑی بات کرتے ہیں کہ اس نے ایسا کام کیا کہ پتھروں کو ریت میں تبدیل کر دیا اور ہزاروں انسانوں کو چشمِ زدن میں تہِ تیغ کر دیا۔ ڈیزی کٹر کا ذکر کرتے ہوۓ کئی لوگوں کے چہروں پر عجیب طرح کی فتح مندی کے آثار دیکھتا ہوں۔ یہ چشم زدن میں انسانی و نباتاتی تباہی کرنے والے آلات یا بم ترقی یا روشن مستقبل کی دلیل ہرگز ہرگز نہیں ہے کیونکہ جب تک انسان انسان کے قریب نہیں آۓ گا اور اس کے دکھوں کا “ دارو“ نہیں کرے گا بات نہیں بنے گی۔
ایک بڑے اچھے جلد ساز تھے اور ہم سب علم دوست ان سے مخصوص کاغذوں کی جلدیں کروایا کرتے تھے۔ یہ ہماری جوانی کے دنوں کی بات ہے اور اس جلد ساز کا نام نواز محمد تھا۔ جب ہم ایم - اے میں پڑھتے تھے تو ہمارا ایک دوست نشے کا عادی ہو گیا۔ ہم چونکہ سمجھدار، پڑھے لکھےاور سیانے دوست تھے ، ہم اسے مجبور کرنے لگے کہ تمہیں یہ بری عادت چھوڑ دینی چاہیۓ ورنہ ہم تمھارا ساتھ نہیں دے سکیں گے اور ہم تمھارے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔ وہ بیچارہ ایک تو نشے کی لعنت میں گرفتار تھا دوسرا وہ روز ہماری جھڑکیاں سہتا تھا جس کے باعث وہ ہم سے کنارہ کشی کرنے لگا۔ محمد نواز جلد ساز بڑے خوبصورت دل کا آدمی تھا۔ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔ گو وہ اقتصادی طور پر ہمارے دائرے کے اندر نہیں تھا لیکن وہ خوشگوار طبیعت کا مالک تھا۔ اس نے ایک دن اس آدمی(ہمارے دوست) کا ہاتھ تھام کر کہا کہ بھلے تم نشہ کرو اور جتنا مرضی کرو مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے اور تو چاہے نشہ کرے یا نہ کرے میں تمھیہں چھوڑوں گا نہیں، تو ہمارا یار ہے اور یار رہے گا۔ اس نے کہا پنجابی کا ایک محاورا ہے کہ یار کی یاری دیکھنی چاہیۓ یار کے عیبوں کی طرف نہیں جانا چاہیۓ۔ خواتین و حضرات آپ یقین کیجیۓ کہ بغیر کسی طبعی علاج اور ماہرِ نفسیات کی مدد کے جب ہمارے نشئی دوست کو محمد نواز جلد ساز کا سہارا ملا تو وہ نشے کی بری اور گندی عادت سے باہر نکل آیا اور صحت مند ہونا شروع ہوگیا۔ انسان کو انسان ہی سہارا دے سکتا ہے۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہیۓ کہ کیا انفرادی طور پر ہی کسی کا ساتھ دیا جا سکتا ہے یا پھر انسان مدد کے لۓ ادارے ہی بناتا رہے۔ پرانے زمانے میں اس بات کی بڑی تلقین کی جاتی تھی کہ “مخلوقِ خدا کا ساتھ دیں “ کیونکہ جب تک اس کا ساتھ نہیں دیں گے ان کی طرف سے آنے والی طاقت آپ تک نہیں پہنچ پاۓ گی۔ مجھے وہ بات یاد آ رہی ہے جو میں نے شاید ٹی وی پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیۓ جس میں دنیا کا رنگین نقشہ تھا اور اس نقشے کو ٣٢ ٹکروں میں تقسیم کردیا اور اپنے پانچ چھ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا ور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکڑوں میں ہے تم اسے جوڑ کر دکھاؤ۔ اب وہ بےچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہو کے بیٹھ گیا کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے کوئی میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا لیکن کچھ دیر کے بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپ کو دے دیا۔ اس کا باپ بڑا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹے مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے یہ نقشہ جوڑنا پڑتا تو میں اسے نہیں جوڑ سکتا تھا۔
اس پر اس لڑکے نے کہا بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کی دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا برا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دیکھایا گیا تھا۔ میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کر دیا اور چار منٹ کی مدت میں مَیں نے پورا آدمی جوڑ دیا۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جاۓ توساری دنیا جڑ جاۓ گی۔ خواتین و حضرات میں یہی درخواست اپنی ذات سے بھی کرتاہوں کہ کاش جانے سے پہلے ایک ایسی صورت پیدا ہو کہ اردگرد بسنے والے لوگ اور انسان اور اپنے عزیز و اقارب اور ان کے علاوہ لوگوں میں محبت الفت اور یگانگت پیدا ہو جاۓ اور اچھے لگنے لگیں اور اتنے اچھے لگنے لگیں کہ جتنی اپنی ذات اچھی لگتی ہے، لیکن ایسے ہوتا نہیں ہے۔ ہم تو رفاعی ادارے بنانے پر لگے ہوۓ ہیں۔ ماشاء اللہ یہ کام قابلِ داد ہے۔ضرور بنائیں لیکن انفرادی طور پر انسانوں کا خیال رکھیں۔ لوگ عام طور پر سسٹم کی بات کرتے ہیں۔ انسان کی بات نہیں کرتے۔ گورنمنٹ کالج (جس کا نام اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ہے) کے پیچھے ایک محلہ ہے جہاں سے سٹیشنری کی چیزیں ملتی ہیں۔ میں وہاں سے کبھی کاپیاں، کاغذ، لفافے وغیرہ خریدنے چلا جاتا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل میں وہاں گیا تو ایک دکان پر اسّی پچاسی سال کا بوڑھا آدمی بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ اسی عمر کی اس کی بیوی بیٹھی تھی۔ آخر بوڑھا آدمی سخت مزاج تو ہو ہی جاتا ہے اس طرح وہ بوڑھا شخص اپنی بیوی کی جان عذاب میں ڈال رہا تھا اور اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا“ مرجا مرجا‘ آخر تو نے مر تو جانا ہی ہے اور مجھے اس بات کا پتہ ہے لیکن تیرے مرنے کی مجھے کوئی پروا نہیں ہے تو مر جا دفع ہو جا۔“
وہ کہنے لگی “ میں نئیں مردی جدوں اللہ دا حکم ہوۓ گا اودوں مراں گی۔“ میں نے اس سے کہا بابا کیا بات ہے اس سے کیوں لڑتـا ہے۔ کہنے لگا میں اس کے لۓ دوائیاں لاتا ہوں لیکن یہ کھاتی نہیں ہے اور جب یہ انہیں کھاۓ گی نہیں زندہ نہیں رہے گی اور جب یہ زندہ نہیں بچے گی تو میں بھی زندہ نہیں بچوں گا اور اس کا دوائی کھانا میری خود غرضی کا معاملہ ہے۔ یہ تو ایک تعلق کی بات ہوتی ہے اور بابا اسی بات پر ناراض ہو رہا تھا۔ اس کا اس بڑھیا سے گہرا تعلق تھا اور وہ اس تعلق کا خاتمہ نہیں چاہتا تھا۔ کوئی لڑائی جھگڑا ہو‘ محبت ہو یا کوئی گیت گا رہا ہو تو یہ باتیں انسان اور انسان کے درمیان ہوتی ہیں اور یہ انسان کو ایک دوسرے کے قریب لا رہی ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک انسان انسان کے قریب نہیں آۓ گا تب تک وہ سب کچھ ہونے کے باوصف کچھ نہیں ہو سکے گا جس کی ہمیں آرزو ہے اور جس خواہش اور آرزو کے لۓ ہم اپنا دامن پھیلاۓ رکھتے ہیں اور اس آس میں زندہ رہتے ہیں کہ وہ جنتِ ارضی کہاں ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔