ادلے کا بدلہ
ایک شخص جو اپنے بوڑھے باپ سے بڑا تنگ تھا ، ایک دن اسے کمر پر لاد کر اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے اور چلتے چلتے وہ دونوں دریا پر پہنچ جاتے ہیں ۔ وہ شخص پانی میں اترتا ہے اور گہرے پانی میں جانے لگتا ہے ۔ اور ایک مقام پر اس کا بوڑھا باپ اپنے بیٹے سے پوچھتا ہے کہ " بیٹا کیا کر رہے ہو " ؟
وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیری روز روز کی بڑ بڑ سے تنگ آ کر تجھے دریا برد کرنے آیا ہوں ۔ (یا ہو سکتا ہے اس نے اپنے باپ کو کوئی اور جواب دیا ہو ) اور سوچ رہا ہوں کہ تجھے ذرا گہرے پانی میں پھینکوں تا کہ تو جلدی ڈوب جائے تو اس کا بوڑھا باپ جواب دیتا ہے " بیٹا جس جگہ تو مجھے پھینک رہا ہے یہاں نہ پھینکنا بلکہ ذرا اور آگے اور گہرے پانی میں پھینکنا " ۔
بیٹا پوچھتا ہے کہ " کیوں ، یہاں کیوں نہ پھینکوں "۔
اس کا باپ کہتا ہے کہ " اس جگہ میں نے تیرے دادا اور اپنے باپ کو پھینکا تھا " ۔
یہ سن کر اس کا بیٹا اپنے باپ کو واپس گھر لے آتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ جب وہ بوڑھا ہوگا تو اس کی منزل اس سے بھی گہرا پانی ہوگا ، جہاں وہ اپنے باپ کو پھینکنے والا تھا ۔ ادلے کا بدلہ تو ہونا ہی ہوتا ہے ناں ! ۔
اشفاق احمد زاویہ 3 پندرہ روپے کا نوٹ صفحہ 46
وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیری روز روز کی بڑ بڑ سے تنگ آ کر تجھے دریا برد کرنے آیا ہوں ۔ (یا ہو سکتا ہے اس نے اپنے باپ کو کوئی اور جواب دیا ہو ) اور سوچ رہا ہوں کہ تجھے ذرا گہرے پانی میں پھینکوں تا کہ تو جلدی ڈوب جائے تو اس کا بوڑھا باپ جواب دیتا ہے " بیٹا جس جگہ تو مجھے پھینک رہا ہے یہاں نہ پھینکنا بلکہ ذرا اور آگے اور گہرے پانی میں پھینکنا " ۔
بیٹا پوچھتا ہے کہ " کیوں ، یہاں کیوں نہ پھینکوں "۔
اس کا باپ کہتا ہے کہ " اس جگہ میں نے تیرے دادا اور اپنے باپ کو پھینکا تھا " ۔
یہ سن کر اس کا بیٹا اپنے باپ کو واپس گھر لے آتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ جب وہ بوڑھا ہوگا تو اس کی منزل اس سے بھی گہرا پانی ہوگا ، جہاں وہ اپنے باپ کو پھینکنے والا تھا ۔ ادلے کا بدلہ تو ہونا ہی ہوتا ہے ناں ! ۔
اشفاق احمد زاویہ 3 پندرہ روپے کا نوٹ صفحہ 46