اسلامی اِنقلاب اور ادب
اظہار مافی الضمیر کو خوبصورت پیرایہ مل جائے تو اسے ادب کہتے ہیں۔ خواہ وہ نثر ہو یا نظم، کلام میں دل کی گہرائیوں میں سرایت کرجانے کی قوت ہو، الفاظ جچے تلے ہوں ، مفہوم واضح ہو ، تراکیب سبک اور رواں ہوں ، مضمون اچھوتا اور دلنشیں ہو ، جملوں کی بندش کا خاص اہتممام ہو تو ایسا ادب "ادبِ عالیہ" کہلاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ بھلی بات جو بہت سوں کو بھلی لگے ، ادب شمار ہوتی ہے۔
تمام ادبی حلقوں میں یہ بحث کب سے جاری ہے اور اب تک موجود ہے کہ ادب درحقیقت "ادب برائے ادب" ہوتا ہے یا "ادب برائے مقصد"۔ ہمارے خیال میں دنیا کی کوئی چیز جس خلاق فطرت نے کوئی سا قالب بخشا ہے ، بے مقصد نہیں۔ خواہ وہ چکنے پتھر پر رینگتی چیونٹی ہو یا اتھاہ اندھیروں میں سانس لینے والا کوئی کیڑا، ان میں سے کوئی بھی بلاضرورت اور بلاجواز نہیں۔ فطرت کی ہزاروں حکمتیں اس میں پوشیدہ ہوں گی خواہ ان کا انکشاف ہوا یا ابھی تک ذہنِ فطرت میں پردہ کشائی کی منتظر ہوں۔ تو پھر کیوں کر "ادب" ایسی چیز جس کا براہ راست تعلق فرد کے دل اور معاشرے کے دماغ سے ہو بے مقصد ہوسکتی ہے؟ منہ سے نکلا ہوا کوئی سا جملہ بھی بے مقصدیت سے خالی نہیں ہوتا، گو کسی پر طنز ہو یا خود کلامی!
تو وہ صنف جسے الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کے لئے دماغ پگھلے ، ذہن گھنٹوں تک سوچ میں ڈوبا رہے ، رات کی نیند اچاٹ جائے اور دن محویت اور مراقبے میں بسر ہوں تب نوکِ قلم اور زبان کسی لفظ سے آشنا ہو ، کیسے بے مقصد اور خالی از منفعت ہوسکتی ہے؟
ہاں وہ لوگ جو خود اپنے وجود کی مقصدیت کے منکر ہوں تو ان کا ادب تو کجا ہر قول و فعل بے مقصد ہی ہوگا ۔ جب وجود ہی بے معنی ہے تو اس کے تعینات اور اعتبارات کیا مفہوم پائیں گے؟
آزاد خیالی کی حدِ انتہا الحاد کہلاتی ہے ، لیکن نکتہ وروں نے الحاد کو بھی ایک مسلک مانا ہے ، مادیت اور اس کے مظاہر میں سرتاپا غرق ادیب کوئی بھی جملہ سپردِ قلم کرے گا تو اس کا ادب بھی بامقصد ہوگا ، خواہ وہ کتنا پست اور منفی کیوں نہ ہو ، سو یہ بات طے ہے کہ "ادب براے ادب" ایک اپج ضرور ہے خلا میں بسنے والے دماغوں اور رائی کا پربت بنانے والے ذہنوں کی ، حقیقت کی دنیا سے اس کا کوئی علمی اور منطقی اعتبار ثابت نہیں ہوتا۔
ادب معاشرے کی آنکھ ، کان ، زبان اور ذہن ہوتا ہے ، انسانی زندگی میں پھیلے ہوے ہزاروں بے جوڑ و سنگین واقعات ، طبقاتی امتیازات ، روزمرہ کے معمولات ، رموز و کنایات ، سنگین حادثات ، فطرت کی نوازشات ، یہ سب کچھ ایک ادیب کو دکھائی اور سنائی دیتے ہیں ، جس سے اس کا ذہن منفی یا مثبت طور پر متاثر ہوتا ہے ، ان مناظر کو وہ زبان عطا کرتا ہے اور پھر سے وہ معاشرے کو لوٹا دیتا ہے۔ ادیب کی بات حقائق سے ہم آہنگ ہو تو معاشرہ اسے اپنے اندر جذب کرلیتا ہے کبھی تو وہ چیزیں کھمبی کی طرح یکایک اگ آتی ہیں اور کبھی معاشرہ دانہ گندم کی طرح ایک خاص عمل سے گزار کر ذرا توقف کے بعد نشوونما دیتا ہے۔ اگر وہ ادیب اپنے اظہار کو حقائق کے قریب نہیں کرسکا تو اس کے الفاظ محتاج معانی رہ جاتے ہیں ، کچھ مدت کے بعد بھعلی بسری داستان بن جاتے ہیں۔
چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ "عہد جاگیر" کے ادب اور "دورِ سرمایہ" کے ادب میں امتیازی فرق ہے ، اسی طرح مادی معاشرے اور روحانی قدروں پر استوار سوسائٹی کا ادب ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتا ہے ، ملوک و سلاطین اور سلطانی جمہور کا ادب دو مختلف سمتیں رکھتا ہے ، افریقی و یورپی ادب میں نمایاں اختلاف ہوگا ، اگر "ادب براے ادب" کا فلسفہ تسلیم کرلیا جائے تو نئی دنیا اور وہ بھی خلا میں بسا کر ہی اسے سچ ثابت کیا جاسکتا ہے ورنہ جہاں حق اور باطل ، ظالم اور مظلوم ، حاکم اور محکوم برسر پیکار ہوں گے ، ادب کبھی غیرجانبدار نہیں رہ سکتا۔
چونکہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کی بنیادوں سے لے کر کنگروں تک اسلام ہی اسلام ہے اس لئے اس کا ادب "اسلامی ادب" کہلائے گا ، اگر اشتراکی ادب ، ترقی پسند ادب ، رومانوی ادب ، تجریدی ادب ایسی اصطلاحیں قابل قبول ہیں تو "اسلامی ادب" کی اصطلاح ہر لحاظ سے صحیح اور جامع ہے۔
کوئی بھی ہمہ گیر اِنقلاب کسی معاشرے میں اس وقت تک برپا نہیں ہوتا جب تک کہ قوم کے اذہان اس کے لئے پوری طرح تیار نہ ہوں ، یہ ذہنی تیاری نثری اور منظوم ادب کے بغیر ممکن نہیں۔ ادیب قوم کے خفتہ جذبات کو بیدار کرتا ، لطیف حساسات کے تار ہلاتا ،معاشرتی تضادات کو ابھارتا اور لوگوں میں تبدیلی کی آگ بھڑکاتا ہے۔ فاسق و فاجر معاشرے میں لوگوں کی حسِ لطیف منجمد ہوکر رہ جاتی ہے ، وڈیروں کا ظلم و ستم لوگوں کو جذبات سے عاری کردیتا ہے ، حکومت کی ناانصافیاں اور آمرانہ چالیں لوگوں میں اکتاہٹ کی حد تک یکستانیت پیدا کردیتی ہیں جس کے نتیجے میں عوام اپنے حقوق تک فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ نہ ان میں جینے کی خواہش رہتی ہے نہ پنپنے کی امنگ اور نہ ہی آگے بڑھنے کی صلاحیت ! ۔ اس موقع پر ادب انسانوں کو زندگی کے نئے تقاضوں ، جاندار رویوں ، صحت بخش سوچ اور حیات آفریں ذوق عطا کرکے معاشرے کی قدریں بدلنے پر آمادہ کرتا ہے۔
کوئی بھی انسانی سوسائٹی حکومتی قوانین کے بل بوتے پر حرکت نہیں کرتی بلکہ معاشرے کے قالب مین سوچ ، فکر ، ذوق خود آگہی ، حسِ لطیف ، اور جوہرِ انسانی کی روح اسے زندہ رکھتی اور عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ ادب کا انہی صفات اور صلاحیتوں سے براہ راست تعلق اور ادب ہی یہ فر رابطہ ہوتا ہے ، حکومتی قوانین زیادہ سے زیادہ معاشرے کا اوپری ڈھانچہ قائم رکھنے کے لیے کارآمد ثابت ہوتے ہیں ورنہ ان کا انسانوں کی تعلیم و تربیت ، ذہن سازی ، فکر انگیزی ، احساس فرض اور دوسری مثبت صلاحیتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
ادب ہی یہ فریضہ سر انجام دیتا ہے اور مثبت نتائج پیدا کرتا ہے۔ ذہن کے دور دراز گوشے ، دلی اتھاہ گہرائیاں ، دماغ کے لطیف ترین پردے ، سوچ کا آخری نقطہ ، فکر کی پنہائی اور عقل کی بلند ترین سطح صرف ادب ہی سے اثر لیتی ہے ، جب انسان کی داخلی کیفیت بدل جاتی ہے تو معاشرے کی خارجی صورت اپنے آپ اِنقلاب سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔
ادیب ہی جنگوں کے لئے ذہن بناتے ہیں اور امن کی راہیں ہموار کرتے ہیں ، ادیب ہی طبقاتی کشمکش کو آخری مراحل میں داخل کرکے اسے اِنقلاب کے منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی اِنقلاب کے لیے ادب اور ادیب کا بنیادی کردار نظر آتا ہے۔
دوسرے اِنقلابات چونکہ وقتی اور یک رخے ہیں اس لیے ان کے حوالے سے ادب کی بھی مخصوص نوعیت سامنے آتی ہے جبکہ اسلام بذات خود ایک دائمی ، کامل ، ہمہ گیر ، مثبت اور اِنقلاب پرور دین ہے ، بناء برین اسلامی ادب کا دائرہ اتنا ہی وسیع ، اثرات اتنے ہی پائیدار ، نقطہ نگاہ اتنا ہی بلند اور نصب العین اتنا ہی آفاقی اور کائناتی بن جاتا ہے۔
اسلام بیک وقت بدی کے مقابلے میں نیکی ، ظلم کے معاملے میں عدل ، طبقات کے مقابلے میں مساوات ، جبر کے مقابلے میں آزادی ، آمریت کے مقابلے میں شورائیت ، استحصال کے مقابلے میں انصاف اور جہالت کے مقابلے میں علم کا داعی ہے اس لئے اسلامی ادب کے موضوعات میں اخلاقیات ، اجتماعیات ، سیاسیات ، معاشیات اور سوانح و شخصیات سبھی کچھ شامل ہوتا ہے ۔ایک ہمہ گیر اِنقلاب کی تیاری کے لئے تمام شعبہ ہائے علم زیر بحث آتے ہیں۔
ادب ہی کے ذریعے ملک کی ناخواندہ اکثریتی کو مائل بہ تعلیم کیا جاتا سکتا ہے ، ادبی تحریریں ہی استحصال ، ظلم ، جبر اور آمریت کے خلاف جذبات ابھارتیں اور انہیں اِنقلاب کے راستے پر ڈال سکتی ہیں ، اِنقلاب سے پہلے ادب کی زبان میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ ایک جنت نظیر سوسائٹی کا نقشہ کھینچتی اور لوگوں کو روحانی اور ذہنی طور پر ایسی سوسائٹی کی تشکیل پر آمادہ کرتی ہے۔ جب اِنقلاب کا وقوع حقیقت ثابت ہوتا نظر آتا ہے تو ذہنوں کی زمین پہلے سے بالکل تیار ہوچکی ہوتی ہے ، ایک ادیب کسی مثالی معاشرے کی نقشہ کھینچتے ہوئے لوگوں کے جذبات کو متوجہ کرنے کا شاندار سلیقہ رکھتا ہے کہ اِنقلابی معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں نیکی غالب اور بدی مغلوب ہو ، بھوک ، ننگ ، بیماری اور جہالت کا نام و نشان نہ ہو ، حقوق طلبی کے مقابلے میں فرائض کی ادائیگی عمومی رویہ ہو ، کسی کے ضمیر پر بوجھ اور کسی کے ذہن پر تالے نہ پڑے ہوں ، کوئی آقا اور کوئی بندہ نہ ہو ، عدل کا پلڑا کسی کی جانب جھکا ہوا نہ ہو ، کچھ ہاتھ سے دینے والے اور کچھ لینے والے نہ ہوں ، جہاں زر اور زمین قدر عزت نہیں بلکہ اہلیت اور صلاحیتِ معیار عظمت ہو۔ بلاشبہ ادب کو اسلامی اِنقلاب کی منزل کے حصول کے لئے سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔
از
روحِ اِنقلاب
صاحبزادہ خورشید گیلانی رحمۃ اللہ علیہ
اظہار مافی الضمیر کو خوبصورت پیرایہ مل جائے تو اسے ادب کہتے ہیں۔ خواہ وہ نثر ہو یا نظم، کلام میں دل کی گہرائیوں میں سرایت کرجانے کی قوت ہو، الفاظ جچے تلے ہوں ، مفہوم واضح ہو ، تراکیب سبک اور رواں ہوں ، مضمون اچھوتا اور دلنشیں ہو ، جملوں کی بندش کا خاص اہتممام ہو تو ایسا ادب "ادبِ عالیہ" کہلاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ بھلی بات جو بہت سوں کو بھلی لگے ، ادب شمار ہوتی ہے۔
تمام ادبی حلقوں میں یہ بحث کب سے جاری ہے اور اب تک موجود ہے کہ ادب درحقیقت "ادب برائے ادب" ہوتا ہے یا "ادب برائے مقصد"۔ ہمارے خیال میں دنیا کی کوئی چیز جس خلاق فطرت نے کوئی سا قالب بخشا ہے ، بے مقصد نہیں۔ خواہ وہ چکنے پتھر پر رینگتی چیونٹی ہو یا اتھاہ اندھیروں میں سانس لینے والا کوئی کیڑا، ان میں سے کوئی بھی بلاضرورت اور بلاجواز نہیں۔ فطرت کی ہزاروں حکمتیں اس میں پوشیدہ ہوں گی خواہ ان کا انکشاف ہوا یا ابھی تک ذہنِ فطرت میں پردہ کشائی کی منتظر ہوں۔ تو پھر کیوں کر "ادب" ایسی چیز جس کا براہ راست تعلق فرد کے دل اور معاشرے کے دماغ سے ہو بے مقصد ہوسکتی ہے؟ منہ سے نکلا ہوا کوئی سا جملہ بھی بے مقصدیت سے خالی نہیں ہوتا، گو کسی پر طنز ہو یا خود کلامی!
تو وہ صنف جسے الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کے لئے دماغ پگھلے ، ذہن گھنٹوں تک سوچ میں ڈوبا رہے ، رات کی نیند اچاٹ جائے اور دن محویت اور مراقبے میں بسر ہوں تب نوکِ قلم اور زبان کسی لفظ سے آشنا ہو ، کیسے بے مقصد اور خالی از منفعت ہوسکتی ہے؟
ہاں وہ لوگ جو خود اپنے وجود کی مقصدیت کے منکر ہوں تو ان کا ادب تو کجا ہر قول و فعل بے مقصد ہی ہوگا ۔ جب وجود ہی بے معنی ہے تو اس کے تعینات اور اعتبارات کیا مفہوم پائیں گے؟
آزاد خیالی کی حدِ انتہا الحاد کہلاتی ہے ، لیکن نکتہ وروں نے الحاد کو بھی ایک مسلک مانا ہے ، مادیت اور اس کے مظاہر میں سرتاپا غرق ادیب کوئی بھی جملہ سپردِ قلم کرے گا تو اس کا ادب بھی بامقصد ہوگا ، خواہ وہ کتنا پست اور منفی کیوں نہ ہو ، سو یہ بات طے ہے کہ "ادب براے ادب" ایک اپج ضرور ہے خلا میں بسنے والے دماغوں اور رائی کا پربت بنانے والے ذہنوں کی ، حقیقت کی دنیا سے اس کا کوئی علمی اور منطقی اعتبار ثابت نہیں ہوتا۔
ادب معاشرے کی آنکھ ، کان ، زبان اور ذہن ہوتا ہے ، انسانی زندگی میں پھیلے ہوے ہزاروں بے جوڑ و سنگین واقعات ، طبقاتی امتیازات ، روزمرہ کے معمولات ، رموز و کنایات ، سنگین حادثات ، فطرت کی نوازشات ، یہ سب کچھ ایک ادیب کو دکھائی اور سنائی دیتے ہیں ، جس سے اس کا ذہن منفی یا مثبت طور پر متاثر ہوتا ہے ، ان مناظر کو وہ زبان عطا کرتا ہے اور پھر سے وہ معاشرے کو لوٹا دیتا ہے۔ ادیب کی بات حقائق سے ہم آہنگ ہو تو معاشرہ اسے اپنے اندر جذب کرلیتا ہے کبھی تو وہ چیزیں کھمبی کی طرح یکایک اگ آتی ہیں اور کبھی معاشرہ دانہ گندم کی طرح ایک خاص عمل سے گزار کر ذرا توقف کے بعد نشوونما دیتا ہے۔ اگر وہ ادیب اپنے اظہار کو حقائق کے قریب نہیں کرسکا تو اس کے الفاظ محتاج معانی رہ جاتے ہیں ، کچھ مدت کے بعد بھعلی بسری داستان بن جاتے ہیں۔
چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ "عہد جاگیر" کے ادب اور "دورِ سرمایہ" کے ادب میں امتیازی فرق ہے ، اسی طرح مادی معاشرے اور روحانی قدروں پر استوار سوسائٹی کا ادب ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتا ہے ، ملوک و سلاطین اور سلطانی جمہور کا ادب دو مختلف سمتیں رکھتا ہے ، افریقی و یورپی ادب میں نمایاں اختلاف ہوگا ، اگر "ادب براے ادب" کا فلسفہ تسلیم کرلیا جائے تو نئی دنیا اور وہ بھی خلا میں بسا کر ہی اسے سچ ثابت کیا جاسکتا ہے ورنہ جہاں حق اور باطل ، ظالم اور مظلوم ، حاکم اور محکوم برسر پیکار ہوں گے ، ادب کبھی غیرجانبدار نہیں رہ سکتا۔
چونکہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کی بنیادوں سے لے کر کنگروں تک اسلام ہی اسلام ہے اس لئے اس کا ادب "اسلامی ادب" کہلائے گا ، اگر اشتراکی ادب ، ترقی پسند ادب ، رومانوی ادب ، تجریدی ادب ایسی اصطلاحیں قابل قبول ہیں تو "اسلامی ادب" کی اصطلاح ہر لحاظ سے صحیح اور جامع ہے۔
کوئی بھی ہمہ گیر اِنقلاب کسی معاشرے میں اس وقت تک برپا نہیں ہوتا جب تک کہ قوم کے اذہان اس کے لئے پوری طرح تیار نہ ہوں ، یہ ذہنی تیاری نثری اور منظوم ادب کے بغیر ممکن نہیں۔ ادیب قوم کے خفتہ جذبات کو بیدار کرتا ، لطیف حساسات کے تار ہلاتا ،معاشرتی تضادات کو ابھارتا اور لوگوں میں تبدیلی کی آگ بھڑکاتا ہے۔ فاسق و فاجر معاشرے میں لوگوں کی حسِ لطیف منجمد ہوکر رہ جاتی ہے ، وڈیروں کا ظلم و ستم لوگوں کو جذبات سے عاری کردیتا ہے ، حکومت کی ناانصافیاں اور آمرانہ چالیں لوگوں میں اکتاہٹ کی حد تک یکستانیت پیدا کردیتی ہیں جس کے نتیجے میں عوام اپنے حقوق تک فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ نہ ان میں جینے کی خواہش رہتی ہے نہ پنپنے کی امنگ اور نہ ہی آگے بڑھنے کی صلاحیت ! ۔ اس موقع پر ادب انسانوں کو زندگی کے نئے تقاضوں ، جاندار رویوں ، صحت بخش سوچ اور حیات آفریں ذوق عطا کرکے معاشرے کی قدریں بدلنے پر آمادہ کرتا ہے۔
کوئی بھی انسانی سوسائٹی حکومتی قوانین کے بل بوتے پر حرکت نہیں کرتی بلکہ معاشرے کے قالب مین سوچ ، فکر ، ذوق خود آگہی ، حسِ لطیف ، اور جوہرِ انسانی کی روح اسے زندہ رکھتی اور عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ ادب کا انہی صفات اور صلاحیتوں سے براہ راست تعلق اور ادب ہی یہ فر رابطہ ہوتا ہے ، حکومتی قوانین زیادہ سے زیادہ معاشرے کا اوپری ڈھانچہ قائم رکھنے کے لیے کارآمد ثابت ہوتے ہیں ورنہ ان کا انسانوں کی تعلیم و تربیت ، ذہن سازی ، فکر انگیزی ، احساس فرض اور دوسری مثبت صلاحیتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
ادب ہی یہ فریضہ سر انجام دیتا ہے اور مثبت نتائج پیدا کرتا ہے۔ ذہن کے دور دراز گوشے ، دلی اتھاہ گہرائیاں ، دماغ کے لطیف ترین پردے ، سوچ کا آخری نقطہ ، فکر کی پنہائی اور عقل کی بلند ترین سطح صرف ادب ہی سے اثر لیتی ہے ، جب انسان کی داخلی کیفیت بدل جاتی ہے تو معاشرے کی خارجی صورت اپنے آپ اِنقلاب سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔
ادیب ہی جنگوں کے لئے ذہن بناتے ہیں اور امن کی راہیں ہموار کرتے ہیں ، ادیب ہی طبقاتی کشمکش کو آخری مراحل میں داخل کرکے اسے اِنقلاب کے منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی اِنقلاب کے لیے ادب اور ادیب کا بنیادی کردار نظر آتا ہے۔
دوسرے اِنقلابات چونکہ وقتی اور یک رخے ہیں اس لیے ان کے حوالے سے ادب کی بھی مخصوص نوعیت سامنے آتی ہے جبکہ اسلام بذات خود ایک دائمی ، کامل ، ہمہ گیر ، مثبت اور اِنقلاب پرور دین ہے ، بناء برین اسلامی ادب کا دائرہ اتنا ہی وسیع ، اثرات اتنے ہی پائیدار ، نقطہ نگاہ اتنا ہی بلند اور نصب العین اتنا ہی آفاقی اور کائناتی بن جاتا ہے۔
اسلام بیک وقت بدی کے مقابلے میں نیکی ، ظلم کے معاملے میں عدل ، طبقات کے مقابلے میں مساوات ، جبر کے مقابلے میں آزادی ، آمریت کے مقابلے میں شورائیت ، استحصال کے مقابلے میں انصاف اور جہالت کے مقابلے میں علم کا داعی ہے اس لئے اسلامی ادب کے موضوعات میں اخلاقیات ، اجتماعیات ، سیاسیات ، معاشیات اور سوانح و شخصیات سبھی کچھ شامل ہوتا ہے ۔ایک ہمہ گیر اِنقلاب کی تیاری کے لئے تمام شعبہ ہائے علم زیر بحث آتے ہیں۔
ادب ہی کے ذریعے ملک کی ناخواندہ اکثریتی کو مائل بہ تعلیم کیا جاتا سکتا ہے ، ادبی تحریریں ہی استحصال ، ظلم ، جبر اور آمریت کے خلاف جذبات ابھارتیں اور انہیں اِنقلاب کے راستے پر ڈال سکتی ہیں ، اِنقلاب سے پہلے ادب کی زبان میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ ایک جنت نظیر سوسائٹی کا نقشہ کھینچتی اور لوگوں کو روحانی اور ذہنی طور پر ایسی سوسائٹی کی تشکیل پر آمادہ کرتی ہے۔ جب اِنقلاب کا وقوع حقیقت ثابت ہوتا نظر آتا ہے تو ذہنوں کی زمین پہلے سے بالکل تیار ہوچکی ہوتی ہے ، ایک ادیب کسی مثالی معاشرے کی نقشہ کھینچتے ہوئے لوگوں کے جذبات کو متوجہ کرنے کا شاندار سلیقہ رکھتا ہے کہ اِنقلابی معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں نیکی غالب اور بدی مغلوب ہو ، بھوک ، ننگ ، بیماری اور جہالت کا نام و نشان نہ ہو ، حقوق طلبی کے مقابلے میں فرائض کی ادائیگی عمومی رویہ ہو ، کسی کے ضمیر پر بوجھ اور کسی کے ذہن پر تالے نہ پڑے ہوں ، کوئی آقا اور کوئی بندہ نہ ہو ، عدل کا پلڑا کسی کی جانب جھکا ہوا نہ ہو ، کچھ ہاتھ سے دینے والے اور کچھ لینے والے نہ ہوں ، جہاں زر اور زمین قدر عزت نہیں بلکہ اہلیت اور صلاحیتِ معیار عظمت ہو۔ بلاشبہ ادب کو اسلامی اِنقلاب کی منزل کے حصول کے لئے سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔
از
روحِ اِنقلاب
صاحبزادہ خورشید گیلانی رحمۃ اللہ علیہ
Comment