توبہ شکن
بانو قدسیہ
بي بي رو رو کر ہلکان ہو رہي تھي۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مجھے کوئي خوشي راس نہیں آتي ۔ ميرا نصيب ہي ايسا ہے۔ جو خوشي ملتي ہے ايسي ملتي ہے گويا کوکا کولا کي بوتل میں ريت ملا دي ہو کسي نے۔
آنکھيں سرخ ساٹن کي طرح چمک رہي تھيں اور سانسوں ميں دمے کے اکھڑے پن کي سي کيفيت تھي۔ پاس ہي پپو بيٹھا کھانس رہا تھا۔ کالي کھانسي نامراد کا ہلا جب بھي ہوتا بيچارے کا منہ کھانس کھانس کر بينگن سا ہو جاتا ۔ منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اينٹھ سے جاتے۔ امي سامنے چپ چاپ کھڑکي ميں بيٹھي ان دنوں کو ياد کر رہي تھيں جب وہ ايک ڈي سي کي بيوي تھيں اور ضلع کے تمام افسروں کي بيوياں ان کي خوشامد کيا کرتي تھيں۔ وہ بڑي بڑي تقريبوں ميں مہمان خصوصي ہوا کرتيں، اور لوگ ان سے درخت لگواتے ربن کٹواتے ۔۔انعامات تقسيم کرواتے۔
پروفيسر صاحب ہر تيسرے مندھم سي آواز ميں پوچھتے ۔ ليکن آخر بات کيا ہے بي بي ۔ کيا ہوا ہے۔ وہ پروفيسر صاحب کو کيا بتاتي کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے صرف ان پر غلاف بدل جاتا ہے۔ ستار کا غلاف ، مشين کا غلاف ، تکيے کا غلاف۔۔درخت کو ہميشہ جڑوں کي ضرورت ہوتي ہے۔ اگر اسے کرسمس ٹري کي طرح يونہي داب داب کر مٹي میں کھڑا کر ديں گے تو کتنے دن کھڑا رہے گا۔ بالاخر تو گرے ہي گا۔ وہ اپنے پروفيسر مياں کو کيا بتاتي کہ اس گھر سے رسہ تڑوا کر جب وہ بانو بازار پہنچي تھي اور جس وقت وہ ربڑ کي ہوائي چپلوں کا بھاؤ چار آنے کم کروا رہي تھي تو کيا ہوا تھا؟۔
اس کے بوائي پھٹے پاؤں ٹوٹي چپلي میں تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں ميں برتن مانجھ مانجھ کر کيچ جمي ہوئي تھي۔ سانس میں پياز کے باسي لچھوں کي بو تھي۔ قميض کے بٹن ٹوٹے ہوئےا ور دوپٹے کي ليس ادھڑي ہوئي تھي۔ اس ماندے حال جب وہ بانو بازار کے ناکے پر کھڑي تھي تو کيا ہوا تھا؟۔ يون تو دن چڑھتے ہي روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہي رہتا تھا پر آج کا دن بھي خوب رہا۔ ادھر پھچلي بات بھولتي تھي ادھر نيا تھپڑ لگتا تھا۔ ادھر تھپڑ کي ٹيس کم ہوتي تھي۔ ادھر کوئي چٹکي کاٹ ليتا تھا۔ جو کچھ بانو بازار ميں ہوا وہ تو فقط فل اسٹاپ کے طو رپر تھا۔
صبح سويرے ہي سنتو جمعدارني نے بر آمدے میں گھستے ہي کام کرنے سے انکار کر ديا۔ رانڈ سے اتنا ہي تو کہا تھا کہ نالياں صاف نہیں ہوتيں ۔ ذرا دھيان سے کام کيا کر ۔ بس جھاڑو وہيں پٹخ کر بولي ۔ ميرا حساب کر ديں جي۔۔ کتني خدمتيں کي تھيں بد بخت کي۔ صبح سويرے تام چيني کے مگ میں ايک رس کے ساتھ چائے۔ رات کے جھوتے چاول اور باسي سالن روز کا بندھا ہوا تھا۔ چھ مہينے کي نوکري میں تين نائلون جالي کے دوپٹے ۔ امي کے پرانے سليپر اور پروفيسر صاحب کي قميض لے گئي تھي۔ کسي کو جرات نہ تھي کہ اسے جمعدارني کہہ کر بلا ليتا۔ سب کا سنتو سنتو کہتے منہ سوکھتا تھا۔ پر وہ تو طوطے کي سگي پھوپھي تھي۔ ايسي سفيد چشم واقع ہوئي کہ فورا حساب کر، جھاڑو بغل می داب ، سر پر سلپفحي دھر۔ يہ جا وہ جا۔ بي بي کا خيال تھا کہ تھوڑي دير میں آکر پاؤں پکڑے گي۔ معافي مانگے کي اور ساري عمر کي غلامي کاعہد کرے گي۔ بھلا ايسا گھر اسے کہاں ملے گا۔ پر وہ تو ايسي دفان ہوئي کہ دوپہر کا کھانا پک کر تيار ہو گيا پر سنتو مہاراني نہ لوٹي۔
سارے گھر کي صفائيوں کے علاوہ غسلخانے بھي دھونے پڑے اور کمروں میں ٹاکي بھي پھيرني پڑي۔ ابھي کمر سيدھي کرنے کو ليٹي ہي تھي کہ ايک مہمان بي بي آگئيں۔ منے کي آنکھ مشکل سے لگي تھي۔ مہمان بي بي حسن اتفاق سے ذرا اونچا بولتي تھيں ۔ منا اٹھ بيٹھا اور اٹھتے ہي کھانسنے لگا۔ کالي کھانسي کا بھي ہر علاج کر ديکھا تھا پر نہ تو ہوميو پيتھيک سے آرام آيا نہ ڈاکٹري علاج سے۔ حکيموں کے کشتے اور معجون بھي رائيگاں گئے۔ بس ايک علاج رہ گيا تھا اور يہ علاج سنتو جمعدارني بتايا کرتي تھي۔ بي بي کسي کالے گھوڑے والے سے پوچھو کہ منے کو کيا کھلائيں۔ جو کہے سو کھلاؤ ۔ دنو ں ميں آرام آجائے گا۔
ليکن بات تو مہمان بي بي کي ہو رہي تھي۔ ان کے آنے سے سارے گھر والے اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے اور گرميوں کي دوپہر میں خورشيد کو ايک عدد بوتل لينے کے لئے بھگا ديا گيا۔ ساتھ ہي اتنا سارا سودا اور بھي ياد آگيا کہ پورے پانچ روپے دينے پڑے۔ خورشيد پورے تين سال سے اس گھر میں ملازم تھي۔ جب آئي تھي تو بغير دوپٹے کے کھوکھے تک چلي جاتي تھي اور اب وہ بالوں ميں پلاسٹک کے کلپ لگانے لگي تھي۔ چوري چوري پيروں کو کيو ٹيکس اور منے کو پاؤڈر لگانے کے بعد اپنے چہرے پر بے بي پاؤڈر استعمال کرنے لگي تھي۔ جب خورشيد موٹي ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر ہاتھ میں خالي سکوائش کي بوتل لے کر سراج کے کھوکھے پر پہنچي تو سڑکيں بے آبد سي ہو رہي تھيں۔ پانچ روپے کا نوٹ جو اس کے ہاتھ میں پتي سي بن گيا تھا نقدي والے ٹين کي ٹرے ميں دھرتي ہوئي خورشيد بولي۔ايک بوتل مٹي کا تيل لا دو۔۔ دو سات سو سات کے صابن۔ تين پان سادہ۔۔ چار ميٹھے۔۔۔ايک نلکي سفيد دھاگے کي۔ دو لولي پاپ اور ايک بوتل ٹھنڈي ٹھار سيون اپ کي۔
روڑي کوٹنے والا انجن بھي جا چکا تھا اور کولتار کے دو تين خالي ڈرم تازہ کوٹي ہوئ سڑک پر اوندھے پڑے تھے ۔ سڑک پر سے حدت کي وجہ سے بھاپ سي اٹھتي نطر آتي تھي۔ دائي کي لڑکي خورشيد کو ديکھ کر سراج کو اپنا گاؤں دھلا يا د آگيا۔ دھلے میں اسي وضع قطع، اسي چال کي سيندوري سے رنگ کي نو بالغ لڑکي حکيم صاحب کي ہوا کرتي تھي۔ ٹانسے کا برقعہ پہنتي تھي۔ انگريزي صابن سے منہ دھوتي تھي اور شايد خميرہ گاؤ زبان اور کشتہ مردا ريد بمعہ شربت صندل کے اتني مقدار میں پي چکي تھي کہ جہاں سے گزر جاتي سيب کے مربے کي خوشبو آنے لگتي ۔گاؤں ميں کسي کے گھر کوئي بيمار پڑ جاتا تو سراج اس خيال سے اس کي بيمار پرسي کرنے ضرور جاتا کہ شايد وہ اسے حکيم صاحب کے پاس دوا لينے کے لئے بھيج دے۔ جب کبھي ماں کے پيٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو بہت خوشي ہوتي۔
حکيم صاحب ہميشہ اس نفخ کي مريضہ کے لئے دو پڑياں ديا کرتے تھے ۔ ايک خاکي پڑيا گلاب کے عرق کے ساتھ پينا ہوتي تھي اور دوسري سفيد پڑيا سونف کے عرق کے
ساتھ۔ حکيم صاحب کي بيٹي عموماً اسے اپنے خط پوسٹ کرنے کو ديا کرتي۔ وہ ان خطوں کو لال ڈبے میں ڈالنے سے پہلے کتني دير سونگھتا رہتا تھا۔ ان لفافوں سے بھي سيب کے مربے کي خوشبو آيا کرتي تھي۔
بي بي رو رو کر ہلکان ہو رہي تھي۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مجھے کوئي خوشي راس نہیں آتي ۔ ميرا نصيب ہي ايسا ہے۔ جو خوشي ملتي ہے ايسي ملتي ہے گويا کوکا کولا کي بوتل میں ريت ملا دي ہو کسي نے۔
آنکھيں سرخ ساٹن کي طرح چمک رہي تھيں اور سانسوں ميں دمے کے اکھڑے پن کي سي کيفيت تھي۔ پاس ہي پپو بيٹھا کھانس رہا تھا۔ کالي کھانسي نامراد کا ہلا جب بھي ہوتا بيچارے کا منہ کھانس کھانس کر بينگن سا ہو جاتا ۔ منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اينٹھ سے جاتے۔ امي سامنے چپ چاپ کھڑکي ميں بيٹھي ان دنوں کو ياد کر رہي تھيں جب وہ ايک ڈي سي کي بيوي تھيں اور ضلع کے تمام افسروں کي بيوياں ان کي خوشامد کيا کرتي تھيں۔ وہ بڑي بڑي تقريبوں ميں مہمان خصوصي ہوا کرتيں، اور لوگ ان سے درخت لگواتے ربن کٹواتے ۔۔انعامات تقسيم کرواتے۔
پروفيسر صاحب ہر تيسرے مندھم سي آواز ميں پوچھتے ۔ ليکن آخر بات کيا ہے بي بي ۔ کيا ہوا ہے۔ وہ پروفيسر صاحب کو کيا بتاتي کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے صرف ان پر غلاف بدل جاتا ہے۔ ستار کا غلاف ، مشين کا غلاف ، تکيے کا غلاف۔۔درخت کو ہميشہ جڑوں کي ضرورت ہوتي ہے۔ اگر اسے کرسمس ٹري کي طرح يونہي داب داب کر مٹي میں کھڑا کر ديں گے تو کتنے دن کھڑا رہے گا۔ بالاخر تو گرے ہي گا۔ وہ اپنے پروفيسر مياں کو کيا بتاتي کہ اس گھر سے رسہ تڑوا کر جب وہ بانو بازار پہنچي تھي اور جس وقت وہ ربڑ کي ہوائي چپلوں کا بھاؤ چار آنے کم کروا رہي تھي تو کيا ہوا تھا؟۔
اس کے بوائي پھٹے پاؤں ٹوٹي چپلي میں تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں ميں برتن مانجھ مانجھ کر کيچ جمي ہوئي تھي۔ سانس میں پياز کے باسي لچھوں کي بو تھي۔ قميض کے بٹن ٹوٹے ہوئےا ور دوپٹے کي ليس ادھڑي ہوئي تھي۔ اس ماندے حال جب وہ بانو بازار کے ناکے پر کھڑي تھي تو کيا ہوا تھا؟۔ يون تو دن چڑھتے ہي روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہي رہتا تھا پر آج کا دن بھي خوب رہا۔ ادھر پھچلي بات بھولتي تھي ادھر نيا تھپڑ لگتا تھا۔ ادھر تھپڑ کي ٹيس کم ہوتي تھي۔ ادھر کوئي چٹکي کاٹ ليتا تھا۔ جو کچھ بانو بازار ميں ہوا وہ تو فقط فل اسٹاپ کے طو رپر تھا۔
صبح سويرے ہي سنتو جمعدارني نے بر آمدے میں گھستے ہي کام کرنے سے انکار کر ديا۔ رانڈ سے اتنا ہي تو کہا تھا کہ نالياں صاف نہیں ہوتيں ۔ ذرا دھيان سے کام کيا کر ۔ بس جھاڑو وہيں پٹخ کر بولي ۔ ميرا حساب کر ديں جي۔۔ کتني خدمتيں کي تھيں بد بخت کي۔ صبح سويرے تام چيني کے مگ میں ايک رس کے ساتھ چائے۔ رات کے جھوتے چاول اور باسي سالن روز کا بندھا ہوا تھا۔ چھ مہينے کي نوکري میں تين نائلون جالي کے دوپٹے ۔ امي کے پرانے سليپر اور پروفيسر صاحب کي قميض لے گئي تھي۔ کسي کو جرات نہ تھي کہ اسے جمعدارني کہہ کر بلا ليتا۔ سب کا سنتو سنتو کہتے منہ سوکھتا تھا۔ پر وہ تو طوطے کي سگي پھوپھي تھي۔ ايسي سفيد چشم واقع ہوئي کہ فورا حساب کر، جھاڑو بغل می داب ، سر پر سلپفحي دھر۔ يہ جا وہ جا۔ بي بي کا خيال تھا کہ تھوڑي دير میں آکر پاؤں پکڑے گي۔ معافي مانگے کي اور ساري عمر کي غلامي کاعہد کرے گي۔ بھلا ايسا گھر اسے کہاں ملے گا۔ پر وہ تو ايسي دفان ہوئي کہ دوپہر کا کھانا پک کر تيار ہو گيا پر سنتو مہاراني نہ لوٹي۔
سارے گھر کي صفائيوں کے علاوہ غسلخانے بھي دھونے پڑے اور کمروں میں ٹاکي بھي پھيرني پڑي۔ ابھي کمر سيدھي کرنے کو ليٹي ہي تھي کہ ايک مہمان بي بي آگئيں۔ منے کي آنکھ مشکل سے لگي تھي۔ مہمان بي بي حسن اتفاق سے ذرا اونچا بولتي تھيں ۔ منا اٹھ بيٹھا اور اٹھتے ہي کھانسنے لگا۔ کالي کھانسي کا بھي ہر علاج کر ديکھا تھا پر نہ تو ہوميو پيتھيک سے آرام آيا نہ ڈاکٹري علاج سے۔ حکيموں کے کشتے اور معجون بھي رائيگاں گئے۔ بس ايک علاج رہ گيا تھا اور يہ علاج سنتو جمعدارني بتايا کرتي تھي۔ بي بي کسي کالے گھوڑے والے سے پوچھو کہ منے کو کيا کھلائيں۔ جو کہے سو کھلاؤ ۔ دنو ں ميں آرام آجائے گا۔
ليکن بات تو مہمان بي بي کي ہو رہي تھي۔ ان کے آنے سے سارے گھر والے اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے اور گرميوں کي دوپہر میں خورشيد کو ايک عدد بوتل لينے کے لئے بھگا ديا گيا۔ ساتھ ہي اتنا سارا سودا اور بھي ياد آگيا کہ پورے پانچ روپے دينے پڑے۔ خورشيد پورے تين سال سے اس گھر میں ملازم تھي۔ جب آئي تھي تو بغير دوپٹے کے کھوکھے تک چلي جاتي تھي اور اب وہ بالوں ميں پلاسٹک کے کلپ لگانے لگي تھي۔ چوري چوري پيروں کو کيو ٹيکس اور منے کو پاؤڈر لگانے کے بعد اپنے چہرے پر بے بي پاؤڈر استعمال کرنے لگي تھي۔ جب خورشيد موٹي ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر ہاتھ میں خالي سکوائش کي بوتل لے کر سراج کے کھوکھے پر پہنچي تو سڑکيں بے آبد سي ہو رہي تھيں۔ پانچ روپے کا نوٹ جو اس کے ہاتھ میں پتي سي بن گيا تھا نقدي والے ٹين کي ٹرے ميں دھرتي ہوئي خورشيد بولي۔ايک بوتل مٹي کا تيل لا دو۔۔ دو سات سو سات کے صابن۔ تين پان سادہ۔۔ چار ميٹھے۔۔۔ايک نلکي سفيد دھاگے کي۔ دو لولي پاپ اور ايک بوتل ٹھنڈي ٹھار سيون اپ کي۔
روڑي کوٹنے والا انجن بھي جا چکا تھا اور کولتار کے دو تين خالي ڈرم تازہ کوٹي ہوئ سڑک پر اوندھے پڑے تھے ۔ سڑک پر سے حدت کي وجہ سے بھاپ سي اٹھتي نطر آتي تھي۔ دائي کي لڑکي خورشيد کو ديکھ کر سراج کو اپنا گاؤں دھلا يا د آگيا۔ دھلے میں اسي وضع قطع، اسي چال کي سيندوري سے رنگ کي نو بالغ لڑکي حکيم صاحب کي ہوا کرتي تھي۔ ٹانسے کا برقعہ پہنتي تھي۔ انگريزي صابن سے منہ دھوتي تھي اور شايد خميرہ گاؤ زبان اور کشتہ مردا ريد بمعہ شربت صندل کے اتني مقدار میں پي چکي تھي کہ جہاں سے گزر جاتي سيب کے مربے کي خوشبو آنے لگتي ۔گاؤں ميں کسي کے گھر کوئي بيمار پڑ جاتا تو سراج اس خيال سے اس کي بيمار پرسي کرنے ضرور جاتا کہ شايد وہ اسے حکيم صاحب کے پاس دوا لينے کے لئے بھيج دے۔ جب کبھي ماں کے پيٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو بہت خوشي ہوتي۔
حکيم صاحب ہميشہ اس نفخ کي مريضہ کے لئے دو پڑياں ديا کرتے تھے ۔ ايک خاکي پڑيا گلاب کے عرق کے ساتھ پينا ہوتي تھي اور دوسري سفيد پڑيا سونف کے عرق کے
ساتھ۔ حکيم صاحب کي بيٹي عموماً اسے اپنے خط پوسٹ کرنے کو ديا کرتي۔ وہ ان خطوں کو لال ڈبے میں ڈالنے سے پہلے کتني دير سونگھتا رہتا تھا۔ ان لفافوں سے بھي سيب کے مربے کي خوشبو آيا کرتي تھي۔
اس وقت دائي کرموں کي بيٹي گرم دوپہر میں اس کے سامنے کھڑي تھي اور سارے ميں سيب کا مربہ پھيلا ہوا تھا۔ پانچ روپے کا نوٹ نقدي والے ٹرے میں سے اٹھا کر سراج نے چيچي نظرو ں سے خورشيد کي طرف ديکھا اور کھنکار کر بولا ۔۔۔ايک ہي سانس میں اتنا کچھ کہہ گئي ۔ آہستہ آہستہ کہو نا۔ کيا کيا خريدنا ہے؟ايک بوتل مٹي کا تيل ۔۔۔دو سات سات صابن ۔۔۔تين پان سادہ چار ميٹھے۔ايک نلکي بٹر فلائي والي سفيد رنگ کي۔۔۔ايک بوتل سيون اپ کي۔۔جلدي کر ، گھر مہمان آئے ہوئے ہيں۔سب سے پہلے تو سراج کھٹاک سے سبز بوتل کو ڈھکنا کھولا اور بوتل کو خورشيد کي جانب بڑھا کر بولا۔ يہ تو ہو گئي بوتل اور۔۔۔بوتل کيوں کھولي تو نے۔۔اب بي بي جي ناراض ہوں گي۔ ميں تو سمجھا کہ کھول کر ديني ہے۔ میں نے کوئي کہا تھا تجھے کھولنے کے لئے۔ اچھا اچھا بابا ۔۔ميري غلطي تھي۔ يہ بوتل تو پي لے ۔ميں ڈھکنے والي اور دے ديتا ہوں تجھے۔۔ جس وقت خورشيد بوتل پي رہي تھي اس وت بي بي کا چھوٹا بھائي اظہر ادھر سے گزرا۔ اسے سڑا سے بوتل پيتے ديکھ کر وہ ميں بازار جانے کي بجائے الٹا چودھري کالوني کي طرف لوٹ گيا اور اين ٹائپ کے کوارٹر میں پہنچ کر بر آمدے ہي سے بولا۔ بي بي آپ يہاں بوتل کا انتظار کر رہي ہيں اور وہ لاڈلي وہاں کھوکھے پر خود بوتل پي رہي ہے سڑا لگا کر۔ بھائي تو اخبار والے کے فرائض سر انجام دے کر سائيکل پر چلا گيا ليکن جب دو روپے تيرہ آنے کي ريزگاري مٹھي میں دبائے دوسرے ہاتھ ميں مٹي کے تيل کي بوتل اور بکل ميں سات سو سات صابن کے ساتھ سيون اپ کي بوتل لئے خورشيد آئي تو سنتو جمعدارني کے حصے کا غصہ بھي خورشيد پر ہي اترا۔ اتني دير لگ جاتي ہے تجھے کھوکھے پر ۔ بڑي بھيڑ تھي جي۔۔ سراج کے کھوکھے پر ۔۔اس وقت؟
بہت لوگون کے مہمان آئے ہوئے ہيں جي۔۔سمن آباد میں ويسے ہي مہمان بہت آتے ہيں۔ سب نوکر بوتليں لے جا رہے تھے۔۔ جھوٹ نہ بول کمبخت ميں سب جانتي ہون۔ جورشيد کا رنگ فق ہو گيا۔کيا جانتي ہیں ۔ جي آپ ؟ ابھي کھوکھے پر کھڑي تو۔۔۔بوتل نہیں پي رہي تھي۔ خورشيد کي جان میں جان آئي ۔۔پھر وہ بھپر کر بولي ۔وہ ميرے اپنے پيسوں کي تھي جي۔ آپ حساب کر ديں جي ميرا۔۔ مجھ سے ايسي نوکري نہیں ہوتي۔ بي بي تو حيران رہ گئي۔سنتو کا جان گويا خورشيد کے جانے کي تمہيد تھي۔ لمحوں ميں بات يوں بڑھي کہ مہمان بي بي سميت سب بر آمدے ميں جمع ہو گئے ۔ اور کترن بھي لڑکي نے وہ زبان درازي کي کہ جن مہمان بي بي پر بوتل پلا کر رعب گانٹھنا تھا وہ اس گھر کو ديکھ کر قائل ہو گئيں کہ بد نظمي ، بے ترتيبي اور بد تميزي ميں يہ گھر حرف آخر ہے۔ اناً فاناً مکان ناکوراني کے بغير سونا سونا ہو گيا۔
ادھر جمعدارني اور خورشيد کا رنج تو تھا ہي اوپر سے پپو کي کھانسي دم نہ لينے ديتي تھي۔ جب تک خورشيد کا دم تھا کم از کم اسے اٹھانے پچکارنے والا تو کوئي موجود تھا۔ اب کفگير تو چھوڑ چھاڑ کے بچے کو اٹھانا پڑتا۔ اسے بھي کالي کھانسي کا دورہ پڑتا تو رنگت بينگن کي سي ہو جاتي۔ آنکھيں سرخا سرخ نکل آتيں اور سانس يوں چلتا جيسے کئي ہوئي پاني کي ٹيوب سے پاني رس رس کے نکلتا ہے
اس روز دن ميں کئي مرتبہ بي بي نے دل ميں کہا۔ہم سے اچھا گھرانہ نہيں ملے گا تو ديکھيں گے ۔ ابھي کل بر آمدے ميں آئي بيٹھي ہوں گي دونوں کالے منہ والياں پر اسے اچھي طرح معلوم تھا کہ اس سے اچھا گھر ملے نہ ملے وہ دونوں اب تو کر نہ رہیں گي۔سارے گھر ميں ميں نظر دوڑاتي تو چھت کے جالوں سے لے کر رکي ہوئي نالي تک اور ٹوٹي ہوئي سيڑھيوں سے لے کر اندر ٹپ ٹپ برسنے والي نلکے تک عجيب کسمپرسي کا عالم تھا، ہر جگھ ايک آنچ کي کسر تھي۔ تين کمروں کا مکان جس کے دروازوں کے آگے ڈھيلي ڈوروں ميں دھاري دار پردے پڑے تھے، عجيب سي زندگي کا سراغ ديتا تھا۔ نہ تو يہ دولت تھي اور نہ ہي غريبي تھي ۔ ردي کے اخبار کي طرح اس کا تشخص ختم ہو چکا تھا۔
بہت لوگون کے مہمان آئے ہوئے ہيں جي۔۔سمن آباد میں ويسے ہي مہمان بہت آتے ہيں۔ سب نوکر بوتليں لے جا رہے تھے۔۔ جھوٹ نہ بول کمبخت ميں سب جانتي ہون۔ جورشيد کا رنگ فق ہو گيا۔کيا جانتي ہیں ۔ جي آپ ؟ ابھي کھوکھے پر کھڑي تو۔۔۔بوتل نہیں پي رہي تھي۔ خورشيد کي جان میں جان آئي ۔۔پھر وہ بھپر کر بولي ۔وہ ميرے اپنے پيسوں کي تھي جي۔ آپ حساب کر ديں جي ميرا۔۔ مجھ سے ايسي نوکري نہیں ہوتي۔ بي بي تو حيران رہ گئي۔سنتو کا جان گويا خورشيد کے جانے کي تمہيد تھي۔ لمحوں ميں بات يوں بڑھي کہ مہمان بي بي سميت سب بر آمدے ميں جمع ہو گئے ۔ اور کترن بھي لڑکي نے وہ زبان درازي کي کہ جن مہمان بي بي پر بوتل پلا کر رعب گانٹھنا تھا وہ اس گھر کو ديکھ کر قائل ہو گئيں کہ بد نظمي ، بے ترتيبي اور بد تميزي ميں يہ گھر حرف آخر ہے۔ اناً فاناً مکان ناکوراني کے بغير سونا سونا ہو گيا۔
ادھر جمعدارني اور خورشيد کا رنج تو تھا ہي اوپر سے پپو کي کھانسي دم نہ لينے ديتي تھي۔ جب تک خورشيد کا دم تھا کم از کم اسے اٹھانے پچکارنے والا تو کوئي موجود تھا۔ اب کفگير تو چھوڑ چھاڑ کے بچے کو اٹھانا پڑتا۔ اسے بھي کالي کھانسي کا دورہ پڑتا تو رنگت بينگن کي سي ہو جاتي۔ آنکھيں سرخا سرخ نکل آتيں اور سانس يوں چلتا جيسے کئي ہوئي پاني کي ٹيوب سے پاني رس رس کے نکلتا ہے
اس روز دن ميں کئي مرتبہ بي بي نے دل ميں کہا۔ہم سے اچھا گھرانہ نہيں ملے گا تو ديکھيں گے ۔ ابھي کل بر آمدے ميں آئي بيٹھي ہوں گي دونوں کالے منہ والياں پر اسے اچھي طرح معلوم تھا کہ اس سے اچھا گھر ملے نہ ملے وہ دونوں اب تو کر نہ رہیں گي۔سارے گھر ميں ميں نظر دوڑاتي تو چھت کے جالوں سے لے کر رکي ہوئي نالي تک اور ٹوٹي ہوئي سيڑھيوں سے لے کر اندر ٹپ ٹپ برسنے والي نلکے تک عجيب کسمپرسي کا عالم تھا، ہر جگھ ايک آنچ کي کسر تھي۔ تين کمروں کا مکان جس کے دروازوں کے آگے ڈھيلي ڈوروں ميں دھاري دار پردے پڑے تھے، عجيب سي زندگي کا سراغ ديتا تھا۔ نہ تو يہ دولت تھي اور نہ ہي غريبي تھي ۔ ردي کے اخبار کي طرح اس کا تشخص ختم ہو چکا تھا۔
Comment