رومن اردو کیوں؟
تحریر: روٴف پاریکھ
تحریر: روٴف پاریکھ
اطلاعاتی ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک طوفان کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اسی طرح انگریزی زبان بھی طوفان بن کر دنیا پر چھا گئی ہے ۔بلکہ انگریزی زبان صحیح معنوں میں دنیا (بقول شخصے عالمی گاوٴں یا گلوبل ولیج بن چکی ہے ) کی مشترکہ زبان یا لنگوا فرینکا(lingua franca)ہے ۔ انگریزی سیکھنا ہر شخص کے لیے خواہی نخواہی ضروری ہو گیا ہے بالخصوص ایک مختلف ثقافت یا مختلف زبان کے حامل خطے کے لوگوں سے ابلاغ و ارتباط کے لیے انگریزی نا گزیر بن چکی ہے ۔چونکہ آج کی دنیا میں تمام جدید علوم و فنون کے خزانے انگریزی زبان میں موجود ہیں اور کسی بھی موضوع پر ہونے والی جدید تحقیق اور اس کے مصادر و منابع اس زبان میں دست یاب ہیں اور انٹرنیٹ نے ان تک رسائی اور ان کا حصول بھی نہایت آسان اور کم خرچ بنا دیا ہے لہٰذا آج کی دنیا میں انگریزی سے نا واقفیت گویا بیک وقت اندھا، گونگا اور بہرا ہونے کے مترادف ہے ۔ انگریزی کی اہمیت سے انکار نا ممکن ہے ۔
لیکن انگریزی زبان کی ان فتوحات کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں کے ذہن میں چند سوالات ضرور ابھرتے ہیں جنھیں اپنی زبان اور اپنی تہذیب و ثقافت سے واقعی محبت ہے ۔ مثلاً یہ کہ کیا کسی قوم نے اپنی زبان یا اپنے رسم الخط کو انگریزی زبان یا رومن رسم الخط کی خاطر اترن کی طرح اتار پھینکا ہے ؟ کیا کسی قوم نے کمپیوٹر (بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انٹرنیٹ) کے استعمال میں سہولت کی خاطر اپنے رسم الخط کو ترک کر کے ثقافتی خود کشی کی ہے ؟ جب بھی میں کہیں یہ بحث سنتا یا پڑھتا ہوں کہ اردو کو رومن حروف میں لکھا جانا چاہیے ، یہ سو الات میرے ذہن میں سر ابھارنے لگتے ہیں۔
جو لوگ اردو کے رسم الخط میں تبدیلی کی وکالت کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اگر اردو کو رومن رسم الخط کے پلے باندھ دیا جائے تو اردو اور اس کے نئے رسم الخط دونوں کی زندگی ۔ ۔ ۔ اور ہماری بھی۔ ۔ ۔ چین اور آرام سے گزر جائے گی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ٹکنالوجی کے اس دور میں کوئی زبان اس وقت اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکتی جب تک وہ سائنس اور ٹکنالوجی کے نو ساختہ مذہب پر ایمان نہ لے آئے ۔یہ اور اسی قسم کی دیگر بظاہر معقول مگر در حقیقت بے سر و پا باتیں اس ضمن میں کی جاتی ہیں۔ اردو کے یہ خود ساختہ دوست ہمیں یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ جیسے ہی اردو رومن حروف تہجی کو اختیار کرے گی کسی جادو کے زورپر وہ جدت اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں داخل ہو جائے گی، یہ انٹرنیٹ پر چھا جائے گی اور ساری دنیا میں اس کا چلن عام ہو جائے گا اور نجانے کیا کیا ہو جائے گا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بے اصولے اور من کے کھوٹے لوگ کسی کے اشارے پر اور سر پرستی میں ایک ایسی باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ قوم کی کچھ ایسی ذہنی تطہیر کی جائے کہ یہ اردو اس کی زندگی بھر کے شریک حیات۔ ۔ ۔ یعنی اس کے عربی رسم الخط سے علیحدگی پر آمادہ ہو جائے ۔ آج سے چالیس پچاس سال قبل چلائی جانے والی بد نیتی پر مبنی اس مہم کے اس نئے جنم پر حیرت ہوتی ہے کیونکہ اس مہم کی تجہیز و تکفین کو بھی کوئی نصف صدی گزر چکی ہے اور لوگ اسے بھول بھال گئے ہیں۔ ایسے موقعے پر یہ شبہات پیدا ہونا فطری امر ہے کہ اب یہ مہم کیوں اور کس کے اشارے پر چلائی جا رہی ہے ۔
لیکن انگریزی زبان کی ان فتوحات کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں کے ذہن میں چند سوالات ضرور ابھرتے ہیں جنھیں اپنی زبان اور اپنی تہذیب و ثقافت سے واقعی محبت ہے ۔ مثلاً یہ کہ کیا کسی قوم نے اپنی زبان یا اپنے رسم الخط کو انگریزی زبان یا رومن رسم الخط کی خاطر اترن کی طرح اتار پھینکا ہے ؟ کیا کسی قوم نے کمپیوٹر (بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انٹرنیٹ) کے استعمال میں سہولت کی خاطر اپنے رسم الخط کو ترک کر کے ثقافتی خود کشی کی ہے ؟ جب بھی میں کہیں یہ بحث سنتا یا پڑھتا ہوں کہ اردو کو رومن حروف میں لکھا جانا چاہیے ، یہ سو الات میرے ذہن میں سر ابھارنے لگتے ہیں۔
جو لوگ اردو کے رسم الخط میں تبدیلی کی وکالت کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اگر اردو کو رومن رسم الخط کے پلے باندھ دیا جائے تو اردو اور اس کے نئے رسم الخط دونوں کی زندگی ۔ ۔ ۔ اور ہماری بھی۔ ۔ ۔ چین اور آرام سے گزر جائے گی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ٹکنالوجی کے اس دور میں کوئی زبان اس وقت اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکتی جب تک وہ سائنس اور ٹکنالوجی کے نو ساختہ مذہب پر ایمان نہ لے آئے ۔یہ اور اسی قسم کی دیگر بظاہر معقول مگر در حقیقت بے سر و پا باتیں اس ضمن میں کی جاتی ہیں۔ اردو کے یہ خود ساختہ دوست ہمیں یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ جیسے ہی اردو رومن حروف تہجی کو اختیار کرے گی کسی جادو کے زورپر وہ جدت اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں داخل ہو جائے گی، یہ انٹرنیٹ پر چھا جائے گی اور ساری دنیا میں اس کا چلن عام ہو جائے گا اور نجانے کیا کیا ہو جائے گا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بے اصولے اور من کے کھوٹے لوگ کسی کے اشارے پر اور سر پرستی میں ایک ایسی باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ قوم کی کچھ ایسی ذہنی تطہیر کی جائے کہ یہ اردو اس کی زندگی بھر کے شریک حیات۔ ۔ ۔ یعنی اس کے عربی رسم الخط سے علیحدگی پر آمادہ ہو جائے ۔ آج سے چالیس پچاس سال قبل چلائی جانے والی بد نیتی پر مبنی اس مہم کے اس نئے جنم پر حیرت ہوتی ہے کیونکہ اس مہم کی تجہیز و تکفین کو بھی کوئی نصف صدی گزر چکی ہے اور لوگ اسے بھول بھال گئے ہیں۔ ایسے موقعے پر یہ شبہات پیدا ہونا فطری امر ہے کہ اب یہ مہم کیوں اور کس کے اشارے پر چلائی جا رہی ہے ۔
Comment