الجھن احمد نديم قاسمي
برات آئي، خير کيلئے ہاتھ اٹھائے گئے اور اس کے بياہ کا اعلان کيا گيا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لال دوپٹے ميں سمٹي ہوئي سوچنے لگي کہ اتنا بڑا واقعہ اتنے مختصر عرصے ميں کيسے تکميل تک پہنچا، وہ تو يہ سمجھے بيٹھي تھي کہ جب برات آئے گي تو زمين اور آسمان کے درميان الف ليلہ والي پريوں کے غول ہاتھوں ميں ہاتھ ڈالے، پروں سے ملائے بڑا پيارا سا ناچ ناچيں گے، بکھرے ہوئے تارے ادھر ادھر سے کھسک کر ايک دوسرے سے چمٹ جائيں گے اور ٹمٹاتے ہوئے بادل کي شکل اخيتار کر ليں گے، اور پھر يہ بادل ہولے ہولے زميں پر اترے گا، اس کے سر پر آکر رک جائے گا اور اس کے حنا آلود انگھوٹے کي پوروں کي لکيريں تک جھلملا اٹھيں گيں، دنيا کے کناروں سے تہنيت کے غلفے اٹھيں گے اور اس کے باليوں بھرے کانوں کے قريب آکر منڈ لائيں گے۔۔۔۔۔۔۔وہ تو يہ سمجھتي تھي کہ يہ دن اور رات کا سلسلہ صرف اس کے بياہ کے انتظار ميں ہے، بس جو نہي اس کا بياہ ہوگا، پورب پچھم پر ايک مٹيالا سا اجالا چھا جائے گا۔۔۔۔۔جسے نہ دن کہا جاسکے گا اور نہ ہي رات۔۔۔۔۔۔بس جھٹپٹے کا سا سماں رہے گا قيامت تک اور جو نہي برات اس کے گھر کي دہليز الانگے گي يہ سارا نظام کھلکھلا کر ہنس دے گا اور تب سب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آج گوري کا بياہ ہے۔
ليکن بس برات آئي، لمبي لمبي داڑھيوں والوںنے آنکھيں بند کرکے دعا کيلئے ہاتھ اٹھائے، شکر اور تل تقسيم کئے گئے اور پھر اسے ڈولي ميں دھکا دے يا گيا، ڈھول چنگھاڑنے لگے، شہنائيان بکلنے لگيں، گولے بھونکنے لگے اور وہ کسي ان ديکھے ، ان جانے گھر کو روانہ کردي گئي۔
ڈولي ميں سے بہت مشکل سے ايک جھري بنا کر اس نے ميراسيوں کي چرف ديکھا، کالے کلوٹۓ بھتنے، ميال ڈھول اور مري ہوئي سنپوليون کي سي شہنائيوں ، نہ بين نہ باجہ نہ تونتنياں نہ انٹوں کے گھٹنوں پر جھنجناتے ہوئے گھنگرو، نہ گولے نہ شرکنياں، جيسے کسي کي لاش قبرستان لے جارہے ہوں۔
ہاں وہ لاش ہي تو تھي اور يہ ڈولي اس کا تابوت تھا، سفيد کفن کے بجائے اس نےلال کفن اوڑھ رکھا تھا اور پھر يہ نتھ، بلاق، جھومر، ہار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالياں۔۔۔۔۔۔۔۔۔يہ قبر والے بچھو اور کھنکجورے تھے، جو اسے قدم قدم پر ڈس رہے تھے۔
ڈولي کے قريب بار بار ايک بوڑھے کي کھانسي کي آواز آرہي تھي، شايد وہ دولہا کا باپ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جس دولھا کا باپ پل پل بھر بعد بلغم کے انتے بڑے بڑے گولے پٹاخ سے زمين پر دے مارتا ہے، وہ خود کيسا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے ري۔
وہ رو دي، وہ اس سے پيشتر بھي روئي تھي، جب اس کي ماں نے اسے گلے سے لگايا اور سرگوشي کي۔۔ميري لاڈلي گوري۔۔۔تيري عزت ہماري عزت ہے، تو اب پرائے گھر جارہي ہے، بڑے سليقے سے رہنا ورنہ ناک کٹ جائے گي، ہماري۔۔۔۔۔۔۔۔۔يعني اس کي ماں کو اس موقعہ پربھي اپني ناک کي فکر ہوئي بھٹی ميں دانہ اسپند ڈال ديا جائے۔۔۔۔۔ماں کو اس کے دل کي پراوہ نہ تھي، اس وقت دکھاوے کي خاطر وہ روئي بھي ، سسکياں بھي بھري، گلووان کے دوپٹۓ سے آنسو بھي پونچھے، پر اس نے رونے ميں کوئي مزانہ تھا، يہاں ڈولي ميں اس کي آنکھوں ميں نمي تيري ہي تھي کہ اس کے روئيں روئيں ميں ہزاروں خفتہ بے قرارياں جاگ اٹھيں۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہنائياں اس کا ساتھ ديتي رہيں، ڈھول پٹتا رہا، جب ڈولي دولھا کے گھر پہنچي تو ايک گولہ چھوٹا جيسے کسي بيمار کو مري مري چھيک آئے، اسے اپني سہيلي نوري پر بہت غصہ آيا جو بياہ کے گيت گانے ميں تاک سمجھي جاتي تھي اور جس نے ايک بار گوري کو چھيڑنے کيلئے بھرے مجمع ميں ايک گيت گايا تھا۔
عطر پھليل لگالے ري گوري سيج بلائے توئے
گوري نے ڈولي سے باہر قدم رکھا ہي تھا کہ آنگن سے اس پار تک روئي کي ايک پگڈنڈي سي بچھادي گئي، اس کي ساس اس سے يوں لپٹ گئي جيسے گوري نے شراب پي رکھي ہوں، اور ساس کو اس کے لڑکھڑانے کا خوف دامن گير ہے، گوري نرم نرم روئي پر چلي تو اسے يونہي شک گزرا کہ واقعي يہ واقعہ تھا تو بڑا، اس کا اپنا اندازہ غلط تھا، آخر اتني ملائم روئي صرف اسي لئےتو خاک پر نہيں بھچائي گئي تھي، کہ اس کے مہندي رہے پائوں ميلے نہ ہوں، پر جونہي اس نے اس شبہ کو يقين ميں بدلنا چاہا تو اچانک اس کے پائوں زميں کي سخت ٹھنڈي سطح سے مس ہوئے اور سراب کي چمک ماند پڑ گئي۔۔۔۔۔۔۔۔روئي ختم ہوچکي تھي۔
اب سے سخت سزا بگھتنا پڑگئي، اسے ايک کونے ميں بيٹھا ديا گيا، اس حالت مين کہ اسکا سر جھک کر اس کے گھٹنوں کو چھورہا تھا اور اس کے گلے کا ہار آگے لٹء کر اس کي تھوڑي سے لپٹا پڑا تھا، گائوں والياں آنے لگيں، اکني چوني اسکے مردہ ہاتھ ميں ٹھونس دي اور گھونگھٹ اٹھا اٹھا کر بٹر بٹر اس چہرے کو گھورا جانے لگا۔۔۔۔جيسے لاش کے چہرے سے آخري ديدار کي خاطر کفن سرکا ديا جاتا تھا۔۔۔۔
سارادن اس کي ناک کے بانسے، اس کي پلکوں کے تنائو، اس کے ہونٹوں کے خم، اس کے نام اور اس کے رنگ، اس کي اتني بڑي نتھ اور جھومر اور باليوں کے متعلق تذکرے کئے گئے، اور جب سورج پچھم کي طرف لٹک گيا تو اس کے آگے چوري کا کٹورا ادھر ديا گيا، اس کي ساس ناک سڑ سٹراتي اس کے پاس آئي اور بولي لئ ميري راني کھالے چوري؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔جيسے نئے نئے طوطے کو پچکارا جاتا ہے، اسے ايک بار خيال آيا کہ کيوں نہ نئے طوطے کي طرح لپک کر اس کي ناک کاٹ لے، مگر اب اس نے ايک اور موضوع پر بولنا شروع کرديا تھا، کيا کروب بہن عجيب مصيبت ہے، جي آتا نگوڑي ناک کو کاٹ کر پھينکوں، بہ چلي جار رہي ہے، اتني چھينکيں آتي ہيں، بہن اور اتني بڑي چھينکيں کہ اللہ قسم انتڑياں کھنچ جاتي ہيں، ادھر ميرے لال کا بھي يہي حال ہے، پڑا چھيکنتا ہے پلنگ پر، اور اس کا باپ تو کھانس کھانس کر ادھ موا ہورہا ہے،۔
گوري کا جي متلا گيا۔۔۔۔
پرے کونے ميں دبکي ہوئي ايک بڑھيا نے اپنے زکم کا تذکرہ چھيڑ ديا، چھيک آتي بھي ہے اور نہيں بھي، بس يوں منہ کھولتي ہوں اور کھولے رکھتي ہوں، اور چھينک پلٹ جاتي ہے اور دماغ ميں وہ کھلبلي مچتي ہے کہ چاہتي ہوں چولھے ميں دے دوں اپنا سر۔۔۔
عام شکايت ہے دوسري بولي۔۔۔
پہلي نے اپني بينگن جيسي ناک کو صادر تلے چھپا کر کہا، پر ميں تو سمجھتي ہوں يہ آفت صرف مجھ پر پڑي ہے، اوروں کو زکام ہوتا ہے کہ دماغ ميں کھلبي ہوئي، چھينک آئي اور جي خوش ہوگيا، يہاں تو يہ حال ہے کہ زکام کي فکر الگ اور جھينک کي الگ۔۔۔
اور خدا جانے کيا بات ہوئي کہ گوري کو بھي چھينک آگئي اس کي ساس اور اوسان خطا ہوگئے، تجھے بھي چھينک آگئ، اے ہے، اب کيا ہو گا، نئي نويلي دلہن کو اللہ کرے کبھي چھينک نہ آئے، بنفشے کا کاڑھا بنالائوں؟ پر اس صدي ميں تو بنفشے کا اثر ہي ختم ہوگيا، گرم گرم چنے ٹھيک رہيں گے وہ يہ کہ تيزي سے اٹھي تو چادر پائوں ميں الجھ گئي، ہڑ بڑا کر پرلے کونے ميں بڑھيا پر جا گري، وہ بے چاري چھينک کو دماغ سے نوچ چھيکنے کي کوشش ميں تي کہ يہ نئي آفت ٹوٹي تو اس کہ منہ سے کچھ ايسي آواز نکلي جيسے گيلا گولا پٹھتا ہے۔
ہڑبونگ مچي تو گوري سب کے دماغ سے اتر گئي اور جب کچھ سکون ہوا تو بوڑھي نائن کولہوں پر ہاتھ رکھے اندر آئي اور گوري کے پاس بيٹھ کر بولي۔۔
اے ہے ميري راني، ابھي تک چوري نہيں کھائي تو نے؟ نوج ايسے لاج بھي کيا؟
ان دلہوں کو کيا ہوجاتا ہے، دو دو دن ايک کھيل بھي اڑ کر نہيں جاتي پيٹ ميں اور منہ مچوڑے بيٹھي ہے۔
جي نہيں چاہتا۔
جي چاہتا ہے اندر سے، پر يہ نگوڑي لاج نيا گھر۔۔۔۔۔۔۔۔نئے لوگپر گوري راني میں تو تيري وہي پراني نائن ہوں، جانے کے بار مينڈھياں بنائيں، کے بار کنگھي کي، وہ ايک بار تيرا بندا اٹک گيا تھا بالوں ميں، تو چلائي تو گھر بھر مچل اٹھا، بڑي بوڑھيوں کا جمگھٹ ہوگيا، کوئي بندے کو مروڑ رہي تھي، کوئي بالوں کي لٹيں کھيچ رہي تھي اور تو گلاب کا پھول بني جارہي تھي۔
برات آئي، خير کيلئے ہاتھ اٹھائے گئے اور اس کے بياہ کا اعلان کيا گيا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لال دوپٹے ميں سمٹي ہوئي سوچنے لگي کہ اتنا بڑا واقعہ اتنے مختصر عرصے ميں کيسے تکميل تک پہنچا، وہ تو يہ سمجھے بيٹھي تھي کہ جب برات آئے گي تو زمين اور آسمان کے درميان الف ليلہ والي پريوں کے غول ہاتھوں ميں ہاتھ ڈالے، پروں سے ملائے بڑا پيارا سا ناچ ناچيں گے، بکھرے ہوئے تارے ادھر ادھر سے کھسک کر ايک دوسرے سے چمٹ جائيں گے اور ٹمٹاتے ہوئے بادل کي شکل اخيتار کر ليں گے، اور پھر يہ بادل ہولے ہولے زميں پر اترے گا، اس کے سر پر آکر رک جائے گا اور اس کے حنا آلود انگھوٹے کي پوروں کي لکيريں تک جھلملا اٹھيں گيں، دنيا کے کناروں سے تہنيت کے غلفے اٹھيں گے اور اس کے باليوں بھرے کانوں کے قريب آکر منڈ لائيں گے۔۔۔۔۔۔۔وہ تو يہ سمجھتي تھي کہ يہ دن اور رات کا سلسلہ صرف اس کے بياہ کے انتظار ميں ہے، بس جو نہي اس کا بياہ ہوگا، پورب پچھم پر ايک مٹيالا سا اجالا چھا جائے گا۔۔۔۔۔جسے نہ دن کہا جاسکے گا اور نہ ہي رات۔۔۔۔۔۔بس جھٹپٹے کا سا سماں رہے گا قيامت تک اور جو نہي برات اس کے گھر کي دہليز الانگے گي يہ سارا نظام کھلکھلا کر ہنس دے گا اور تب سب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آج گوري کا بياہ ہے۔
ليکن بس برات آئي، لمبي لمبي داڑھيوں والوںنے آنکھيں بند کرکے دعا کيلئے ہاتھ اٹھائے، شکر اور تل تقسيم کئے گئے اور پھر اسے ڈولي ميں دھکا دے يا گيا، ڈھول چنگھاڑنے لگے، شہنائيان بکلنے لگيں، گولے بھونکنے لگے اور وہ کسي ان ديکھے ، ان جانے گھر کو روانہ کردي گئي۔
ڈولي ميں سے بہت مشکل سے ايک جھري بنا کر اس نے ميراسيوں کي چرف ديکھا، کالے کلوٹۓ بھتنے، ميال ڈھول اور مري ہوئي سنپوليون کي سي شہنائيوں ، نہ بين نہ باجہ نہ تونتنياں نہ انٹوں کے گھٹنوں پر جھنجناتے ہوئے گھنگرو، نہ گولے نہ شرکنياں، جيسے کسي کي لاش قبرستان لے جارہے ہوں۔
ہاں وہ لاش ہي تو تھي اور يہ ڈولي اس کا تابوت تھا، سفيد کفن کے بجائے اس نےلال کفن اوڑھ رکھا تھا اور پھر يہ نتھ، بلاق، جھومر، ہار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالياں۔۔۔۔۔۔۔۔۔يہ قبر والے بچھو اور کھنکجورے تھے، جو اسے قدم قدم پر ڈس رہے تھے۔
ڈولي کے قريب بار بار ايک بوڑھے کي کھانسي کي آواز آرہي تھي، شايد وہ دولہا کا باپ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جس دولھا کا باپ پل پل بھر بعد بلغم کے انتے بڑے بڑے گولے پٹاخ سے زمين پر دے مارتا ہے، وہ خود کيسا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے ري۔
وہ رو دي، وہ اس سے پيشتر بھي روئي تھي، جب اس کي ماں نے اسے گلے سے لگايا اور سرگوشي کي۔۔ميري لاڈلي گوري۔۔۔تيري عزت ہماري عزت ہے، تو اب پرائے گھر جارہي ہے، بڑے سليقے سے رہنا ورنہ ناک کٹ جائے گي، ہماري۔۔۔۔۔۔۔۔۔يعني اس کي ماں کو اس موقعہ پربھي اپني ناک کي فکر ہوئي بھٹی ميں دانہ اسپند ڈال ديا جائے۔۔۔۔۔ماں کو اس کے دل کي پراوہ نہ تھي، اس وقت دکھاوے کي خاطر وہ روئي بھي ، سسکياں بھي بھري، گلووان کے دوپٹۓ سے آنسو بھي پونچھے، پر اس نے رونے ميں کوئي مزانہ تھا، يہاں ڈولي ميں اس کي آنکھوں ميں نمي تيري ہي تھي کہ اس کے روئيں روئيں ميں ہزاروں خفتہ بے قرارياں جاگ اٹھيں۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہنائياں اس کا ساتھ ديتي رہيں، ڈھول پٹتا رہا، جب ڈولي دولھا کے گھر پہنچي تو ايک گولہ چھوٹا جيسے کسي بيمار کو مري مري چھيک آئے، اسے اپني سہيلي نوري پر بہت غصہ آيا جو بياہ کے گيت گانے ميں تاک سمجھي جاتي تھي اور جس نے ايک بار گوري کو چھيڑنے کيلئے بھرے مجمع ميں ايک گيت گايا تھا۔
عطر پھليل لگالے ري گوري سيج بلائے توئے
گوري نے ڈولي سے باہر قدم رکھا ہي تھا کہ آنگن سے اس پار تک روئي کي ايک پگڈنڈي سي بچھادي گئي، اس کي ساس اس سے يوں لپٹ گئي جيسے گوري نے شراب پي رکھي ہوں، اور ساس کو اس کے لڑکھڑانے کا خوف دامن گير ہے، گوري نرم نرم روئي پر چلي تو اسے يونہي شک گزرا کہ واقعي يہ واقعہ تھا تو بڑا، اس کا اپنا اندازہ غلط تھا، آخر اتني ملائم روئي صرف اسي لئےتو خاک پر نہيں بھچائي گئي تھي، کہ اس کے مہندي رہے پائوں ميلے نہ ہوں، پر جونہي اس نے اس شبہ کو يقين ميں بدلنا چاہا تو اچانک اس کے پائوں زميں کي سخت ٹھنڈي سطح سے مس ہوئے اور سراب کي چمک ماند پڑ گئي۔۔۔۔۔۔۔۔روئي ختم ہوچکي تھي۔
اب سے سخت سزا بگھتنا پڑگئي، اسے ايک کونے ميں بيٹھا ديا گيا، اس حالت مين کہ اسکا سر جھک کر اس کے گھٹنوں کو چھورہا تھا اور اس کے گلے کا ہار آگے لٹء کر اس کي تھوڑي سے لپٹا پڑا تھا، گائوں والياں آنے لگيں، اکني چوني اسکے مردہ ہاتھ ميں ٹھونس دي اور گھونگھٹ اٹھا اٹھا کر بٹر بٹر اس چہرے کو گھورا جانے لگا۔۔۔۔جيسے لاش کے چہرے سے آخري ديدار کي خاطر کفن سرکا ديا جاتا تھا۔۔۔۔
سارادن اس کي ناک کے بانسے، اس کي پلکوں کے تنائو، اس کے ہونٹوں کے خم، اس کے نام اور اس کے رنگ، اس کي اتني بڑي نتھ اور جھومر اور باليوں کے متعلق تذکرے کئے گئے، اور جب سورج پچھم کي طرف لٹک گيا تو اس کے آگے چوري کا کٹورا ادھر ديا گيا، اس کي ساس ناک سڑ سٹراتي اس کے پاس آئي اور بولي لئ ميري راني کھالے چوري؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔جيسے نئے نئے طوطے کو پچکارا جاتا ہے، اسے ايک بار خيال آيا کہ کيوں نہ نئے طوطے کي طرح لپک کر اس کي ناک کاٹ لے، مگر اب اس نے ايک اور موضوع پر بولنا شروع کرديا تھا، کيا کروب بہن عجيب مصيبت ہے، جي آتا نگوڑي ناک کو کاٹ کر پھينکوں، بہ چلي جار رہي ہے، اتني چھينکيں آتي ہيں، بہن اور اتني بڑي چھينکيں کہ اللہ قسم انتڑياں کھنچ جاتي ہيں، ادھر ميرے لال کا بھي يہي حال ہے، پڑا چھيکنتا ہے پلنگ پر، اور اس کا باپ تو کھانس کھانس کر ادھ موا ہورہا ہے،۔
گوري کا جي متلا گيا۔۔۔۔
پرے کونے ميں دبکي ہوئي ايک بڑھيا نے اپنے زکم کا تذکرہ چھيڑ ديا، چھيک آتي بھي ہے اور نہيں بھي، بس يوں منہ کھولتي ہوں اور کھولے رکھتي ہوں، اور چھينک پلٹ جاتي ہے اور دماغ ميں وہ کھلبلي مچتي ہے کہ چاہتي ہوں چولھے ميں دے دوں اپنا سر۔۔۔
عام شکايت ہے دوسري بولي۔۔۔
پہلي نے اپني بينگن جيسي ناک کو صادر تلے چھپا کر کہا، پر ميں تو سمجھتي ہوں يہ آفت صرف مجھ پر پڑي ہے، اوروں کو زکام ہوتا ہے کہ دماغ ميں کھلبي ہوئي، چھينک آئي اور جي خوش ہوگيا، يہاں تو يہ حال ہے کہ زکام کي فکر الگ اور جھينک کي الگ۔۔۔
اور خدا جانے کيا بات ہوئي کہ گوري کو بھي چھينک آگئي اس کي ساس اور اوسان خطا ہوگئے، تجھے بھي چھينک آگئ، اے ہے، اب کيا ہو گا، نئي نويلي دلہن کو اللہ کرے کبھي چھينک نہ آئے، بنفشے کا کاڑھا بنالائوں؟ پر اس صدي ميں تو بنفشے کا اثر ہي ختم ہوگيا، گرم گرم چنے ٹھيک رہيں گے وہ يہ کہ تيزي سے اٹھي تو چادر پائوں ميں الجھ گئي، ہڑ بڑا کر پرلے کونے ميں بڑھيا پر جا گري، وہ بے چاري چھينک کو دماغ سے نوچ چھيکنے کي کوشش ميں تي کہ يہ نئي آفت ٹوٹي تو اس کہ منہ سے کچھ ايسي آواز نکلي جيسے گيلا گولا پٹھتا ہے۔
ہڑبونگ مچي تو گوري سب کے دماغ سے اتر گئي اور جب کچھ سکون ہوا تو بوڑھي نائن کولہوں پر ہاتھ رکھے اندر آئي اور گوري کے پاس بيٹھ کر بولي۔۔
اے ہے ميري راني، ابھي تک چوري نہيں کھائي تو نے؟ نوج ايسے لاج بھي کيا؟
ان دلہوں کو کيا ہوجاتا ہے، دو دو دن ايک کھيل بھي اڑ کر نہيں جاتي پيٹ ميں اور منہ مچوڑے بيٹھي ہے۔
جي نہيں چاہتا۔
جي چاہتا ہے اندر سے، پر يہ نگوڑي لاج نيا گھر۔۔۔۔۔۔۔۔نئے لوگپر گوري راني میں تو تيري وہي پراني نائن ہوں، جانے کے بار مينڈھياں بنائيں، کے بار کنگھي کي، وہ ايک بار تيرا بندا اٹک گيا تھا بالوں ميں، تو چلائي تو گھر بھر مچل اٹھا، بڑي بوڑھيوں کا جمگھٹ ہوگيا، کوئي بندے کو مروڑ رہي تھي، کوئي بالوں کي لٹيں کھيچ رہي تھي اور تو گلاب کا پھول بني جارہي تھي۔
Comment