عورتو ں کے اند ر ایک عادت یہ دیکھی گئی کہ گھر کے اندر میلی کچیلی بن کر رہیں گی اور با ہر دیکھو توبن سنورکے نظر آئیں گی ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ دنیا نے آپ کو محبتیں نہیں دینی خاوند نے محبت دینی ہے ۔ اس لئے عورت کی ذمہ داریوں میں سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ مر د کی عمرجو انی کی ہو یا بڑھا پے کی عورت ہمیشہ گھر کے اندر صاف ستھری رہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر وقت دلہن ہی بن کر رہے ۔ مگر صاف ستھرا رہنا تو ایک اچھی عادت ہے۔ میلا کچیلا بندہ تو کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا ۔ تو صاف ستھری بن کر رہے اور خوش اخلاق خوش مزاج بن کر رہے ۔
مرد کی پٹڑی کیوں بدل جا تی ہے ؟
اب یہی وہ نکتہ ہے جہاں پہ آکر مرد کی پٹڑی بدل جا تی ہے کہ مرد چو نکہ خود پریشان ہوتا ہے اپنے کام اور کاروبا ر کی وجہ سے گھر میں جب آتا ہے تو اس کو بیوی با سی اور میلے منہ کے ساتھ بیٹھی نظر آتی ہے ۔ اب اس کا دیکھنے کو دل نہیں کر تا ۔ وہی مرد جب دفتر میں جا تا ہے تو اس کو کام کرنے والی لڑکی نہا ئی دھو ئی اچھے کپڑے پہنی مسکرا تی نظر آتی ہے ۔ اب اس کا رنگ گو را ہے یا کالا ہے ۔ وہ جیسی کیسی ہے اب اس کے خاوند کو وہ اچھی لگنے لگ جا تی ہے ۔ اور اگر گھر میں بیوی جھگڑے والی ہے اور وہ پریشان حال ہو کر گھر سے نکلا اور دفتر میں کسی ایسی بد کردار لڑکی نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھ لیا ۔ اور پو چھ لیا سر آج آپ بڑے پریشان نظر آتے ہیں ۔ تو بس سمجھ لو مرد کی پٹڑی بدل گئی ۔ اس بدکردار لڑکی کا ایک فقرہ دوسری عورت کی سار ی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ہمیشہ عورت کے حق پر عورت ہی ڈا کہ ڈا لتی ہے ۔مگر اس ڈاکے میں عورت کا اپنا بھی قصور ہے ۔ اس کو چا ہیے تھا کہ گھر میں خا وند کو سکو ن دیتی ،خو شیا ں دیتی ،صاف نظر آتی ، اس کے اندر دل کشی ہو تی ۔جب اس نے خود ہی اسی چیزکو نظر انداز کر دیا تو گویا اس نے خاوند کو مو قع دیا کہ یہ دو سری لڑکی کی طرف متوجہ ہو جائے۔ایسی عو رتیں میلی کچیلی رہتی ہے وہ بیچاری شا دی شدہ بیوہ ہو تی ہے ۔ خاوند ان کی طر ف دھیان ہی نہیں کر تے ۔
جو سمجھ دار عورت ہو تی ہے وہ سمجھتی ہے کہ میری ذمہ دا ریوں میں سے جیسے یہ ہے کہ میں نماز ادا کروں ، میرا ما لک حقیقی خو ش ہو گا ایسے ہی میرے فر ائض میں سے ایک فر ض ہے کہ میں صاف ستھر ی رہوں کہ میرا خاوند مجھ سے خوش ہو ۔ اب دیکھو بندہ صاف ستھرا بھی ہے اور اچھا بھی رہے اور اوپر سے خا وند بھی خو ش ہو اس کوکہتے ہیں ۔ نور علیٰ نور۔ تو اگر آ پ کے صاف ستھرا رہنے سے مرد آپ کی طر ف متوجہ ہو تا ہے تو اور آپ کو کیا چا ہیے ۔ اس لئے جو عورت صاف ستھری رہتی ہے ، خوش مز اج رہتی ہے اور کھلے چہر ے کے ساتھ خا وند کا استقبال کرتی ہے ۔ وہ ہمیشہ کے لئے خا وند کی آنکھ کی پتلی بن جا تی ہے ۔ کچھ عقل بھی استعمال کر نی چا ہیے ۔
بر مو قع اور بر محل با ت شو ہر کے دل کو متا ثر کر تی ہے
عقل مند بیو یاں ہمیشہ اپنے خاوند وں کے دلوں کو جیتتی ہیں ۔ با ت اتنے اچھے انداز سے ، بر مو قع اور بر محل کر تی ہیں کہ خاوند کے دل میں اتر جا تی ہیں ۔ اس لئے ایک شا عر نے عر بی کے شعر میں کہا جس کا تر جمہ کچھ یو ں بنتا ہے ۔
”سلمٰی کی با تیں ٹوٹے ہو ئے ہا ر کے موتیوں کی طرح ہو تی ہیں “
تو اس کا مطلب یہ ہے اس کو اپنی محبوبہ کی با تیں ایسی لگتی ہیں جیسے ٹو ٹے ہو ئے ہا ر کے جو مو تی ہیں جو جھڑ رہے ہیں ۔ لہٰذا بیوی کی خو بصورت انداز میں کی ہو ئی بات مرد کو متاثر کرتی ہے ۔
ہا رون الرشید ایک مر تبہ کھا نا کھا کر فا رغ ہو ا ۔ اس کا خیال بنا کہ کھا نا کھا یا ہے ذرا با ہر نکلتے ہیں ۔ تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ چلو چا ند نی رات ہے ذرا با ہر چل کر چہل قدمی کر لیتے ہیں ۔ بیوی کہنے لگی کی امیر المو منین ! آپ دو سوکنیں جمع کر کے کیو ں خوش ہو ں گے ۔ کہنے لگا ، کیا مطلب ؟ کہنے لگی ایک طرف میرا چہرا ہو گا ایک طرف چا ند ہو گا ۔ دو سو کنوں کو آپ کیسے جمع کر یں گے ۔ تو با ت سن کے ہا رون الرشید خوش ہوگیا ۔اس طر ح بیوی ایسی عقل مندی کی با تیں کر سکتی ہے کہ جس سے خا وند کے دل میں اس کی اور زیادہ محبت پیدا ہو جائے ۔
ایک مر تبہ ہارون الرشید نے بیوی کو بتا یا کہ دیکھو سو رج گرہن لگ گیا ۔ وہ … دیکھو ۔ دیکھ کر کہنے لگی کہ حقیقت یہ ہے کہ جب سورج نے میر احسن دیکھا تو آگ بگو لہ تھا اور آگ بگولہ ہو کر اس نے پردہ کر لیا اس لئے آج اس کو گہن نظر آ رہا ہے ۔ اب ہیں تو یہ الفاط ہی مگر الفاظ ہی تو دوسرے کے دل کو خوش کر دیتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ زیب النسا ء مخفی جو بڑی شا عرہ بھی تھی اور وقت کی شہزادی بھی تھی ۔ ایک مر تبہ با غ کے اند ر چہل قد می کر رہی تھی تو اس کا منگیتر عا قل خان وہ بھی کہیں سے اس طرف کو آنکلا ۔ اس نے کیا کیا کہ چند پھو ل تو ڑے اور ان کا گلدستہ بنا کر اس نے زیب النسا ء کو تحفہ پیش کیا ۔ اب یہ شا عر ہ تھی تو جب اس نے یہ گلدستہ لیا تو شعر کہنے لگی ۔
# بگواے عا شق صادق چرا گلدستہ آ وردی
دل بلبل شکستہ زہر ما گلد ستہ آ وردی
” بتا ؤ عا شق صادق ! تم نے مجھے جو گلدستہ پیش کیا تو تم نے میرا دل خوش کیا ۔ لیکن بلبل کے دل کو تو تم نے توڑ دیا “
کہ پھو ل تو ڑنے سے بلبل کا دل افسردہ ہو تا ہے ۔ تو کیسا اس نے اچھو تا انداز اپنا کر بات کہی کہ اے عاشق !تو نے مجھے گلدستہ پیش کیا میرا دل خوش کر نے کے لیے مگر تو نے بلبل کا دل تو توڑ دیا ۔ تو عا قل خان آگے سے کہنے لگا ۔
# بر ائے زینت دستک نہ ایں گلد ستہ آوردم
بخو بی با تو می زد گل پیشک بستہ آو ردم
” کہ اے نا زنین ! میں نے آپ کے ہا تھو ں کی زیب و زینت کے لئے گلد ستہ پیش نہیں کیا بلکہ آپ کی مو جو د گی میں یہ پھو ل اپنے حسن و جمال کا دعویٰ کر رہے تھے ۔ لہٰذا میں نے ان قیدیوں کو جگڑ کر آپ کی خد مت میں پیش کر دیا“
اب دیکھو ہے تو با ت ہی لیکن اس با ت سے اس کا دل کتنا خو ش ہو ا ہو گا ۔ تو عورت کو چا ہیے کہ کچھ عقل سمجھ سے کا م لے ۔ پر وردگا ر نے اسی لئے تو عقل دی ہو تی ہے ۔ عقل سے فا رغ ہو کر سو چنا کہ خا وند خود ہی مانے یا خا وند کو کوئی مجھ سے منا دے ۔ یہ کیا بات ہو ئی۔
ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا اکٹھے بیٹھے ہو ئے تھے ۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مذاقاً یہ شعر پڑھا ۔
# ان النسآ ء شیا طین خلقن لنا
نعو ذ باللہ من شر الشیاطین
” بے شک عورتیں گو یا شیطا ن کی طر ح ہیں جو ہما رے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ ہم شیطا ن کے شر سے اللہ کی پنا ہ چا ہتے ہیں “
حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ شعر سنا تو انہوں نے بھی آگے سے یہ خوش کن جواب شعر کی صورت میں دیا ۔
# ان النسآ ء ریا حین خلقن لکم
وکلکم یشمی شید الر یا حین
” بے شک عورتیں تو مہکتے ہو ئے پھو ل کی طرح ہیں جو تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ اور تم میں سے ہر ایک پھو لوں کی خو شبوں کو سو نگنے کا متمنی ہوتا ہے“
تو دیکھیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کس طر ح ان سے خوش طبعی فرمائی اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے کتنا خو بصورت جو اب دیا۔
اس لئے با ت کر نے کا انداز بھی کوئی ہونا چا ہیے ۔ اے حسین عورت ! اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے حسن عطا کیا ہے تو بدکلا می سے اپنے چہرے کو نہ بگا ڑا کر ۔ اور اے بد صورت عورت ! اگر اللہ نے تجھے حسن سے محروم کیا ہے تو بد کلا می کے ذر یعے اپنے اندر دو سرا عیب نہ پیدا کر.
مرد کی پٹڑی کیوں بدل جا تی ہے ؟
اب یہی وہ نکتہ ہے جہاں پہ آکر مرد کی پٹڑی بدل جا تی ہے کہ مرد چو نکہ خود پریشان ہوتا ہے اپنے کام اور کاروبا ر کی وجہ سے گھر میں جب آتا ہے تو اس کو بیوی با سی اور میلے منہ کے ساتھ بیٹھی نظر آتی ہے ۔ اب اس کا دیکھنے کو دل نہیں کر تا ۔ وہی مرد جب دفتر میں جا تا ہے تو اس کو کام کرنے والی لڑکی نہا ئی دھو ئی اچھے کپڑے پہنی مسکرا تی نظر آتی ہے ۔ اب اس کا رنگ گو را ہے یا کالا ہے ۔ وہ جیسی کیسی ہے اب اس کے خاوند کو وہ اچھی لگنے لگ جا تی ہے ۔ اور اگر گھر میں بیوی جھگڑے والی ہے اور وہ پریشان حال ہو کر گھر سے نکلا اور دفتر میں کسی ایسی بد کردار لڑکی نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھ لیا ۔ اور پو چھ لیا سر آج آپ بڑے پریشان نظر آتے ہیں ۔ تو بس سمجھ لو مرد کی پٹڑی بدل گئی ۔ اس بدکردار لڑکی کا ایک فقرہ دوسری عورت کی سار ی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ہمیشہ عورت کے حق پر عورت ہی ڈا کہ ڈا لتی ہے ۔مگر اس ڈاکے میں عورت کا اپنا بھی قصور ہے ۔ اس کو چا ہیے تھا کہ گھر میں خا وند کو سکو ن دیتی ،خو شیا ں دیتی ،صاف نظر آتی ، اس کے اندر دل کشی ہو تی ۔جب اس نے خود ہی اسی چیزکو نظر انداز کر دیا تو گویا اس نے خاوند کو مو قع دیا کہ یہ دو سری لڑکی کی طرف متوجہ ہو جائے۔ایسی عو رتیں میلی کچیلی رہتی ہے وہ بیچاری شا دی شدہ بیوہ ہو تی ہے ۔ خاوند ان کی طر ف دھیان ہی نہیں کر تے ۔
جو سمجھ دار عورت ہو تی ہے وہ سمجھتی ہے کہ میری ذمہ دا ریوں میں سے جیسے یہ ہے کہ میں نماز ادا کروں ، میرا ما لک حقیقی خو ش ہو گا ایسے ہی میرے فر ائض میں سے ایک فر ض ہے کہ میں صاف ستھر ی رہوں کہ میرا خاوند مجھ سے خوش ہو ۔ اب دیکھو بندہ صاف ستھرا بھی ہے اور اچھا بھی رہے اور اوپر سے خا وند بھی خو ش ہو اس کوکہتے ہیں ۔ نور علیٰ نور۔ تو اگر آ پ کے صاف ستھرا رہنے سے مرد آپ کی طر ف متوجہ ہو تا ہے تو اور آپ کو کیا چا ہیے ۔ اس لئے جو عورت صاف ستھری رہتی ہے ، خوش مز اج رہتی ہے اور کھلے چہر ے کے ساتھ خا وند کا استقبال کرتی ہے ۔ وہ ہمیشہ کے لئے خا وند کی آنکھ کی پتلی بن جا تی ہے ۔ کچھ عقل بھی استعمال کر نی چا ہیے ۔
بر مو قع اور بر محل با ت شو ہر کے دل کو متا ثر کر تی ہے
عقل مند بیو یاں ہمیشہ اپنے خاوند وں کے دلوں کو جیتتی ہیں ۔ با ت اتنے اچھے انداز سے ، بر مو قع اور بر محل کر تی ہیں کہ خاوند کے دل میں اتر جا تی ہیں ۔ اس لئے ایک شا عر نے عر بی کے شعر میں کہا جس کا تر جمہ کچھ یو ں بنتا ہے ۔
”سلمٰی کی با تیں ٹوٹے ہو ئے ہا ر کے موتیوں کی طرح ہو تی ہیں “
تو اس کا مطلب یہ ہے اس کو اپنی محبوبہ کی با تیں ایسی لگتی ہیں جیسے ٹو ٹے ہو ئے ہا ر کے جو مو تی ہیں جو جھڑ رہے ہیں ۔ لہٰذا بیوی کی خو بصورت انداز میں کی ہو ئی بات مرد کو متاثر کرتی ہے ۔
ہا رون الرشید ایک مر تبہ کھا نا کھا کر فا رغ ہو ا ۔ اس کا خیال بنا کہ کھا نا کھا یا ہے ذرا با ہر نکلتے ہیں ۔ تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ چلو چا ند نی رات ہے ذرا با ہر چل کر چہل قدمی کر لیتے ہیں ۔ بیوی کہنے لگی کی امیر المو منین ! آپ دو سوکنیں جمع کر کے کیو ں خوش ہو ں گے ۔ کہنے لگا ، کیا مطلب ؟ کہنے لگی ایک طرف میرا چہرا ہو گا ایک طرف چا ند ہو گا ۔ دو سو کنوں کو آپ کیسے جمع کر یں گے ۔ تو با ت سن کے ہا رون الرشید خوش ہوگیا ۔اس طر ح بیوی ایسی عقل مندی کی با تیں کر سکتی ہے کہ جس سے خا وند کے دل میں اس کی اور زیادہ محبت پیدا ہو جائے ۔
ایک مر تبہ ہارون الرشید نے بیوی کو بتا یا کہ دیکھو سو رج گرہن لگ گیا ۔ وہ … دیکھو ۔ دیکھ کر کہنے لگی کہ حقیقت یہ ہے کہ جب سورج نے میر احسن دیکھا تو آگ بگو لہ تھا اور آگ بگولہ ہو کر اس نے پردہ کر لیا اس لئے آج اس کو گہن نظر آ رہا ہے ۔ اب ہیں تو یہ الفاط ہی مگر الفاظ ہی تو دوسرے کے دل کو خوش کر دیتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ زیب النسا ء مخفی جو بڑی شا عرہ بھی تھی اور وقت کی شہزادی بھی تھی ۔ ایک مر تبہ با غ کے اند ر چہل قد می کر رہی تھی تو اس کا منگیتر عا قل خان وہ بھی کہیں سے اس طرف کو آنکلا ۔ اس نے کیا کیا کہ چند پھو ل تو ڑے اور ان کا گلدستہ بنا کر اس نے زیب النسا ء کو تحفہ پیش کیا ۔ اب یہ شا عر ہ تھی تو جب اس نے یہ گلدستہ لیا تو شعر کہنے لگی ۔
# بگواے عا شق صادق چرا گلدستہ آ وردی
دل بلبل شکستہ زہر ما گلد ستہ آ وردی
” بتا ؤ عا شق صادق ! تم نے مجھے جو گلدستہ پیش کیا تو تم نے میرا دل خوش کیا ۔ لیکن بلبل کے دل کو تو تم نے توڑ دیا “
کہ پھو ل تو ڑنے سے بلبل کا دل افسردہ ہو تا ہے ۔ تو کیسا اس نے اچھو تا انداز اپنا کر بات کہی کہ اے عاشق !تو نے مجھے گلدستہ پیش کیا میرا دل خوش کر نے کے لیے مگر تو نے بلبل کا دل تو توڑ دیا ۔ تو عا قل خان آگے سے کہنے لگا ۔
# بر ائے زینت دستک نہ ایں گلد ستہ آوردم
بخو بی با تو می زد گل پیشک بستہ آو ردم
” کہ اے نا زنین ! میں نے آپ کے ہا تھو ں کی زیب و زینت کے لئے گلد ستہ پیش نہیں کیا بلکہ آپ کی مو جو د گی میں یہ پھو ل اپنے حسن و جمال کا دعویٰ کر رہے تھے ۔ لہٰذا میں نے ان قیدیوں کو جگڑ کر آپ کی خد مت میں پیش کر دیا“
اب دیکھو ہے تو با ت ہی لیکن اس با ت سے اس کا دل کتنا خو ش ہو ا ہو گا ۔ تو عورت کو چا ہیے کہ کچھ عقل سمجھ سے کا م لے ۔ پر وردگا ر نے اسی لئے تو عقل دی ہو تی ہے ۔ عقل سے فا رغ ہو کر سو چنا کہ خا وند خود ہی مانے یا خا وند کو کوئی مجھ سے منا دے ۔ یہ کیا بات ہو ئی۔
ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا اکٹھے بیٹھے ہو ئے تھے ۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مذاقاً یہ شعر پڑھا ۔
# ان النسآ ء شیا طین خلقن لنا
نعو ذ باللہ من شر الشیاطین
” بے شک عورتیں گو یا شیطا ن کی طر ح ہیں جو ہما رے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ ہم شیطا ن کے شر سے اللہ کی پنا ہ چا ہتے ہیں “
حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ شعر سنا تو انہوں نے بھی آگے سے یہ خوش کن جواب شعر کی صورت میں دیا ۔
# ان النسآ ء ریا حین خلقن لکم
وکلکم یشمی شید الر یا حین
” بے شک عورتیں تو مہکتے ہو ئے پھو ل کی طرح ہیں جو تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ اور تم میں سے ہر ایک پھو لوں کی خو شبوں کو سو نگنے کا متمنی ہوتا ہے“
تو دیکھیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کس طر ح ان سے خوش طبعی فرمائی اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے کتنا خو بصورت جو اب دیا۔
اس لئے با ت کر نے کا انداز بھی کوئی ہونا چا ہیے ۔ اے حسین عورت ! اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے حسن عطا کیا ہے تو بدکلا می سے اپنے چہرے کو نہ بگا ڑا کر ۔ اور اے بد صورت عورت ! اگر اللہ نے تجھے حسن سے محروم کیا ہے تو بد کلا می کے ذر یعے اپنے اندر دو سرا عیب نہ پیدا کر.
Comment