صحابیات اہل بیت کا روزہ اور تقویٰ
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حیا کا پیکر
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پردے کا حد درجہ اہتمام کرتی تھیں ان کا تقویٰ بلند مرتبت تھا اور اپنے تمام کاموں میں تقویٰ سے لیس تھیں اور شرم و حیا کا پیکر تھیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تجہیز و تکفین میں خاص شدت کی گئی عورتوں کے جنازہ پر جو آج کل پردہ لگانے کا دستور ہے اس کی ابتداء ان ہی سے ہوئی۔ اس سے بیشتر عورت اور مرد سب کا جنازہ کھلا ہوا جاتا تھا چونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں انتہاء کی شرم و حیاء تھی وفات سے پہلے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو بلا کرفرمایا۔
جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردہ کا پورا لحاظ رکھنا اور سوائے میرے شوہر نامدار کے اور کسی سے میرے غسل میں مدد نہ لینا۔ تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا‘‘
حضرت اسماء نے کہا ’’ اے بنت رسول ﷺ میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈبے کی صورت بنا لیتے ہیں اور اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ آپ کہیں تو اس کو پیش کروں یہ کہہ کر خرمے کی چند شاخیں منگوائیں اور ان پر کپڑا تانا جس سے پردہ کی صورت پیدا ہوگئی اور حضرت فاطمہ بے حد مسرور ہوئیں کہ یہ بہترین طریقہ ہے۔ (اسدالغابہ جلد5 ص534) رمضان المبارک میں اگر میری بہنیں اماں فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی چادر اوڑھ لیں تو رب کریم آپ کو ہمیشہ سُکھ چین کی چادر میں ڈھانپ لے گا۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا روزے سے پیار
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بھی اس صفت پر سختی سے کاربند تھیں۔ چنانچہ آپ اپنا بیشتر وقت عبادت الٰہی عزوجل میں گزارتی تھیں۔ یہاں تک کہ جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی آپ کی عبادت کی تعریف فرمائی۔ ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کی شان میں یہ الفاط حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے کہے ’’حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بہت عبادت کرنے والی روزہ رکھنے والی اور جنت میں آپ کی زوجہ ہیں‘‘
سبحان اللہ! کہ ان کی عبادت کی تعریف حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی کی آپ قرآن کریم کی حافظہ تھیں اور کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ نیز آپ اکثر روزے سے رہا کرتی تھیں بلکہ یہاں تک کہ حافظ ابنِ حجر نے لکھا ہے کہ ’’ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا روزے کی حالت میں فوت ہوئیں۔ (الاصحابہ صفحہ ۲۶۵)
اور آپ ایسے احسن طریقے سے عبادت کیا کرتی تھیں کہ کثرت صوم و صلوٰۃ سے معروف ابن سعد نے ان کی عبادت کے متعلق لکھا ہے ’’وہ (یعنی حفصہ رضی اللہ عنہا) صائم النہار اور قائم اللیل ہیں۔دوسری روایت میں ہے ’’حضرت حفصہ انتقال کے وقت تک صائمہ رہیں‘‘ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نہایت عبادت گزار تھیں‘ وہ گوشہ نشین اور پرہیز گار خاتون تھیں اور آپ کا یہ حال تھا کہ اشد ضرورت کے بغیر کبھی گھر سے باہر قدم نہیں نکالا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا زیادہ وقت عبادت میں گزرتا اگرچہ اس زمانے میں جب آپ حضور نبی اکرم ﷺ کے نکاح میں داخل ہوئیں۔ بالکل جوان تھیں مگر آپ رضی اللہ عنہا میں بزرگوں جیسی سنجیدگی اور علماء جیسا وقار تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا زیادہ وقت تلاوت قرآن پاک میں صرف ہوتا۔ آپ اس کی باریکیوں کو سمجھتیں‘ ان پر غور فرماتیں اور جو نقطہ سمجھ میں نہ آتا اس پر حضور ﷺ سے وضاحت طلب کرتیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سخاوت کی دولت سے بھی مالا مال تھیں جو مال آتا اسے اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کرکے خوشی محسوس کرتیں یہاں تک کہ اپنی جائیداد بھی وفات کے وقت اللہ عزوجل کی راہ میں صدقہ کردی۔ اگر میری بہنیں روزوں کو زبردستی اور اکتاہٹ کیساتھ قبول نہ کریںبلکہ خوش دلی کیساتھ روزے سے پیارکریں تو اللہ قیامت کے دن ہمیں بھی اماں حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ کھڑا فرمادے گا۔
حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مصائب پر صبر
جب ان کے شوہر سختیاں جھیلتے ہوئے جاں بحق ہوگئے تو ابوجہل کے چچا ابوحذیفہ بن مغیرہ نے حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ظالم ابوجہل کے حوالے کردیا اور یہ انہیں مختلف طریقوں سے ایذائیں دینے لگا اور نبی کریم ﷺ کو اپنی باتوں اور گالیوں سے ایذاء پہنچاتا۔ ایک رات اس سے حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بڑی واہیات باتیں کیں اور کہا کہ تو محمدﷺ پر اس لیے ایمان لائی ہے کہ ان سے عشق ہوگیا ہے تو جواب میں سمیہ رضی اللہ عنہا نے اسے بڑی سخت بات کہی جس پر وہ آگ بگولا ہوگیا اور اپنا غصہ اس نے ایسے اتارا کہ حضرت سمیہ کو نیزہ مار کر شہید کردیا اور ان کی روح بارگاہ الٰہی میں راضی خوشی‘ توحید و رسالت کی گواہی دیتی حاضر ہوگئی۔ رمضان المبارک میں تیسراکام یہ کریں کہ آپ پر کوئی بھی تکلیف‘ پریشانی آئی ہے تو صحابیات رضوان اللہ علیہن کی تکالیف کو سامنے رکھیں‘ آپ کی پریشانی روئی کا گالا بن کرہوا میں اُڑ جائیگی۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقام شکر
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر کا فقر انہیں ان کی مدد اور خوشنودی کے لیے کام کرنے سے اور ان کیلئے فرمانبرداری کے اسباب مہیا کرنے سے مانع نہ تھا وہ اپنی خوشی سے سارے کام کرتیں‘ دل ایمان پر مطمئن تھا اور جو اللہ تعالیٰ نے مقدر کررکھا تھا اس پر قناعت کرتی تھیں اور اس تمام مرحلے میں ان کا توشہ صبر ہوتا تھا۔ اس صبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ حالت بدل گئی اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو وسعت اور خوشی میسر ہوگئی۔ان کے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں گھر داخل ہوا تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نماز پڑھ رہی تھیں تو میں نے سنا کہ وہ یہ آیت تلاوت کررہی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا اور ہمیں جھلسنے والے عذاب سے بچایا‘ تو یہ آگ سے پناہ مانگنے لگی۔ میں کھڑا ہوگیا اور وہ مسلسل جہنم سے پناہ کی دعا کرتی رہی جب بہت دیر ہوگئی تو میں بازار چلاگیا اور اس کے بعد وہاں سے لوٹا تب بھی روتے ہوئے جہنم سے پناہ کی دعا کررہی تھی۔نفس کا محاسبہ: حضرت اسماء پاکیزہ نفس ستھرے باطن اور اللہ تعالیٰ سے دل لگائے ہوئے تھیں وہ ہر معاملے میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتی تھیں اس کے باوجود اپنے اندر تقصیر محسوس فرماتیں حضرت ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے سر مبارک میں درد ہوجاتا تو وہ سر پر ہاتھ رکھ کر فرماتیں کہ میرے کسی گناہ کی وجہ سے ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ پاک کی ایک ایک نعمت کو گن گن کر اس پر شکر ادا کرنا آپ پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کو بہت زیادہ بڑھا دے گا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حیا کا پیکر
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پردے کا حد درجہ اہتمام کرتی تھیں ان کا تقویٰ بلند مرتبت تھا اور اپنے تمام کاموں میں تقویٰ سے لیس تھیں اور شرم و حیا کا پیکر تھیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تجہیز و تکفین میں خاص شدت کی گئی عورتوں کے جنازہ پر جو آج کل پردہ لگانے کا دستور ہے اس کی ابتداء ان ہی سے ہوئی۔ اس سے بیشتر عورت اور مرد سب کا جنازہ کھلا ہوا جاتا تھا چونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں انتہاء کی شرم و حیاء تھی وفات سے پہلے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو بلا کرفرمایا۔
جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردہ کا پورا لحاظ رکھنا اور سوائے میرے شوہر نامدار کے اور کسی سے میرے غسل میں مدد نہ لینا۔ تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا‘‘
حضرت اسماء نے کہا ’’ اے بنت رسول ﷺ میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈبے کی صورت بنا لیتے ہیں اور اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ آپ کہیں تو اس کو پیش کروں یہ کہہ کر خرمے کی چند شاخیں منگوائیں اور ان پر کپڑا تانا جس سے پردہ کی صورت پیدا ہوگئی اور حضرت فاطمہ بے حد مسرور ہوئیں کہ یہ بہترین طریقہ ہے۔ (اسدالغابہ جلد5 ص534) رمضان المبارک میں اگر میری بہنیں اماں فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی چادر اوڑھ لیں تو رب کریم آپ کو ہمیشہ سُکھ چین کی چادر میں ڈھانپ لے گا۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا روزے سے پیار
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بھی اس صفت پر سختی سے کاربند تھیں۔ چنانچہ آپ اپنا بیشتر وقت عبادت الٰہی عزوجل میں گزارتی تھیں۔ یہاں تک کہ جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی آپ کی عبادت کی تعریف فرمائی۔ ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کی شان میں یہ الفاط حضور نبی کریم ﷺ کے سامنے کہے ’’حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بہت عبادت کرنے والی روزہ رکھنے والی اور جنت میں آپ کی زوجہ ہیں‘‘
سبحان اللہ! کہ ان کی عبادت کی تعریف حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی کی آپ قرآن کریم کی حافظہ تھیں اور کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ نیز آپ اکثر روزے سے رہا کرتی تھیں بلکہ یہاں تک کہ حافظ ابنِ حجر نے لکھا ہے کہ ’’ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا روزے کی حالت میں فوت ہوئیں۔ (الاصحابہ صفحہ ۲۶۵)
اور آپ ایسے احسن طریقے سے عبادت کیا کرتی تھیں کہ کثرت صوم و صلوٰۃ سے معروف ابن سعد نے ان کی عبادت کے متعلق لکھا ہے ’’وہ (یعنی حفصہ رضی اللہ عنہا) صائم النہار اور قائم اللیل ہیں۔دوسری روایت میں ہے ’’حضرت حفصہ انتقال کے وقت تک صائمہ رہیں‘‘ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نہایت عبادت گزار تھیں‘ وہ گوشہ نشین اور پرہیز گار خاتون تھیں اور آپ کا یہ حال تھا کہ اشد ضرورت کے بغیر کبھی گھر سے باہر قدم نہیں نکالا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا زیادہ وقت عبادت میں گزرتا اگرچہ اس زمانے میں جب آپ حضور نبی اکرم ﷺ کے نکاح میں داخل ہوئیں۔ بالکل جوان تھیں مگر آپ رضی اللہ عنہا میں بزرگوں جیسی سنجیدگی اور علماء جیسا وقار تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا زیادہ وقت تلاوت قرآن پاک میں صرف ہوتا۔ آپ اس کی باریکیوں کو سمجھتیں‘ ان پر غور فرماتیں اور جو نقطہ سمجھ میں نہ آتا اس پر حضور ﷺ سے وضاحت طلب کرتیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سخاوت کی دولت سے بھی مالا مال تھیں جو مال آتا اسے اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کرکے خوشی محسوس کرتیں یہاں تک کہ اپنی جائیداد بھی وفات کے وقت اللہ عزوجل کی راہ میں صدقہ کردی۔ اگر میری بہنیں روزوں کو زبردستی اور اکتاہٹ کیساتھ قبول نہ کریںبلکہ خوش دلی کیساتھ روزے سے پیارکریں تو اللہ قیامت کے دن ہمیں بھی اماں حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ کھڑا فرمادے گا۔
حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مصائب پر صبر
جب ان کے شوہر سختیاں جھیلتے ہوئے جاں بحق ہوگئے تو ابوجہل کے چچا ابوحذیفہ بن مغیرہ نے حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ظالم ابوجہل کے حوالے کردیا اور یہ انہیں مختلف طریقوں سے ایذائیں دینے لگا اور نبی کریم ﷺ کو اپنی باتوں اور گالیوں سے ایذاء پہنچاتا۔ ایک رات اس سے حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بڑی واہیات باتیں کیں اور کہا کہ تو محمدﷺ پر اس لیے ایمان لائی ہے کہ ان سے عشق ہوگیا ہے تو جواب میں سمیہ رضی اللہ عنہا نے اسے بڑی سخت بات کہی جس پر وہ آگ بگولا ہوگیا اور اپنا غصہ اس نے ایسے اتارا کہ حضرت سمیہ کو نیزہ مار کر شہید کردیا اور ان کی روح بارگاہ الٰہی میں راضی خوشی‘ توحید و رسالت کی گواہی دیتی حاضر ہوگئی۔ رمضان المبارک میں تیسراکام یہ کریں کہ آپ پر کوئی بھی تکلیف‘ پریشانی آئی ہے تو صحابیات رضوان اللہ علیہن کی تکالیف کو سامنے رکھیں‘ آپ کی پریشانی روئی کا گالا بن کرہوا میں اُڑ جائیگی۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقام شکر
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر کا فقر انہیں ان کی مدد اور خوشنودی کے لیے کام کرنے سے اور ان کیلئے فرمانبرداری کے اسباب مہیا کرنے سے مانع نہ تھا وہ اپنی خوشی سے سارے کام کرتیں‘ دل ایمان پر مطمئن تھا اور جو اللہ تعالیٰ نے مقدر کررکھا تھا اس پر قناعت کرتی تھیں اور اس تمام مرحلے میں ان کا توشہ صبر ہوتا تھا۔ اس صبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ حالت بدل گئی اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو وسعت اور خوشی میسر ہوگئی۔ان کے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں گھر داخل ہوا تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نماز پڑھ رہی تھیں تو میں نے سنا کہ وہ یہ آیت تلاوت کررہی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا اور ہمیں جھلسنے والے عذاب سے بچایا‘ تو یہ آگ سے پناہ مانگنے لگی۔ میں کھڑا ہوگیا اور وہ مسلسل جہنم سے پناہ کی دعا کرتی رہی جب بہت دیر ہوگئی تو میں بازار چلاگیا اور اس کے بعد وہاں سے لوٹا تب بھی روتے ہوئے جہنم سے پناہ کی دعا کررہی تھی۔نفس کا محاسبہ: حضرت اسماء پاکیزہ نفس ستھرے باطن اور اللہ تعالیٰ سے دل لگائے ہوئے تھیں وہ ہر معاملے میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتی تھیں اس کے باوجود اپنے اندر تقصیر محسوس فرماتیں حضرت ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے سر مبارک میں درد ہوجاتا تو وہ سر پر ہاتھ رکھ کر فرماتیں کہ میرے کسی گناہ کی وجہ سے ہے۔ رمضان المبارک میں اللہ پاک کی ایک ایک نعمت کو گن گن کر اس پر شکر ادا کرنا آپ پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کو بہت زیادہ بڑھا دے گا۔
Comment