Courtesy: BBCURDU.COM
پاکستان میں غیر معیاری آرائشی لینسز کے استعمال اور بداحتیاطی کی وجہ سے خواتین کی بینائی متاثر ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں آنکھوں کے بڑے ہسپتال الشفاء ٹرسٹ آئی ہسپتال نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں ایسے لینسز کے استعمال کا رجحان بڑھا ہے جس کی وجہ سے بعض کیسز میں لڑکیاں بینائی سے محروم ہوئی ہیں۔ تاہم اس بارے میں اعداد و شمار نہیں دیئے گئے۔
الشفاء آئی ٹرسٹ میں کرنیا کے شعبے میں ڈاکٹر عائشہ خالد بھی لینز کے معیار اور استعمال میں لاپرواہی کو بینائی متاثر کرنے کی وجہ بتاتی ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں ایک دن میں کبھی دو سے تین تو کبھی ہفتے میں چار ایسے کیسز سامنے آتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کیسز زیادہ تر راولپنڈی کے مصافاتی علاقوں سے زیادہ آتے ہیں۔
اکثر خواتین تعلیم کی کمی کی وجہ سے لینسز کے معیار اور ان کی صفائی کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں جبکہ تعلیم یافتہ خواتین بھی لینز کے استعمال میں احتیاط سے کام نہیں لیتیں۔‘
الشفا ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بریگیڈیئر رضوان اصغر نے کہا ’کنٹیکٹ یا آرائشی لینسز کا معیار اور ان کے استعمال میں بداحتیاطی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے خواتین کی آنکھیں متاتر ہو رہی ہیں۔‘
بریگیڈیئر رضوان اصغر نے بتایا کہ سستے لینسز کے استعمال میں لاپرواہی کے باعث چند ماہ قبل ایک نئی نویلی دلہن ایک آنکھ سے محروم ہوگئیں۔
تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا ’مریضہ نے شادی والے دن ایک نچلے سطح کے بیوٹی پالر سے نیلے رنگ کے کنٹیکٹ لینسز لگوائے مگر انہیں احتتیاطی تدابیر سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس وجہ سے شادی کے ایک دن بعد ہی وہ آنکھ کی انفیکشن لے کر ہسپتال پہنچیں۔ اور ایک ہی ہفتے بعد ڈاکٹروں کو ان کی ایک آنکھ نکالنی پڑی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’تھوڑی دیر کی خوشی کے لیے اکثر خواتین ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہو جاتی ہیں۔‘
پاکستان میں قوت خرید کےلحاظ سے کاسمیٹک یا آرائشی لینز کی قیمتیں مختلف ہیں۔ راولپنڈی میں لینز کا ایک جوڑا تین سو روپے سے لے کر تین ہزار تک دستیاب ہے۔ اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں ان کی قیمت چھ سو روپے سے لے کر تین ہزار تک ہے۔
دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ادویات اور کاسمیٹک کے سٹور شاہین کیمسٹ کے اہلکار محمد ظفر نے بتایا کہ ایک دن میں کم سے کم دس ہزار روپے کے کنٹیکٹ لینز فروخت ہوتے ہیں۔
’یہ لینز امریکہ، برطانیہ، چین اور جنوبی کوریا میں بنتے ہیں۔ تاہم پاکستان آتے آتے اکثر ان کی پیکنگ خراب ہو جاتی ہیں جس کا اثر لینز کے معیار پر پڑتا ہے۔‘
صارفین کے حقوق کی تنظیموں کے مطابق امراض چشم میں اضافہ کی ایک وجہ حکومت کی جانب سے کنٹیکٹ لینز کے معیار کے تعین کے نظام یا قانون کی عدم موجودگی ہے۔
صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی سربراہ ہما بخاری کا کہنا ہے کہ لینز سے متعلق کوئی قانون واضح نہیں یا ادارہ جو کہ غیر معیاری خریدوفروخت پر نطر رکھے
پاکستان میں آنکھوں کے بڑے ہسپتال الشفاء ٹرسٹ آئی ہسپتال نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں ایسے لینسز کے استعمال کا رجحان بڑھا ہے جس کی وجہ سے بعض کیسز میں لڑکیاں بینائی سے محروم ہوئی ہیں۔ تاہم اس بارے میں اعداد و شمار نہیں دیئے گئے۔
الشفاء آئی ٹرسٹ میں کرنیا کے شعبے میں ڈاکٹر عائشہ خالد بھی لینز کے معیار اور استعمال میں لاپرواہی کو بینائی متاثر کرنے کی وجہ بتاتی ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں ایک دن میں کبھی دو سے تین تو کبھی ہفتے میں چار ایسے کیسز سامنے آتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کیسز زیادہ تر راولپنڈی کے مصافاتی علاقوں سے زیادہ آتے ہیں۔
اکثر خواتین تعلیم کی کمی کی وجہ سے لینسز کے معیار اور ان کی صفائی کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں جبکہ تعلیم یافتہ خواتین بھی لینز کے استعمال میں احتیاط سے کام نہیں لیتیں۔‘
الشفا ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بریگیڈیئر رضوان اصغر نے کہا ’کنٹیکٹ یا آرائشی لینسز کا معیار اور ان کے استعمال میں بداحتیاطی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے خواتین کی آنکھیں متاتر ہو رہی ہیں۔‘
بریگیڈیئر رضوان اصغر نے بتایا کہ سستے لینسز کے استعمال میں لاپرواہی کے باعث چند ماہ قبل ایک نئی نویلی دلہن ایک آنکھ سے محروم ہوگئیں۔
تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا ’مریضہ نے شادی والے دن ایک نچلے سطح کے بیوٹی پالر سے نیلے رنگ کے کنٹیکٹ لینسز لگوائے مگر انہیں احتتیاطی تدابیر سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس وجہ سے شادی کے ایک دن بعد ہی وہ آنکھ کی انفیکشن لے کر ہسپتال پہنچیں۔ اور ایک ہی ہفتے بعد ڈاکٹروں کو ان کی ایک آنکھ نکالنی پڑی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’تھوڑی دیر کی خوشی کے لیے اکثر خواتین ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہو جاتی ہیں۔‘
پاکستان میں قوت خرید کےلحاظ سے کاسمیٹک یا آرائشی لینز کی قیمتیں مختلف ہیں۔ راولپنڈی میں لینز کا ایک جوڑا تین سو روپے سے لے کر تین ہزار تک دستیاب ہے۔ اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں ان کی قیمت چھ سو روپے سے لے کر تین ہزار تک ہے۔
دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ادویات اور کاسمیٹک کے سٹور شاہین کیمسٹ کے اہلکار محمد ظفر نے بتایا کہ ایک دن میں کم سے کم دس ہزار روپے کے کنٹیکٹ لینز فروخت ہوتے ہیں۔
’یہ لینز امریکہ، برطانیہ، چین اور جنوبی کوریا میں بنتے ہیں۔ تاہم پاکستان آتے آتے اکثر ان کی پیکنگ خراب ہو جاتی ہیں جس کا اثر لینز کے معیار پر پڑتا ہے۔‘
صارفین کے حقوق کی تنظیموں کے مطابق امراض چشم میں اضافہ کی ایک وجہ حکومت کی جانب سے کنٹیکٹ لینز کے معیار کے تعین کے نظام یا قانون کی عدم موجودگی ہے۔
صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی سربراہ ہما بخاری کا کہنا ہے کہ لینز سے متعلق کوئی قانون واضح نہیں یا ادارہ جو کہ غیر معیاری خریدوفروخت پر نطر رکھے
Comment