کینسر، علامات، اسباب اور علاج
کینسر کیوں ہوتا ہے؟ اس کا حقیقی جواب تو شاید کسی کے پاس نہیں ہے لیکن ماہرینِ صحت اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ جینز(Genes) میں رونما ہونے والے تغیرات ہیں۔غذا میں پائے جانے والے چند عناصر مثلاً ذخیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے افلا ٹوکسن (Aflatoxins)، تاب کاری اثرات، الیکٹرو میگنٹک ویوز، وائرل انفیکشنز(HIB, HCV,EBV,H Pylori,HTLV)،فضائی ، آبی اور غذائی آلودگی ، فوڈ کیمیکلز مثلاً کھانے کے رنگ ، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذائیں (GM food)، سگریٹ نوشی، شیشہ کا نشہ ، زہریلا دھواں (Dioxins)اور زرعی ادویات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ بھی چند وجوہات ایسی ہیں جو خاص حالتوں میں کینسر کی وجہ بنتی ہیں مثلاً سیمنٹ انڈسٹری سے متعلق لوگوں کو (Asbestos)نامی کیمیکل سے کینسر ہو سکتا ہے۔خواتین میں سن یاس روکنے کے لیے ہارمون تھراپی (HRT)سے بھی کینسر کا خطرہ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ کینسر کی ایک وجہ سورج کی تاب کار شعاعیں ہیں جن سے وہ لوگ جو دھوپ میں زیادہ بیٹھتے ہوں خصوصاً سفید جلد والوں کو جلد کے کینسر کا خدشہ لاحق رہتا ہے ۔
کینسر کی مختلف اقسام ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں اس کی مختلف اقسام کے کیسز پائے جاتے ہیں مثال کے طور پر اگر ملک عزیز پاکستان کی بات کی جائے تو بریسٹ کینسر، منہ ہونٹ اور حلق کے سرطان کی تعداد خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ جب کہ کینسرآف سروکس(Cervix)کے کیسز کی تعداد دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں بہت کم ہے ۔ بلکہ یہ کینسر کی ایسی قسم ہے جو غیر مسلم ممالک کی نسبت مسلم ممالک میںبہت کم ہے۔ اس کی اہم وجہ ان ممالک میں ختنے کا رواج ہے(ختنہ کی وجہ سے ایڈز اور جنسی امراض کا خطرہ بھی بہت کم ہو جاتا ہے)۔
پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے کینسرز:
(1)چھاتی کا کینسر (2)منہ اور ہونٹ کے کینسر(3)جگر اور پتے کی نالیوں کا کینسر (4) بڑی آنت کا کینسر (5) پروسٹیٹ کینسر (6) برین کینسر (7) مثانہ (8)ہوچکنز(disease Hodgkins) کینسر(9)نان ہوچکنز کینسر (10)جلد کا کینسر(۱۱)اووری کا کینسر(۲۱)پھیپھڑوں کا کینسر(۳۱)کولون کینسر
کینسر کی اقسام
بریسٹ کینسر:
کینسر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ دوسری بیماریوں کی با نسبت اس میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں نہ صرف زیادہ مبتلا ہوتی ہیں بلکہ مردوں کی بانسبت کم عمری میں ہی اس کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔اس کا اندازہ پاکستان میں موجود ٹاپ ٹین کینسرز کی ٹیبل کا ملاحظہ کر کے بھی بخوبی ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے کینسرز میں پہلے نمبر پر چھاتی کا کینسر ہے۔ اور خاص ہمارے ملک میں تو یہ کینسر اور بھی زیادہ ہلاکت خیزی کا مؤجب ہے کہ یہاں دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت خواتین بریسٹ اور اووری کینسرز میں نسبتاً دس سال پہلے ہی مبتلا ہو جاتی ہیں۔یعنی عام طور پر خواتین اس مرض میں پچپن سال کی عمر میں مبتلا ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں عام طور پر خواتین دس سال پہلے یعنی پینتالیس سال کی عمر میں ہی بریسٹ اور اووری کینسر کا شکار ہو جاتی ہیں۔
بریسٹ کینسر کے پاکستان میں آبادی کے تناسب سے دنیا میں سب سے زیادہ کیسز پائے جاتے ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق تقریباً 50,000سالانہ اموات اس کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان خواتین میں نسبتاً اس کا تناسب کم پایا جاتا ہے جو بچوں کو دو سال کی عمر تک اپنا دودھ پلاتی ہیں۔چھاتی کے کینسر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جس خاندان میں اس کے دو تین کیسز ہو اس خاندان کی دوسری خواتین میں اس کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔بہرحال اگر اس کی تشخیص ابتدا میں ہی ہو جائے تو یہ مکمل طور پر قابل علاج ہوتا ہے۔ اس کے لیے خواتین کا خودتشخیصی عمل بہت ضروری ہے۔یعنی خواتین ہر ماہ خود اپنی چھاتیوں کاہاتھوںسے ٹٹول کر معائنہ کریں کہ کوئی گلٹی تو نمودار نہیں ہو رہی۔ اگر کوئی گلٹی محسوس ہو تو فوراً اپنی لیڈی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ضروری نہیں کہ ہر گلٹی سرطان کا پیش خیمہ ہو .... بے ضرر گلٹیاں اور غدود بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس کی تشخیص ماہر ڈاکٹر سے کروانابہرحال بہت ضروری ہے۔
پھیپھڑوں کا کینسر:
سگریٹ نوشی کرنے والوں میں پھیپھڑوں کے کینسر کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی سے نہ صرف سگریٹ نوش کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کے آس پاس کے لوگ (Passive smoking)بھی بالواسطہ طور پر اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسموکنگ کے علاوہ سیمنٹ کے ذرات سے اور کان کنی کے کام سے متعلق افراد کو بھی کئی سالوں کے بعد پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
جگر کا کینسر:
ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہ لوگوں میں یہ کینسر زیادہ پایا جاتا ہے۔ چوں کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ ہیپاٹائٹس بی یا سی کا شکار ہیں اس لیے یہ کینسر بھی ہمارے ملک میں بہت عام ہے۔ اس سے بچاؤ کے لیے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے نہایت مؤثر ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی یا سی سے متاثرہ لوگ اگر ابتدائی اسٹیج پر اپنا علاج کروا لیں تو اس کینسر سے بچا جا سکتا ہے۔
کولون کینسر:
اس کا تناسب بھی ہمارے ملک میں بڑھتا جا رہا ہے ۔ اس کی علامت کے طور پر مقعد سے بلیڈنگ ، وزن میں کمی، تھکان وغیرہ ہیں۔ متناسب غذاجس میں خوب ریشہ ہواور قبض سے بچنا جیسی عادات اس کینسر سے بچنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
بچوں میں کینسر:
جس طرح ہر سال ۴ فروری کو’ ورلڈ کینسر ڈے ‘منایا جاتا ہے اسی طرح ہر سال ۵۱ فروری کو ’چائلڈ ہوڈ کینسر ڈے‘ منایا جاتا ہے۔بڑوں کی بانسبت بچوں میں پچیس فی صد کینسرز خون کے کینسر(Leukemia) ہوتے ہیں اور تقریباً تیس فی صد برین کینسر ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ پائے جانے والے کینسرز میں گردوں ، آنکھوں اور ہڈیوں کے کینسرز ہوتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ تشخیص اور علاج کی فوری اور بہترین سہولت کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں کینسر سے متاثر بچوں کے زندہ رہنے کی شرح 75%ہے جب کہ پس ماندہ ممالک میں 80%فی صد کینسر کے شکار بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کینسر کی علامات:
کینسر کی علامات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کینسر کس عضو میں ہے۔ عام طور پر کینسر کی علامات میں جسم میں کسی بھی قسم کے خلیات کا تیزی سے بڑھنا ہے جو کہ رسولی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ا س کے علاوہ کینسر کی علامات میں بغیر کسی ظاہری وجہ کے وزن کا گھٹنا اور بخار کا رہنا، قے اور فضلے میں خون کا آنا،جسم کے کسی بھی حصے میں غدود کا بڑھناوغیرہ ہے۔
تشخیص:
تشخیص کا دارومدار بھی اس بات پر ہوتا ہے کہ کینسر کس عضو میں ہے۔ گر جسم کے بیرونی حصوں میں کینسر زدہ خلیات ہوں تو عموماً جلد تشخیص ہو جاتی ہے لیکن اگر اندرونی طور پر کینسر کی رسولی ہو تو دیر سے تشخیص ہوتی ہے۔عام طور پر خون کا ٹیسٹ (CBC)،پروسٹیٹ کینسر کے لیے (PSA)، جگر کے کینسر کے لیے الفا فیٹو پروٹین ، (CEA)،انڈو اسکوپی،ایکسرے، الٹراساؤنڈ، سی ٹی اورایم آر آئی وغیرہ کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ کینسر کی تشخیص کے لیے بایوپسی (Biopsy)ایک بنیادی اور انتہائی اہم ٹیسٹ ہے۔
علاج:
گزشتہ تین دہائیوں میں کینسر کے علاج میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔مثلاً بچوں میں پائے جانے والے خون کے سرطان(ALL)میں80-90% بچے علاج سے مکمل صحت یاب ہو جاتے ہیں۔اسی طرح بریسٹ کینسر کی اگر جلد تشخیص ہو جائے تو اسے بھی آپریشن کے ذریعے قابو میں لایا جا سکتا ہے۔جدید طریقوں سے کینسرز کے خلیات کو تشخیص کر کے ان کے لیے مؤثر ادویات مثلاً ایسٹروجن پازیٹو (ER) اور پروجیسٹون پازیٹو (PR)،اور ہرٹو (HER-2)کے لیے مختلف ادویات استعمال کر کے ان کے بڑھنے کی رفتار کو روکا جا سکتا ہے ۔پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص اور علاج میں بھی پہلے کی نسبت بہت ترقی ہوئی ہے۔ مؤثر ادویات کے علاوہ ریڈی ایشن (Radiation )کے ذریعے علاج میں بھی نسبتاً کافی جدت اور پیش رفت ہوئی ہے۔
کینسر کے علاج میں ایک جدید طریقہ علاج ’Personalized cancer vaccine‘ کہلاتا ہے۔اس طریقہ علاج میں کینسرزدہ حصے سے مواد لے کر ایک مخصوص طریقے سے مریض کے جسم میں ڈالا جاتا ہے جس سے مریض کی قوتِ مدافعت کینسر کے خلاف قوت پکڑ لیتی ہے۔ اس طریقہ علاج میں ماہرین کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن ابھی اس میں بہت تحقیق کی ضرورت ہے اور فی الحال ماہرین اس طریقہ علاج کو پروسٹیٹ کینسر کے خلاف ہی استعمال کر رہے ہیں۔
کینسر سے بچاؤ کے طریقے:
کینسر سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اصول فطری ،متوازن اور سادہ زندگی گزارنا ہے اور غیر فطری طرزِ زندگی سے بچنا ہے ۔طرزِ زندگی میں سادگی ، مرغن غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بچنا ،ورزش،ہر طرح کا نشہ خصوصاً پان ، چھالیہ ، تمباکو اور گٹکے وغیرہ سے بچنااورخصوصاًجگر کے کینسر سے بچاؤ کے لیے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے وغیرہ ہیں۔ خواتین کا خود تشخیصی عمل بھی بریسٹ کینسر کے مکمل علاج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں کینسر کے کیسز کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔اب تک تو ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں کینسر کے کیسز کی تعداد برابر ہے لیکن آئندہ دس سالوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ان کیسز کی تعداد 75% تک بڑھ جائے گی۔WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق 2005-2015کے عشرے میں آٹھ کروڑ چالیس لاکھ افراد کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ اگر مناسب تدابیر برائے تشخیص اور علاج مہیا کر دی جائیں تو اس میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔
کینسر کیوں ہوتا ہے؟ اس کا حقیقی جواب تو شاید کسی کے پاس نہیں ہے لیکن ماہرینِ صحت اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ جینز(Genes) میں رونما ہونے والے تغیرات ہیں۔غذا میں پائے جانے والے چند عناصر مثلاً ذخیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے افلا ٹوکسن (Aflatoxins)، تاب کاری اثرات، الیکٹرو میگنٹک ویوز، وائرل انفیکشنز(HIB, HCV,EBV,H Pylori,HTLV)،فضائی ، آبی اور غذائی آلودگی ، فوڈ کیمیکلز مثلاً کھانے کے رنگ ، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذائیں (GM food)، سگریٹ نوشی، شیشہ کا نشہ ، زہریلا دھواں (Dioxins)اور زرعی ادویات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ بھی چند وجوہات ایسی ہیں جو خاص حالتوں میں کینسر کی وجہ بنتی ہیں مثلاً سیمنٹ انڈسٹری سے متعلق لوگوں کو (Asbestos)نامی کیمیکل سے کینسر ہو سکتا ہے۔خواتین میں سن یاس روکنے کے لیے ہارمون تھراپی (HRT)سے بھی کینسر کا خطرہ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ کینسر کی ایک وجہ سورج کی تاب کار شعاعیں ہیں جن سے وہ لوگ جو دھوپ میں زیادہ بیٹھتے ہوں خصوصاً سفید جلد والوں کو جلد کے کینسر کا خدشہ لاحق رہتا ہے ۔
کینسر کی مختلف اقسام ہیں اور دنیا کے مختلف حصوں میں اس کی مختلف اقسام کے کیسز پائے جاتے ہیں مثال کے طور پر اگر ملک عزیز پاکستان کی بات کی جائے تو بریسٹ کینسر، منہ ہونٹ اور حلق کے سرطان کی تعداد خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ جب کہ کینسرآف سروکس(Cervix)کے کیسز کی تعداد دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں بہت کم ہے ۔ بلکہ یہ کینسر کی ایسی قسم ہے جو غیر مسلم ممالک کی نسبت مسلم ممالک میںبہت کم ہے۔ اس کی اہم وجہ ان ممالک میں ختنے کا رواج ہے(ختنہ کی وجہ سے ایڈز اور جنسی امراض کا خطرہ بھی بہت کم ہو جاتا ہے)۔
پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے کینسرز:
(1)چھاتی کا کینسر (2)منہ اور ہونٹ کے کینسر(3)جگر اور پتے کی نالیوں کا کینسر (4) بڑی آنت کا کینسر (5) پروسٹیٹ کینسر (6) برین کینسر (7) مثانہ (8)ہوچکنز(disease Hodgkins) کینسر(9)نان ہوچکنز کینسر (10)جلد کا کینسر(۱۱)اووری کا کینسر(۲۱)پھیپھڑوں کا کینسر(۳۱)کولون کینسر
کینسر کی اقسام
بریسٹ کینسر:
کینسر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ دوسری بیماریوں کی با نسبت اس میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں نہ صرف زیادہ مبتلا ہوتی ہیں بلکہ مردوں کی بانسبت کم عمری میں ہی اس کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔اس کا اندازہ پاکستان میں موجود ٹاپ ٹین کینسرز کی ٹیبل کا ملاحظہ کر کے بھی بخوبی ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے کینسرز میں پہلے نمبر پر چھاتی کا کینسر ہے۔ اور خاص ہمارے ملک میں تو یہ کینسر اور بھی زیادہ ہلاکت خیزی کا مؤجب ہے کہ یہاں دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت خواتین بریسٹ اور اووری کینسرز میں نسبتاً دس سال پہلے ہی مبتلا ہو جاتی ہیں۔یعنی عام طور پر خواتین اس مرض میں پچپن سال کی عمر میں مبتلا ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں عام طور پر خواتین دس سال پہلے یعنی پینتالیس سال کی عمر میں ہی بریسٹ اور اووری کینسر کا شکار ہو جاتی ہیں۔
بریسٹ کینسر کے پاکستان میں آبادی کے تناسب سے دنیا میں سب سے زیادہ کیسز پائے جاتے ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق تقریباً 50,000سالانہ اموات اس کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان خواتین میں نسبتاً اس کا تناسب کم پایا جاتا ہے جو بچوں کو دو سال کی عمر تک اپنا دودھ پلاتی ہیں۔چھاتی کے کینسر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جس خاندان میں اس کے دو تین کیسز ہو اس خاندان کی دوسری خواتین میں اس کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔بہرحال اگر اس کی تشخیص ابتدا میں ہی ہو جائے تو یہ مکمل طور پر قابل علاج ہوتا ہے۔ اس کے لیے خواتین کا خودتشخیصی عمل بہت ضروری ہے۔یعنی خواتین ہر ماہ خود اپنی چھاتیوں کاہاتھوںسے ٹٹول کر معائنہ کریں کہ کوئی گلٹی تو نمودار نہیں ہو رہی۔ اگر کوئی گلٹی محسوس ہو تو فوراً اپنی لیڈی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ضروری نہیں کہ ہر گلٹی سرطان کا پیش خیمہ ہو .... بے ضرر گلٹیاں اور غدود بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس کی تشخیص ماہر ڈاکٹر سے کروانابہرحال بہت ضروری ہے۔
پھیپھڑوں کا کینسر:
سگریٹ نوشی کرنے والوں میں پھیپھڑوں کے کینسر کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی سے نہ صرف سگریٹ نوش کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کے آس پاس کے لوگ (Passive smoking)بھی بالواسطہ طور پر اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسموکنگ کے علاوہ سیمنٹ کے ذرات سے اور کان کنی کے کام سے متعلق افراد کو بھی کئی سالوں کے بعد پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
جگر کا کینسر:
ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہ لوگوں میں یہ کینسر زیادہ پایا جاتا ہے۔ چوں کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ ہیپاٹائٹس بی یا سی کا شکار ہیں اس لیے یہ کینسر بھی ہمارے ملک میں بہت عام ہے۔ اس سے بچاؤ کے لیے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے نہایت مؤثر ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی یا سی سے متاثرہ لوگ اگر ابتدائی اسٹیج پر اپنا علاج کروا لیں تو اس کینسر سے بچا جا سکتا ہے۔
کولون کینسر:
اس کا تناسب بھی ہمارے ملک میں بڑھتا جا رہا ہے ۔ اس کی علامت کے طور پر مقعد سے بلیڈنگ ، وزن میں کمی، تھکان وغیرہ ہیں۔ متناسب غذاجس میں خوب ریشہ ہواور قبض سے بچنا جیسی عادات اس کینسر سے بچنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
بچوں میں کینسر:
جس طرح ہر سال ۴ فروری کو’ ورلڈ کینسر ڈے ‘منایا جاتا ہے اسی طرح ہر سال ۵۱ فروری کو ’چائلڈ ہوڈ کینسر ڈے‘ منایا جاتا ہے۔بڑوں کی بانسبت بچوں میں پچیس فی صد کینسرز خون کے کینسر(Leukemia) ہوتے ہیں اور تقریباً تیس فی صد برین کینسر ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ پائے جانے والے کینسرز میں گردوں ، آنکھوں اور ہڈیوں کے کینسرز ہوتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ تشخیص اور علاج کی فوری اور بہترین سہولت کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں کینسر سے متاثر بچوں کے زندہ رہنے کی شرح 75%ہے جب کہ پس ماندہ ممالک میں 80%فی صد کینسر کے شکار بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کینسر کی علامات:
کینسر کی علامات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کینسر کس عضو میں ہے۔ عام طور پر کینسر کی علامات میں جسم میں کسی بھی قسم کے خلیات کا تیزی سے بڑھنا ہے جو کہ رسولی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ا س کے علاوہ کینسر کی علامات میں بغیر کسی ظاہری وجہ کے وزن کا گھٹنا اور بخار کا رہنا، قے اور فضلے میں خون کا آنا،جسم کے کسی بھی حصے میں غدود کا بڑھناوغیرہ ہے۔
تشخیص:
تشخیص کا دارومدار بھی اس بات پر ہوتا ہے کہ کینسر کس عضو میں ہے۔ گر جسم کے بیرونی حصوں میں کینسر زدہ خلیات ہوں تو عموماً جلد تشخیص ہو جاتی ہے لیکن اگر اندرونی طور پر کینسر کی رسولی ہو تو دیر سے تشخیص ہوتی ہے۔عام طور پر خون کا ٹیسٹ (CBC)،پروسٹیٹ کینسر کے لیے (PSA)، جگر کے کینسر کے لیے الفا فیٹو پروٹین ، (CEA)،انڈو اسکوپی،ایکسرے، الٹراساؤنڈ، سی ٹی اورایم آر آئی وغیرہ کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ کینسر کی تشخیص کے لیے بایوپسی (Biopsy)ایک بنیادی اور انتہائی اہم ٹیسٹ ہے۔
علاج:
گزشتہ تین دہائیوں میں کینسر کے علاج میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔مثلاً بچوں میں پائے جانے والے خون کے سرطان(ALL)میں80-90% بچے علاج سے مکمل صحت یاب ہو جاتے ہیں۔اسی طرح بریسٹ کینسر کی اگر جلد تشخیص ہو جائے تو اسے بھی آپریشن کے ذریعے قابو میں لایا جا سکتا ہے۔جدید طریقوں سے کینسرز کے خلیات کو تشخیص کر کے ان کے لیے مؤثر ادویات مثلاً ایسٹروجن پازیٹو (ER) اور پروجیسٹون پازیٹو (PR)،اور ہرٹو (HER-2)کے لیے مختلف ادویات استعمال کر کے ان کے بڑھنے کی رفتار کو روکا جا سکتا ہے ۔پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص اور علاج میں بھی پہلے کی نسبت بہت ترقی ہوئی ہے۔ مؤثر ادویات کے علاوہ ریڈی ایشن (Radiation )کے ذریعے علاج میں بھی نسبتاً کافی جدت اور پیش رفت ہوئی ہے۔
کینسر کے علاج میں ایک جدید طریقہ علاج ’Personalized cancer vaccine‘ کہلاتا ہے۔اس طریقہ علاج میں کینسرزدہ حصے سے مواد لے کر ایک مخصوص طریقے سے مریض کے جسم میں ڈالا جاتا ہے جس سے مریض کی قوتِ مدافعت کینسر کے خلاف قوت پکڑ لیتی ہے۔ اس طریقہ علاج میں ماہرین کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن ابھی اس میں بہت تحقیق کی ضرورت ہے اور فی الحال ماہرین اس طریقہ علاج کو پروسٹیٹ کینسر کے خلاف ہی استعمال کر رہے ہیں۔
کینسر سے بچاؤ کے طریقے:
کینسر سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اصول فطری ،متوازن اور سادہ زندگی گزارنا ہے اور غیر فطری طرزِ زندگی سے بچنا ہے ۔طرزِ زندگی میں سادگی ، مرغن غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بچنا ،ورزش،ہر طرح کا نشہ خصوصاً پان ، چھالیہ ، تمباکو اور گٹکے وغیرہ سے بچنااورخصوصاًجگر کے کینسر سے بچاؤ کے لیے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے وغیرہ ہیں۔ خواتین کا خود تشخیصی عمل بھی بریسٹ کینسر کے مکمل علاج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں کینسر کے کیسز کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔اب تک تو ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں کینسر کے کیسز کی تعداد برابر ہے لیکن آئندہ دس سالوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ان کیسز کی تعداد 75% تک بڑھ جائے گی۔WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق 2005-2015کے عشرے میں آٹھ کروڑ چالیس لاکھ افراد کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ اگر مناسب تدابیر برائے تشخیص اور علاج مہیا کر دی جائیں تو اس میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔
Comment