Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا آپ غصے میں ھیں؟

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • کیا آپ غصے میں ھیں؟

    کیا آپ غصے میں ھیں؟

    مجھے بھی آتا ہے اور البرٹ پینٹو کو بھی آتا ہے۔ لیکن کب اور کیوں آتا ہے اور یہ کہ کن لوگوں کو کم اور کن کو زیادہ آتا ہے۔ مجھے غصہ کیوں آتا ہے اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اپنی زندگی تلخیوں سے عبارت ہے بلکہ ایسی بات پر بھی آتا ہے جنہیں لوگ نظرانداز کردیتے ہیں۔ بات بات پر غصہ آتا ہے اور چونکہ ایک عدد ملازم رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنا یہ غصہ ہمیشہ قہر درویش بر جان درویش ثابت ہوا اسی غصہ اور بے بسی کے باعث ایک سے زائد مرتبہ ذہنی دبائو میں بھی مبتلا ہوا اور اس طرح جسم اور ذہن کے ساتھ ساتھ پیسے کا بھی نقصان برداشت کرنا پڑا۔

    اس ذہنی کیفیت سے نکلنے کے لئے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے پاس بھی گیا کیونکہ اس طریقہ علاج کے بارے میں دو چار پمفلٹ پڑھنے کے بعد یہ یقین ہوگیا تھا کہ جہاں اس میں مختلف جسمانی اور ذہنی عوارض کا علاج موجود ہے وہاں بے بسی اور غصہ کا علاج بھی ہوگا پھر اپنا یہ نظریہ اور یقین بھی ہے کہ ایسی دوا ضرور ہوگی اگر ابھی ایجاد یا دریافت نہیں ہوئی ہے تو مستقبل میں ضرور ہوگی۔

    جہاں تک غصہ کا تعلق ہے تو یہ دیکھنا چاہئیے کہ کن لوگوں کو آتا ہے کس وقت آتا اور یہ کہ کس عمر میں زیادہ آتا ہے۔

    اگر ہم اپنے آس پاس نگائیں دوڑائیں اپنے گھر' محلے' دفتر اور بازار میں دوکانداروںاور دوستوں کو یاد کریں تو ہمارے سامنے حسب ذیل قسم کی تصویر آجاتی ہے ۔

    جوان بوڑھوں کی نسبت جلد غصہ ہوجاتے ہیں۔

    مرد عورتوں کے مقابلے میں جلد آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔

    مالک ملازموں پر غصہ کرتے ہیں۔

    غریب لوگ امیروں کی نسبت زیادہ جھگڑالو ہوتے ہیں۔

    دیہاتوں میں قتل زیادہ ہوتے ہیں، شہروں میں اکا دکا ہوتے ہیں۔

    قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کے تحت زندگی گزارنے والوں میں بات بات پر ہاتھا پائی ہوتی ہے لیکن صنعتی شہروں میں ایسا کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔

    پسماندہ علاقوںمیں تناسب پوش آبادی سے زیادہ ہے۔

    یورپی باشندوں میں مشرقی باشندوں سے زیادہ برداشت' رواداری اور ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ ہوتا ہے۔

    بندھے کتے یا اس کتے میں جسے انسانوں سے دور رکھا جاتا ہے، کھلے کتے سے زیادہ غصہ ہوتا ہے۔

    پڑھے لکھے میں ان پڑھ اور ناخواندہ انسانوں کی نسبت برداشت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ عام لوگوں کی مانند معمولی باتوں پر اشتعال میں نہیں آتا۔

    ا نسان اپنے ماحول اور حالات کا قیدی ہوتا ہے۔بعض لوگ برداشت ' رواداری کے فقدان اور بات بات پر غصہ ہونے کے مسئلے کا حل اخلاقیات میں تلاش کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انسان نے قدیم اخلاقی اقدار سے منہ موڑ لیا ہے اور یہ اس کی سزا ہے۔لیکن اگر تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو غصہ کا آنا ' کم یا زیادہ آنے کے بارے میں یہ معلوم ہوگا کہ اس کا تعلق مخصوص حالات سے ہوتا ہے جوان بوڑھوں کی نسبت جلدی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اس طرح اس کا تعلق عمر سے بھی ہوتا ہے نوجوانوں کے جلد اشتعال میں آنے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا خون گرم ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز اور کام میں تیز ہوتے ہیں اسی لئے ان کو غصہ بھی جلد آجاتا ہے جبکہ سفید ریشوں کا جسم اور ذہن وقت گزرنے کے ساتھ کمزور پڑجاتا ہے جیل کی سلاخوں کے پیچھے زیادہ تر جوان اور نوجوان ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ نوجوانوں میں ایڈونچر ازم اور خطرہ مول لینے کا جذبہ اور تجربات کی کمی بھی ہوتی ہے وہ گاڑی تیز سے تیز تر چلانے کی سعی کرتے ہیں چاہے اس کوشش میں ان کا ایکسیڈنٹ ہی کیوں نہ ہوجائے اور ایک نہیں سو مرتبہ ہوجائے وہ اپنی عادت سے باز نہیں آئیں گے جبکہ عمررسیدہ نہایت احیتاط سے گاڑی چلاتے ہیں اگر ان کی گاڑی کسی کی گاڑی سے ٹکراجائے یا کسی اور کی ان سے آلگے تو ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ گالی گلوچ یا ہاتھا پائی تک نوبت نہ پہنچے چنانچہ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ نوجوانوں میں بوڑھوں سے زیادہ غصہ پایا جاتا ہے لیکن چونکہ ہم وقت سے پہلے نوجوانوں کو بوڑھا بنا سکتے نہیں لہذا آگے چلتے ہیں۔

    مردوں میں عورتوں سے زیادہ غصہ ہوتا ہے بھلا ایسا کیوں ہے کیا اس کا مطلب ہے کہ غصہ کا جنس سے بھی تعلق ہوتا ہے ایسا نہیں ہے اس کا تعلق مخصوص حالات اور حیثیت سے ہے مرد اور عورت کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے مرد صبح گھر سے نکلتا ہے اگر غریب یا متوسط گھرانہ کا فرد ہے تو بس میں بیٹھ کر دفتر جاتا ہے جس میں دھکے بھی کھانے پڑتے ہیں آفس میں چھوٹے خدائوں کی بک بک سننا پڑتی ہے اگر معاشی حالت دگرگوں اور اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے تو ایسی صورت میں اس میں رفتہ رفتہ غصہ اور جنھجلاہٹ پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے جبکہ عورت کو اپنے گھر میں ان حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے صبح اٹھتی ہے ناشتہ تیار کرتی ہے جھاڑو دیتی ہے لیکن اس کے غصہ نہ کرنے کی جہاں یہ وجوہات ہیں وہاں بڑا سبب یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر خاوند کی دست نگر ہوتی ہے چنانچہ اگر اس کا شوہر غصیلا اور جھگڑالو ہے تو وہ اپنا غصہ چھوٹے بچوں اور زیادہ تر لڑکیوں پر نکالتی ہے جس کنبہ میں عورت معاشی طور پر خود کفیل ہوتی ہے اور شوہر اس کا محتاج ہوتا ہے تو پھر عورت اس پرغصہ نکالتی ہے اور اس کی رتی بھر پروا نہیں کرتی ہے اور اگر دونوں کمائوہیں تو پھر اشتراکیت پر عمل ہوتا ہے۔

    کیا کبھی کسی ملازم کو مالک پر غصہ کرتے دیکھا ہے۔ میری آنکھوں نے ابھی تک ایسا نظارہ نہیں دیکھا ہے نوکر صرف اس وقت اپنا غبار نکالتا ہے جب اس کا مزید کام کرنے کا ارادہ نہ ہو یا انقلاب کے زمانے میں ہی یہ ممکن ہے ایسے وقت اس کی شکل نہایت بھیانک ہوتی ہے ملازمین صدیوں کا غصہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے انقلاب کو انقلاب دشمنوں نے خونی انقلاب کا نام دیا ہے حالانکہ یہ صدیوں کا بھرا غصہ ہوتا ہے۔ جبکہ مالکان ہر روز نوکروں پر غصہ کرتے رہتے ہیں او ر وہ اسے اپنی قسمت اور مجبوری سمجھ کر برداشت کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کو اجرت دیتے ہیں جو دراصل محنت کی ہوتی ہے جیسا کہ ایک مرد عورت کو کھانا ، لباس اور مکان دیتا ہے اور غصہ کرتا ہے اسی طرح مالک بھی کرتا ہے البتہ ملک میں ''غیر حقیقی'' جمہوریت ہو محنت کشوں کو یونین سازی کی اجازت ہو تو پھر مالک نوکر پر غصہ کرنے سے عموما گریز کرتا ہے۔اسی طرح بیوی تعلیم یافتہ اور کہیں پر ملازمت کرتی ہے یا اس کا تعلق دولت مند گھرانے سے ہے تو پھر وہ شوہر کی جھڑکیاں کم ہی برداشت کرتی ہے۔

    غریب لوگ کیوں ہر وقت جھگرتے رہتے ہیں مرد عورت تو بیوی اپنے بچوںپر چلاتی رہتی ہے اس کا سبب غربت ہے ان کی روزمرہ ضروریات پوری نہیں ہوتی ہیں ان کو ہر جگہ پر دھتکارا جاتا ہے نفرت اور حقارت ملتی ہے تو جب نکاسی کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی ہے تو پھر اپنے جیسے مفلسوں پر غصہ کرتے ہیں یا پھر بیوی اور بچوں پر نکالتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔

    جتنے قتل دیہاتوں میں ہوتے ہیں اتنے شہروں میں نہیں ہوتے ہیں اس کی مختلف وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ دیہات میں لوگوں کے پاس فالتو وقت ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کو مروجہ سماجی اقدار پر ماپتے رہتے ہیں اسی طرح معاشرے میں بے جا پابندیاں بھی عام لوگوں میں تنازعات اور تضادات کا باعث بنتے ہیں جیسا کہ پشتوں علاقوں میں زیادہ قتل ہوتے ہیں کیونکہ ان میں غیرت، پردے اور حیا کی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے۔چنانچہ جس معاشرے میں جتنی زیادہ پابندیاں ہوتی ہیں اس میں اتنے ہی تضادات اور جھگڑے ہوتے رہتے ہیں اور ایسے معاشرے میں ترقی کے رحجانات بھی کم ہوتے ہیں۔ ان سماجی اقدار پر عمل کرنے والے علاقوں کے لوگ پسماندہ اور خوار رہتے ہیں۔اسی طرح جس ملک میں عوام پر قدغن ہوتی ہیں وہ بھی ترقی نہیں کرتے۔ دیہات میں لوگوں کے ہر وقت دست و گریبان رہنے کا سبب یہ بھی ہے۔ کہ وہ معاشی سرگرمیوں سے زیادہ روایات کے قیدی ہوتے ہیں۔

    شہروں میں صنعتی ماحول غریبوں کو اتحاد اور اتفاق کا درس دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس نے ان کو سوشلزم کے سکول قرار دیا ہے اگرچہ حکومت اور سرمایہ داروں کی کوشش ہوتی ہے کہ محنت کشوں میں تضادات پیدا کرکے ان کے ایکا کو نقصان پہنچائے۔چنانچہ کبھی فرقہ واریت تو کبھی ہمسایہ ممالک پر الزامات یا ان سے جنگیں کی جاتی ہیں اور ہر وقت ان کی طرف سے خطرے کی گھنٹیان بجائی جاتی ہیں اوراگر ہمسایہ ملک کی اکثریت کا عقیدہ مختلف ہو تو پھر اس میں معاشرے کے وہ لوگ بھی پیش پیش ہوتے ہیں جو ملک کو ماضی کی طرف لوٹانے کے آرزومند رہتے ہیں۔ اس طرح عوام کے غصہ کا رخ بدلتے رہنے سے دولت مند طبقات محفوظ رہتے ہیں جبکہ عوام کا آپس میں سر پٹول کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

    غصہ کا تناسب یا شرح پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں میں یکساں نہیں ہوتا ہے روزمرہ مشاہدہ ہے کہ تعلیم یافتہ انسان لڑائی جھگڑوں سے گریز کرتا ہے وہ مسائل کو جذباتی انداز میں نہیں لیتا ہے اسے نہ تو جلد غصہ آتا ہے اور نہ وہ ہاتھوں سے باتیں کرتا ہے جبکہ ناخواندہ ذرا سی بات پر ہاتھ گریباں تک لے جاتے ہیں اور ہمارے ملک کے جرنیلوں کی مانند مسائل طاقت سے حل کرنے کے قائل ہوتے ہیں تعلیم و تربیت نہیں بلکہ قانون کے سخت ہونے پر زور دیتے ہیں۔

    کیا وجہ ہے کہ اپنے اخلاقی اقدار کے اعلیٰ ہونے کا ڈھنڈوراہم پیٹتے ہیں لیکن جب اپنے لوگوں کے اخلاق اور عادات کا موازنہ کرتے ہیں تو پھر مغرب اور یورپی ممالک کے عوام کی تعریف کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں جیسا کہ وہ ہم سے زیادہ وسیع النظر ہیں ان میں رواداری اور برداشت ہے کوئی بات منوانی ہو تو دلائل سے قائل کرتے ہیں اس کے برعکس ہم بات بات پر سیخ پا ہوجاتے ہیں اور قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔دوسرے عقیدہ اور مذہب کی بات ایک طرف خود اپنے مسلک کے لوگوں پر کفر کا فتویٰ لگاکر حملہ کردیتے ہیں اور یورپ پر یہ کمزوری ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے نظریہ میں جان نہیں بلکہ یہ ہم نے بزور قوت منوایا ہوا ہے۔ ہماری اقدار اعلیٰ ہیں لیکن صرف ان سے کام نہیں ہوتا ہے جب تک دیگر چیزوں کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے ان کا پرچار بے معنی ہی ثابت رہے گا ۔ اگر ہمیں اپنے آپ کو مہذب بنانا ہے۔

    تو پھر ملک کے تمام لوگوں کو بلاتفریق آئین اور قانون کا پابند ہونا ہوگا۔
    تعلیم اور تحقیق کو ترجیح دینا ہوگی۔
    اگر عوام قطار میں کھڑے ہیں تو وزیر کو بھی لائن میں انتظار کرنا پڑے گا۔
    پریس پرپابندی کے لئے عذر پیش نہیں کرنا ہوں گے۔
    اگر سرمایہ دار محنت کش کو آٹھ گھنٹے کا پابند کرتا ہے تو اسے بھی پابند بنایا جائے۔
    عدالتوں میں انصاف پر مبنی فیصلے ہونے چاہئیں۔

    چنانچہ جب تمام ماحول بدل جائے گا۔ ملک میں جمہوریت ہوگی۔لوگ تعلیم یافتہ ہوں گے۔آئین اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ تو نہ جھنجھلاہٹ اور نہ ہی غصہ آئے گا۔ آپ کو نہیں ، مجھے بھی اور البرٹ پینٹو کو بھی غصہ نہیں آئے گا۔
    Attached Files
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

  • #2
    Re: کیا آپ غصے میں ھیں؟

    مجھے افسوس ہےکہ اس تحریر کا مصنف غصے میں ہی فوت ہو گیا ہوگا
    اگر نہیں ہوا تو ہوجاتے گا
    کیونکہ اس مملکت "چل چلا"میں وہ مقام کوسوں دور ہےجس کی خواہش کی گئی ہے
    :star1:

    Comment

    Working...
    X