جستہ برجستہ
مین نے ٹریفک ھادثات کی وجوہات پر غور کیا تو اس کی کئی وجوہات دریافت ہوئیں جن میں بیشتر مثبت تھیں مثلا ایک وجہ ہمارے عوام کا اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنا ہے، مجھے یاد ہے کہ اک دفعہ احمد ندیم قاسمی ڈاکٹر سلیم اختر اور میں سرگودھا سے اک تقریب میں شمولیت کے بعد واپس ارہے تھے، میں اگلی نشست پہ بیٹھا تھا اچانک میں نے دیکھا کہ سامنے سے دو خونخوار قسم کی بسیں ایک دوسری سے ریس لگاتی ہوئی شانہ بشانہ چلی آ رہی تھیں اور ہمارا ڈرئیوار بھی سیدھا انہی کی سمت میں جا رہا تھا۔۔پہلے تو میں سمجھا کہ یہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد کچے پہ اتر جائے گا اور یوں ہماری جان بخشی ہو جائے گی لیکن جب زندگی او موت کے درمیان فاصلہ بہت کم رہ گیا تو میں نے اس جھنجھوڑتے ہوئے کہا یہ کیا کر رہے ہو ہوش سے کام لو۔۔اس پر ڈرئیور نے بادل نخواستہ کار کچے پر اتر لی اور ان بسوں کے اتنے قریب پہنچے پر اتاری کہ ڈرائیور کی طرف کا سائڈ مرر بس کی ٹکر سے چکنا چور ہو گیا۔۔موت کو اتنا قریب دیکھ کر ہم جو سارے راستے میں چکتےآئے تھے کافی دیر خاموش رہے اور ہمارے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔۔کچھ دیر بعد میں نے ڈرائیور سے پوچھا کیا تمہیں سامنے سے بسیں اتی دکھائی نہیں دی ھیں؟؟؟ اس پر اُس نے ناراضگی پہ قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، جناب میں اپنے ہاتھ پہ جا رہا تھا وہ لوگ غلط تھے اج مجھے آپ کی وجہ سے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔۔
:hii:
اپ بکواس کرتے ہیں
ڈاکر طاہر سیعد نے اک واقعہ سنایا کہ وہ ایک دفعہ اپنے دوستوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیاحت کے لیے گئے۔۔وہاں ان کے گائڈ ایک خان صاحب تھے۔جنہیں اردو اتنی ہی اتی تھی جتنی موجودہ حوکمت کے بیشتر عہدیداروں کو آتی ہے۔۔ڈاکٹر صاحب نے محض خان صاحب کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لی کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ خان صاحب اپ کی اردو تو بہت اچھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر خان صاحب بہت خوش ہوئے اور انکسار سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں جناب! آپ یونہی بکواس کرتے ہیں
ظاہر ہے خان صاحب کی نیت وہ نہیں تھی جو ان کے استعمال کردہ لفظ سے ظاہر ہوئی لہذا ان کی بات کا کسی نے برا نہیں مانا
:hii:
مین نے ٹریفک ھادثات کی وجوہات پر غور کیا تو اس کی کئی وجوہات دریافت ہوئیں جن میں بیشتر مثبت تھیں مثلا ایک وجہ ہمارے عوام کا اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنا ہے، مجھے یاد ہے کہ اک دفعہ احمد ندیم قاسمی ڈاکٹر سلیم اختر اور میں سرگودھا سے اک تقریب میں شمولیت کے بعد واپس ارہے تھے، میں اگلی نشست پہ بیٹھا تھا اچانک میں نے دیکھا کہ سامنے سے دو خونخوار قسم کی بسیں ایک دوسری سے ریس لگاتی ہوئی شانہ بشانہ چلی آ رہی تھیں اور ہمارا ڈرئیوار بھی سیدھا انہی کی سمت میں جا رہا تھا۔۔پہلے تو میں سمجھا کہ یہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد کچے پہ اتر جائے گا اور یوں ہماری جان بخشی ہو جائے گی لیکن جب زندگی او موت کے درمیان فاصلہ بہت کم رہ گیا تو میں نے اس جھنجھوڑتے ہوئے کہا یہ کیا کر رہے ہو ہوش سے کام لو۔۔اس پر ڈرئیور نے بادل نخواستہ کار کچے پر اتر لی اور ان بسوں کے اتنے قریب پہنچے پر اتاری کہ ڈرائیور کی طرف کا سائڈ مرر بس کی ٹکر سے چکنا چور ہو گیا۔۔موت کو اتنا قریب دیکھ کر ہم جو سارے راستے میں چکتےآئے تھے کافی دیر خاموش رہے اور ہمارے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔۔کچھ دیر بعد میں نے ڈرائیور سے پوچھا کیا تمہیں سامنے سے بسیں اتی دکھائی نہیں دی ھیں؟؟؟ اس پر اُس نے ناراضگی پہ قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، جناب میں اپنے ہاتھ پہ جا رہا تھا وہ لوگ غلط تھے اج مجھے آپ کی وجہ سے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔۔
:hii:
اپ بکواس کرتے ہیں
ڈاکر طاہر سیعد نے اک واقعہ سنایا کہ وہ ایک دفعہ اپنے دوستوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیاحت کے لیے گئے۔۔وہاں ان کے گائڈ ایک خان صاحب تھے۔جنہیں اردو اتنی ہی اتی تھی جتنی موجودہ حوکمت کے بیشتر عہدیداروں کو آتی ہے۔۔ڈاکٹر صاحب نے محض خان صاحب کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لی کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ خان صاحب اپ کی اردو تو بہت اچھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر خان صاحب بہت خوش ہوئے اور انکسار سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں جناب! آپ یونہی بکواس کرتے ہیں
ظاہر ہے خان صاحب کی نیت وہ نہیں تھی جو ان کے استعمال کردہ لفظ سے ظاہر ہوئی لہذا ان کی بات کا کسی نے برا نہیں مانا
:hii:
Comment