ضرورت رشتہ
عطاءالحق قاسمی
ضرورت تو ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ خصوصا ضرورت رشتہ کی اہمیت سے تو انکار ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہیکہ ہر شریف آدمی ضرورت نہ بھی ہو ضرورت رشتہ کا قائل ضرور ہوتا ہے بلکہ بہت سے شرفاء تو اخبار کی ہیڈ لائن بعد میں پڑھتے ہیں، ضرورت رشتہ کے اشتہار پہلے ڈھونڈتے ہیں۔
ایک بزرگوار کو ہم جانتے ہیں جو روزانہ اخبار سامنے پھیلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ موٹے شیشوں والی عینک ناک پر جماتے ہیں اور بڑی دلجمعی کے ساتھ ان اشتہارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہم نے ایک دن کہا، بزرگو! آپ یہ اشتہارات اتنی رغبت کے ساتھ کیوں پڑھتے ہیں؟ بولے، عزیزم! آپ نے بہت احمقانہ سوال پوچھا ہے۔ ہم نے عرض کیا وہ کیسے؟ کہنے لگے، آپ سیاست دان ہیں؟ ہم نے کہا نہیں۔ فرمایا، پھر سیاسی خبریں*کیوں پڑھتے ہیں؟ ہم لاجواب ہو گئے۔ پھر انہوں نے پوچھا، آپ کھلاڑی ہیں؟ ہم نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے سوال دہرایا کہ پھر کھیلوں کی خبریں کیوں پڑھتے ہیں۔
ان کی باتوں سے ہم نے اندازہ لگایا کہ اگرچہ وہ کھلاڑی نہیں لیکن انہیں کھیلوں سے دلچسپی ضرور ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہیں رشتے کی ضرورت نہیں یا امید نہیں لیکن ضرورت رشتہ کے اشتہار پڑھنا ان کی اکیڈمک ضرورت ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ایک دن وہ اس میں*سے اکیڈمک والی بات سے کہیں*انکا ہی نہ کر دیں۔
ضرورتَ رشتہ کے اشتہار صرف بعض بزرگوں ہی میں مقبول نہیں بلکہ ان اشتہاروں کا حلقہ مطالعہ بے روزگار نوجوانوں تک پھیلا ہوا ہے بلکہ ان دنوں تو بیشتر نوجوان اخباروں میں نوکریوں کے اشتہارات دیکھنے کی بجائے رشتوں کے اشتہارات دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں*نوکری وزیر اعلیٰ نے اور مرکز میں وزیر اعظم نے دینا ہوتی ہے جسکے حصول کے لئے پاکستان کا شہری ہونا کافی نہیں بلکہ حکمرانوں تک رسائی ضروری ہے۔ اس کی بجائے جو والدین یا میرج بیورو والے شادی کے اشتہارات اخبار میں چھپواتے ہیں ان کی رسائی ڈاک کے ایک لفافے یا رجسٹریشن فیس کی ادائیگی سے ممکن ہو جاتی ہے اور ہینگ پھٹکڑی لگے بغیر رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔
عطاءالحق قاسمی
ضرورت تو ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ خصوصا ضرورت رشتہ کی اہمیت سے تو انکار ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہیکہ ہر شریف آدمی ضرورت نہ بھی ہو ضرورت رشتہ کا قائل ضرور ہوتا ہے بلکہ بہت سے شرفاء تو اخبار کی ہیڈ لائن بعد میں پڑھتے ہیں، ضرورت رشتہ کے اشتہار پہلے ڈھونڈتے ہیں۔
ایک بزرگوار کو ہم جانتے ہیں جو روزانہ اخبار سامنے پھیلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ موٹے شیشوں والی عینک ناک پر جماتے ہیں اور بڑی دلجمعی کے ساتھ ان اشتہارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہم نے ایک دن کہا، بزرگو! آپ یہ اشتہارات اتنی رغبت کے ساتھ کیوں پڑھتے ہیں؟ بولے، عزیزم! آپ نے بہت احمقانہ سوال پوچھا ہے۔ ہم نے عرض کیا وہ کیسے؟ کہنے لگے، آپ سیاست دان ہیں؟ ہم نے کہا نہیں۔ فرمایا، پھر سیاسی خبریں*کیوں پڑھتے ہیں؟ ہم لاجواب ہو گئے۔ پھر انہوں نے پوچھا، آپ کھلاڑی ہیں؟ ہم نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے سوال دہرایا کہ پھر کھیلوں کی خبریں کیوں پڑھتے ہیں۔
ان کی باتوں سے ہم نے اندازہ لگایا کہ اگرچہ وہ کھلاڑی نہیں لیکن انہیں کھیلوں سے دلچسپی ضرور ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہیں رشتے کی ضرورت نہیں یا امید نہیں لیکن ضرورت رشتہ کے اشتہار پڑھنا ان کی اکیڈمک ضرورت ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ایک دن وہ اس میں*سے اکیڈمک والی بات سے کہیں*انکا ہی نہ کر دیں۔
ضرورتَ رشتہ کے اشتہار صرف بعض بزرگوں ہی میں مقبول نہیں بلکہ ان اشتہاروں کا حلقہ مطالعہ بے روزگار نوجوانوں تک پھیلا ہوا ہے بلکہ ان دنوں تو بیشتر نوجوان اخباروں میں نوکریوں کے اشتہارات دیکھنے کی بجائے رشتوں کے اشتہارات دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں*نوکری وزیر اعلیٰ نے اور مرکز میں وزیر اعظم نے دینا ہوتی ہے جسکے حصول کے لئے پاکستان کا شہری ہونا کافی نہیں بلکہ حکمرانوں تک رسائی ضروری ہے۔ اس کی بجائے جو والدین یا میرج بیورو والے شادی کے اشتہارات اخبار میں چھپواتے ہیں ان کی رسائی ڈاک کے ایک لفافے یا رجسٹریشن فیس کی ادائیگی سے ممکن ہو جاتی ہے اور ہینگ پھٹکڑی لگے بغیر رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔
Comment