حساب فہمی
ہماری قوم کے بڑوں نے راستی کو بھلا دیا اور جھگڑے کو اس کی حدوں سے بڑھایا۔۔
ہمارے خواب اور ہماری خواہشیں اقتدار کی رسموں سے روندی گئیں اور ہماری خوشیاں حُب جاہ کی چکی میں باریک پیسی گئیں۔
ہمار ے ایوانوں میں دانائی ترک ہوئی اور فراست پسپا۔
الزام کی دلدل نے ہمیں نگلا اور بہتان کی پچھل پائی نے اپنوں کے خلاف زہر اگلا۔
قوموں کے درمیان ہم پراگندہ ہوئے اور ہمسایوں کی ملامت نے ہمارا پیچھا کیا۔
چاروں طرف سے ہم پر دشنام کے تیر برستے ہیں اور ہم دل جوئی کی چند بولوں کو ترستے ہیں
ہم مصیبت کے ٹاٹ پر بیٹھے اور پشیمانی کی خاک ہم نے اپنے سروں پر ڈالی۔۔
اپنے بڑوں کی طرف ہم نے دیکھا اور چاہا کہ وہ اپنی پر نحوت انا کے زرہ بکتر اتاریں اور عجز و انکساری کا لبادہ پہنیں۔
ہم نے چاہا کہ وہ حاکمیت کی چوک میں کھڑے ہوں تو ان کے ہاتھوں میں انسان پرستی اور خرد دوستی کا ںصاب ہو اور آنکھوں میں عدل و انصاف کے خواب۔۔
وائے ہو ان پر جنہوں نے ہماری خوہشوں کو ببول کے کانٹوں پر بچھایا اور خوابوں کو خزاں کے سپرد کیا۔۔
وائے ہو ان پر جنہوں نے برد بادی کا ذخیرہ دریا برد کیا اور تحمل کے کھلیان کو آگ لگائی۔
ایسا کیوں ہوا لوگو! کہ تم پر وہ مسلط کیے گئے جو مسلط کئے گئے؟
یاد کرو لوگو! کہ تاریخ محکوموں کے اعمال کے مطابق ان کے حاکم منتخب کرتی ہے، سو محض اپنے سر دھروں کو برا مت کہو اپنے کیے ہوئے کو اپنے ایمان کی میزان پر تولو۔
اے لوگو!زمانہ ان ہی سے منہ پھیرتا ہے جو خود سے منہ پھیریں۔
تاریخ، قوموں اور گرہوں کو نہ ان کے حق سے کم دیتی ہے نہ زیادہ۔
جغرافیہ، ان سے ہی روٹھتا ہے جو اپنے دریائوں پہاڑوں سمندروں کھیتوں کھلیانوں، بستیوں بنوں، باغوں اور باغیچوں کی نگہداری نہیں کرتے۔
ہم نے جھوٹ کی بیساکھیوں سے دنیا میں اپنا قامت بڑھانے کی کوشش کی اور منہ کے بل گرے
ہم نے اپنے جغرافیے کا مال غنیمت جانا اور اس سے محض سمیٹنے کو اپنا ھق سمجھا۔
آج ہم اپنے حال پر زارو قطار روتے ہیں اور اپنی بدبختیوں کی ذمے داری کبھی تاریخ کبھی جغرافیے کبھی دوستوں اور کبھی دشمنوں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔
حقائق کا آئینہ ہمارے سامنے ہے لیکن ہم اس سے کبھی رو برو نہیں ہوتے، کبھی ہم اس کے سامنے ہوں تو اپنی صورت دیکھیں۔
ہم کبھی اپنی تاریخ میں قریب اور بعید کی غلطیوں پر نظر کریں، کبھی اپنے جغرافیے سے پوچھیں تو سہی کہ اس نے ہمارے ہاتھوں کتنے زخم کھائے ہیں ؟
ہم جنہیں دوسروں سے حساب فہمی کا عارضہ ہے کبھی اپنا حساب بھی دیں اپنے نامہ اعمال پر اک نظر تو ڈالیں۔۔
تب ہی ہم اس اہل ٹھریں گے کے اپنے نادان اور نا عاقبت اندیش بڑوں سے کہہ سکیں کہ انہوں نے راستی کو بھلا دیا اور جھگڑے کو اس کی حدوں سے بڑھا دیا۔
لیکن عزیزو! پھر اس کی نوبت ہی کیوں آئے گی؟
تم حیران و سرگرداں ہو میرے اس جملے پر۔۔۔۔!
شاید تمہں یاد نہیں رہا ابھی چند ساعتوں پہلے میں نے کہا تھا کہ تاریخ محکوموں کے اعمال کے مطابق ہی ان کے حاکم منتخب کرتی ہے!
کیا واقعی تب اب بھی نہیں سمجھے کہ میں تمہیں کیا سمجھا رہا ہوں؟؟
ہماری قوم کے بڑوں نے راستی کو بھلا دیا اور جھگڑے کو اس کی حدوں سے بڑھایا۔۔
ہمارے خواب اور ہماری خواہشیں اقتدار کی رسموں سے روندی گئیں اور ہماری خوشیاں حُب جاہ کی چکی میں باریک پیسی گئیں۔
ہمار ے ایوانوں میں دانائی ترک ہوئی اور فراست پسپا۔
الزام کی دلدل نے ہمیں نگلا اور بہتان کی پچھل پائی نے اپنوں کے خلاف زہر اگلا۔
قوموں کے درمیان ہم پراگندہ ہوئے اور ہمسایوں کی ملامت نے ہمارا پیچھا کیا۔
چاروں طرف سے ہم پر دشنام کے تیر برستے ہیں اور ہم دل جوئی کی چند بولوں کو ترستے ہیں
ہم مصیبت کے ٹاٹ پر بیٹھے اور پشیمانی کی خاک ہم نے اپنے سروں پر ڈالی۔۔
اپنے بڑوں کی طرف ہم نے دیکھا اور چاہا کہ وہ اپنی پر نحوت انا کے زرہ بکتر اتاریں اور عجز و انکساری کا لبادہ پہنیں۔
ہم نے چاہا کہ وہ حاکمیت کی چوک میں کھڑے ہوں تو ان کے ہاتھوں میں انسان پرستی اور خرد دوستی کا ںصاب ہو اور آنکھوں میں عدل و انصاف کے خواب۔۔
وائے ہو ان پر جنہوں نے ہماری خوہشوں کو ببول کے کانٹوں پر بچھایا اور خوابوں کو خزاں کے سپرد کیا۔۔
وائے ہو ان پر جنہوں نے برد بادی کا ذخیرہ دریا برد کیا اور تحمل کے کھلیان کو آگ لگائی۔
ایسا کیوں ہوا لوگو! کہ تم پر وہ مسلط کیے گئے جو مسلط کئے گئے؟
یاد کرو لوگو! کہ تاریخ محکوموں کے اعمال کے مطابق ان کے حاکم منتخب کرتی ہے، سو محض اپنے سر دھروں کو برا مت کہو اپنے کیے ہوئے کو اپنے ایمان کی میزان پر تولو۔
اے لوگو!زمانہ ان ہی سے منہ پھیرتا ہے جو خود سے منہ پھیریں۔
تاریخ، قوموں اور گرہوں کو نہ ان کے حق سے کم دیتی ہے نہ زیادہ۔
جغرافیہ، ان سے ہی روٹھتا ہے جو اپنے دریائوں پہاڑوں سمندروں کھیتوں کھلیانوں، بستیوں بنوں، باغوں اور باغیچوں کی نگہداری نہیں کرتے۔
ہم نے جھوٹ کی بیساکھیوں سے دنیا میں اپنا قامت بڑھانے کی کوشش کی اور منہ کے بل گرے
ہم نے اپنے جغرافیے کا مال غنیمت جانا اور اس سے محض سمیٹنے کو اپنا ھق سمجھا۔
آج ہم اپنے حال پر زارو قطار روتے ہیں اور اپنی بدبختیوں کی ذمے داری کبھی تاریخ کبھی جغرافیے کبھی دوستوں اور کبھی دشمنوں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔
حقائق کا آئینہ ہمارے سامنے ہے لیکن ہم اس سے کبھی رو برو نہیں ہوتے، کبھی ہم اس کے سامنے ہوں تو اپنی صورت دیکھیں۔
ہم کبھی اپنی تاریخ میں قریب اور بعید کی غلطیوں پر نظر کریں، کبھی اپنے جغرافیے سے پوچھیں تو سہی کہ اس نے ہمارے ہاتھوں کتنے زخم کھائے ہیں ؟
ہم جنہیں دوسروں سے حساب فہمی کا عارضہ ہے کبھی اپنا حساب بھی دیں اپنے نامہ اعمال پر اک نظر تو ڈالیں۔۔
تب ہی ہم اس اہل ٹھریں گے کے اپنے نادان اور نا عاقبت اندیش بڑوں سے کہہ سکیں کہ انہوں نے راستی کو بھلا دیا اور جھگڑے کو اس کی حدوں سے بڑھا دیا۔
لیکن عزیزو! پھر اس کی نوبت ہی کیوں آئے گی؟
تم حیران و سرگرداں ہو میرے اس جملے پر۔۔۔۔!
شاید تمہں یاد نہیں رہا ابھی چند ساعتوں پہلے میں نے کہا تھا کہ تاریخ محکوموں کے اعمال کے مطابق ہی ان کے حاکم منتخب کرتی ہے!
کیا واقعی تب اب بھی نہیں سمجھے کہ میں تمہیں کیا سمجھا رہا ہوں؟؟
:rose
Comment