السلام علیکم
کسی نام نہاد فلم کے بعد جو حالات وطنِ عزیز میں رونما ہوئے ہیں، وہ کسی بھی دردِ دِل رکھنے والے کے لیے انتہائی تشویش ناک اور تکلیف دِہ تھے۔مگر اس واقعہ کے بعد ایکبار پھر ایک افسوس ناک حقیقت کو ایکسپوز کر دیا ہے کہ ہمارے ہاں جذبات اور احساسات کو عقل وفہم پر ترجیحی دی جاتی ہے۔
یہ بات کوئی بھی عقل و فہم رکھنے والا بندہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اپنے ملک میں تباہی و بربادی کر کے، املاک کو نقصان پہنچاکرکبھی بھی کوئی بھی قوم مہذب نہیں کہلائی جاسکتی۔ نہ ہی تو اس انداز سے ہم نبی پاک ﷺ سے محبت کو جسٹی فائی کر سکتے ہیں، نہ ہی نبی پاکﷺ ہمارے اِن اعمال سے خوش ہونگے۔
اِس میں کسی قسم کا کوئی شک ہونا ہی نہیں چاہیے کہ کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب پر تنقید و تضحیک کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ مگرجس دنیا میں ہم رہتے ہیں، اسکی اساس ہی جھوٹ اور مکر و فریب پر ہے۔ اور خاص کر مغرب کے وہ ممالک جہاں بے دینی ایک مسلم حقیقت ہو، جہاں دین کو فقط کچھ لوگوں کا منہ بندرکھنے کے لیے ایک مثل کے حیثیت سے زیادہ نہ سمجھا جائے، جہاں ایک باپ جب اپنی سگی بیٹی سے زنا کرتا ہو تو اسے معیوب نہ سمجھا جائے مگر جب وہی بیٹی اپنے باپ کے پیچھے کوئی غلط حرکت کرے تو اسے معیوب سمجھا جائے، ایسے ملک سے جہاں اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے ہر ناجائز اصول کو اپنانا جائز سمجھا جائے، وہاں پر اس طرح کی حرکات کے سوا اور امید رکھنا کہاں کی عقل مندی ہے؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پچھلے سو سال میں اسلام کے خلاف جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، اتنی شاید ہی کسی اور 'مضمون' پر لکھی گئی ہوں، مگر جن باتوں کی ہمیں خبر نہیں ملتی، ان کے خلاف ہمارے جذبات و احساسات کو جوش نہیں آتا۔اور پھر کچھ باتیں ہم خود ہی دنیا میں مشہور کر دیتے ہیں۔
میں نے ایک بار پہلے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ہماری قوم منافقت کی حد تک گر چکی ہے۔ میں آج اِس قوم سے ایکبار پھر کچھ سوال پوچھتا ہوں:
کسی نام نہاد فلم کے بعد جو حالات وطنِ عزیز میں رونما ہوئے ہیں، وہ کسی بھی دردِ دِل رکھنے والے کے لیے انتہائی تشویش ناک اور تکلیف دِہ تھے۔مگر اس واقعہ کے بعد ایکبار پھر ایک افسوس ناک حقیقت کو ایکسپوز کر دیا ہے کہ ہمارے ہاں جذبات اور احساسات کو عقل وفہم پر ترجیحی دی جاتی ہے۔
یہ بات کوئی بھی عقل و فہم رکھنے والا بندہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اپنے ملک میں تباہی و بربادی کر کے، املاک کو نقصان پہنچاکرکبھی بھی کوئی بھی قوم مہذب نہیں کہلائی جاسکتی۔ نہ ہی تو اس انداز سے ہم نبی پاک ﷺ سے محبت کو جسٹی فائی کر سکتے ہیں، نہ ہی نبی پاکﷺ ہمارے اِن اعمال سے خوش ہونگے۔
اِس میں کسی قسم کا کوئی شک ہونا ہی نہیں چاہیے کہ کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب پر تنقید و تضحیک کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ مگرجس دنیا میں ہم رہتے ہیں، اسکی اساس ہی جھوٹ اور مکر و فریب پر ہے۔ اور خاص کر مغرب کے وہ ممالک جہاں بے دینی ایک مسلم حقیقت ہو، جہاں دین کو فقط کچھ لوگوں کا منہ بندرکھنے کے لیے ایک مثل کے حیثیت سے زیادہ نہ سمجھا جائے، جہاں ایک باپ جب اپنی سگی بیٹی سے زنا کرتا ہو تو اسے معیوب نہ سمجھا جائے مگر جب وہی بیٹی اپنے باپ کے پیچھے کوئی غلط حرکت کرے تو اسے معیوب سمجھا جائے، ایسے ملک سے جہاں اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے ہر ناجائز اصول کو اپنانا جائز سمجھا جائے، وہاں پر اس طرح کی حرکات کے سوا اور امید رکھنا کہاں کی عقل مندی ہے؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پچھلے سو سال میں اسلام کے خلاف جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، اتنی شاید ہی کسی اور 'مضمون' پر لکھی گئی ہوں، مگر جن باتوں کی ہمیں خبر نہیں ملتی، ان کے خلاف ہمارے جذبات و احساسات کو جوش نہیں آتا۔اور پھر کچھ باتیں ہم خود ہی دنیا میں مشہور کر دیتے ہیں۔
میں نے ایک بار پہلے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ہماری قوم منافقت کی حد تک گر چکی ہے۔ میں آج اِس قوم سے ایکبار پھر کچھ سوال پوچھتا ہوں:
- [*=center]کیا توہینِ رسالت کرنے والے صرف کافر ہی ہیں؟کیا ہم مسلمان توہینِ رسالت نہیں کرتے؟ جب ہم اُن باتوں کو اپنا لیں جو ہمارے اپنے مفاد میں ہوں اور اُن باتوں کو پاؤں تلے روند ڈالیں جو ہمارے خلاف ہو، تو کیا یہ توہین رسول نہیں؟
[*=center]ہماری دو تہائی قوم بدعات میں غرق ہے، کیا یہ توہینِ رسالت نہیں؟
[*=center]ہمیں اس وقت جوش کیوں آتا ہے جب کوئی کافر اسلام کے خلاف بات کرے، ہماری غیرت اس وقت کہاں غرق ہو جاتی ہے ہمارے مسلمان اسلام سوز حرکات کرتے ہیں؟
[*=center]ہمیں اس وقت جوش کیون نہیں آتا جب ہم ایک دوسرے پر قتل کرنے کے لیے اصلحہ اٹھاتے ہیں؟ کیا ہمیں اس وقت قرآن اور حدیث یاد نہیں رہتے کہ جس نے ایک بیگناہ کو قتل کیا، اس نے گویا ایک نسل کو قتل کیا
[*=center]ہمیں اس وقت جوش کیوں نہیں آتا جب ہم عربوں کو خوش رکھنے کے لیے اپنے ملک عیاشی کے اڈے آباد کرتے ہیں؟
[*=center]اُس وقت ہماری غیرت جوش کیوں نہیں مارتی جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرخارجہ کو قرآن پاک کی آسان ترین سورت تک پڑھنا نہیں آتی؟ اور وہ اس قوم پر حکومت کر رہا ہوتا ہے؟
[*=center]ہمیں اس وقت جوش کیوں نہیں آتا جب ہمارے اپنےمیڈیا پرٹی وی ڈراموں میں اس بات کا سبق دیا جاتا ہے کہ اگر شوہر بیوی کو وقت نہ دے تو بیوی کو چاہیے کہ دوسرے مردوں کے ساتھ دوستی کرلے اور مائیں جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو شادیاں رچاتی پھریں
[*=center]ہمیں اس وقت جوش کیوں نہیں آتا جب ہمارے میڈیا پر حلالہ کرانے کو جائز قرار دیا جائے جبکہ نبی پاکﷺ کی روشن ترین حدیثیں موجود ہیں کہ حلالہ کرانے اور کرنے والے پر لعنت! کیا یہ توہینِ رسول ﷺ نہیں کہ ان کی بات کو ٹھکرا کر نام نہاد اور اسلام دشمن علما کی باتیں مانی جائیں؟
[*=center]ہمیں اس وقت جوش کیوں نہیں آتا جب ہمارے اسٹیج ڈراموں پر عورتوں کو بیہودہ ترین گانوں پر غلیظ ترین ڈانس کرتے ہوئے ہمارے غیرتمند تماش بین بھڑکیں اور سیٹیاں بجا رہا ہوتا ہے؟ کیبل پر پونوگرافکل فلمیں دکھائی جاتی ہیں؟ اور اس وقت ہماری غیرت کہاں مر جاتی ہے جب ہم دو کپڑوں میں ناچتی ہوئی ہندوستانی اداکاروں کو اپنے گھروں میں بیٹھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں؟
سچ اور تلخ ترین سچ یہ ہے کہ ہمارے اندر منافقت اس قدر رچ بس چکی ہے کہ ہمیں اپنی رگوں میں اندھیرا نظر نہیں آتا۔ اور وہ توہینِ رسول ﷺ اور توہینِ اسلام جو ہم ہر روز کرتے ہیں، وہ ہمیں نظر نہیں آتی، اور جیسا ہی وہ لوگ جو بددین، بدمذہب میں گرے ہوئے ہیں، ان سے کوئی ایسی بات ہوتی ہے تو ہماری غیرت جوش میں آجاتی ہے اور ہم اسے دنیا بھر میں مقبول اور مشہور کرانے کے تمام تر مواقع فراہم کردیتے ہیں۔
محترم طاہرالقادری صاحب کا فرمانا ہے کہ "اگر ڈنمارک میں نبی پاک کے کارٹون بنتے ہیں تو اسلامی قانون اس پر لاگو نہیں ہوتا، الغرض کارٹونسٹ کو موت کی سزا نہیں دی جاسکتی" ۔ یہ بیان انہوں نے اپنے ھالیہ ڈنمارک کے دورے میں ایک نیوز چینل کو دیا ہے۔
اگر یہ درست ہے تو پھر امریکہ میں بننے والی فلم پر اپنے ملک میں تشدد و بربریت کرنا کہاں تک درست ہے؟؟؟؟۔
کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خرابی ہے اور وہ بہت شدت سے ہمیں کھوکھلا کر رہی ہے۔
اقبال نے کہا تھا: لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
مگر افسوس موجودہ امتِ مسلمہ وہ امت نہیں جس دنیا کی امامت کا کام سرانجام دے گی، ہماری رگوں میں زبردست حد تک منافقت پھیل چکی ہے۔
محترم طاہرالقادری صاحب کا فرمانا ہے کہ "اگر ڈنمارک میں نبی پاک کے کارٹون بنتے ہیں تو اسلامی قانون اس پر لاگو نہیں ہوتا، الغرض کارٹونسٹ کو موت کی سزا نہیں دی جاسکتی" ۔ یہ بیان انہوں نے اپنے ھالیہ ڈنمارک کے دورے میں ایک نیوز چینل کو دیا ہے۔
اگر یہ درست ہے تو پھر امریکہ میں بننے والی فلم پر اپنے ملک میں تشدد و بربریت کرنا کہاں تک درست ہے؟؟؟؟۔
کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خرابی ہے اور وہ بہت شدت سے ہمیں کھوکھلا کر رہی ہے۔
اقبال نے کہا تھا: لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
مگر افسوس موجودہ امتِ مسلمہ وہ امت نہیں جس دنیا کی امامت کا کام سرانجام دے گی، ہماری رگوں میں زبردست حد تک منافقت پھیل چکی ہے۔
Comment