السلامُ علیکم
ایک جگہ یہ مضمون پڑھا پاکستان کے حالات وقعات کی سچی تصویر کشی کی بنا پر دل چاہا کہ اسے آپ دوستوں سے بھی شئیر کروں۔
اگر مکّہ پاکستان میں ہوتا؟
اپنا چوتھا عُمرہ مکمل کرنے کے بعد میں سستانے کے لئے کچھ دیر کعبۃ اللہ کے سامنے بیٹھ گیا اور ارد گرد کے حالات کو اپنے انداز میں سوچنا شروع کیا کہ “کیا ہوتا اگر مکّہ پاکستان میں ہوتا؟“۔ اس خیال نے میرے دماغ کے تمام فیوز اُڑا کر رکھ دئیے، مگر اس سوال کے مختلف جوابات ذہن میں آنا شروع ہوئے جو کچھ اس طرح تھے۔۔۔۔
حرم شریف کے باہر سڑکیں اور فُٹ پاتھ ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہوتے، فلائی اُوور گِرنے کے قریب ہوتے اور ڈبلیو11 (کراچی کے روٹس پر چلنے والی مشہور بس W11) “ٹاپو ٹاپ“ حاجیوں کو “لاد“ کر پہنچا رہی ہوتی، کیا معلوم ان بسوں میں “ٹیپ ریکارڈ“ بھی بج رہے ہوتے۔
کعبۃ اللہ کے تمام دروازوں پر “فقیر“ آپ کی “خیرات“ کے عوض آپ کے مستقبل کے لئے “معجزانہ کامیابیوں“ کی دعائیں “بانٹ“ رہے ہوتے۔ ٹریفک سِگنلز پر “فقیرانہ لباس“ میں ملبوس مانگنے والے بچے آپ پر “جھپٹنے“ کی کوشش کرتے، آپ کے “احرام“ کو کھینچتے، آپ احرام “کُھل جانے“ کے ڈر سے اُن کو پانچ پانچ رُوپے دے کر اللہ کا شُکر ادا کرتے۔
بے شمار ٹھیلے والے آپ کو “چین“ کی بنی ہوئی اشیاء بیچنے کی غرض سے اُونچی اُونچی آوازیں لگا رہے ہوتے “چوبیس کے بارہ، چوبیس کے بارہ“۔
قریب ہی ایک پُرانی سی پولیس موبائل کھڑی ہوتی، اُس میں بیٹھی ہوئی موٹی اور کاہل نظر آنے والی پولیس عام لوگوں کو دھتکار کر اور حاجیوں سے دور رکھ کر سیکیورٹی دے رہی ہوتی۔
رینجرز کے جوان مستعدی سے اپنی “اولڈ“ G3 بندوقیں سنبھالے فخر سے کھڑے ہوتے جیسے ان کے پاس دُنیا کا جدید ترین اسلحہ ہے اور انہیں اس سے 200 میٹر دور تک فائر کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے تمام حاجیوں کو “اسکین“ کیا جا رہا ہوتا۔ فول پروف سیکیورٹی کے لئے FBI کے ٹریننگ یافتہ K9s یعنی “کُتّے“ استعمال کئے جا رہے ہوتے۔
مسجدِ حرام میں داخل ہوتے ہی آپ کو بہت سے “چھوٹے“ سر والے افراد ( المعروف دولت شاہ کے چوہے) نظر آتے جو قوالی “دم مست قلندر مست مست“ پر دھمال ڈال رہے ہوتے۔ قوال حضرات خود کو اسلام کا بڑا خدمتگار سمجھتے جو اپنے طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم کی دُھنوں سے اسلام کی “عظیم خدمت“ کرتے۔ نعتوں کی جدید قسم آپ کو دیکھنے میں ملتی، مشہور نعت خواں حضرات نعتیں اس طرح پڑھ رہے ہوتے کہ اُن کے پیچھے “سبز پگڑی“ پہنے بچے حلق سے BASS کے متبادل کے طور پر “حق اللہ۔۔۔ یا۔۔۔۔ اللہ اللہ“ نکال رہے ہوتے۔
کعبۃ اللہ آنے والی خواتین ہماری نوجوان نسل کی “چھانڑے بازی“ یا “پُونڈی“ کا شکار ہو رہی ہوتیں، یہ چھانڑے باز طواف پر توجہ کرنے کے بجائے لڑکیوں کے قریب قریب چلنے کی کوشش کرتے۔
مسجدِ حرام کے ہر کونے اور ستون پر کسی نا کسی “روحانی سلسلے“ کے پیر یا بابوں کے “تنخواہ دار“ مرید قابض ہوتے جو خود کو تمام انسانوں سے افضل تصور کرتے، یہ بلند پایہ مرید اپنے “مرشدِ پاک“ کے نام پر تگڑے تگڑے بکرے اور مُرغے بٹورتے اور ان کے عوض “حاجت مندوں“ کی حاجات “آگے“ پہنچاتے۔ یہ حضرات خواتین کے ساتھ “خاص ہمدردی“ سے پیش آتے۔۔ ان کے مقبوضہ کونے یا ستون پر لنگر کا “خاص انتظام“ ہوا کرتا، لنگر لینے کے لئے مرد و خواتین کی الگ الگ قطاریں بنائی جاتیں مگر اتنی قریب کہ سب ایک دوسرے کی “مدد“ کر سکیں۔ یہ بھی “چھانڑے بازی“ کا ایک نادر موقعہ ہوا کرتا۔
محرم الحرام میں حرمین شریفین کا ماحول “کالا کالا“ نظر آتا جبکہ ربیع الاول میں سب کچھ “سبز سبز“ ہو جایا کرتا۔ کیا معلوم محرم میں احرام کا رنگ “کالا“ اور ربیع الاول میں “سبز“ ہوا کرتا۔
امامت کے مسئلے پر تمام فرقوں میں ہر وقت “خوں ریزی“ کا خطرہ ہوتا، ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کعبۃ اللہ کی امامت کے لئے غیر موزوں ہونے کے “فتوے“ جاری کرتا۔ اس صورتحال میں وزیرِ مذہبی اُمور (ایک ریٹائرڈ جرنل صاحب) کعبۃ اللہ کی امامت “سابق آرمی چیف“ کو سونپ دیتے، جن کے حُلیہ مبارک میں ڈاڑھی تو نہیں البتہ مونچھ ضرور ہوتی اور اُنہوں نے برطانیہ کے کسی ادارے سے “24ویں صدی کی جِدت پسندی“ نامی ایک “اسلامی“ کورس بھی کر رکھا ہوتا۔
حرم شریف کی تزئین و آرائش کا کام اُس کمپنی کو “ٹھیکے“ پر دیا جاتا جو “ٹینڈر“ کی کم سے کم قیمت پر راضی ہوتی مگر زیادہ سے زیادہ “کمیشن“ کھلاتی۔
آبِ زم زم بوتلوں میں بھر کر بازاروں میں فروخت ہو رہا ہوتا مگر حاجی حضرات کو ایک ایک گلاس کے لئے لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا۔ اکثر کے پاس گلاس موجود نہ ہوتے کیونکہ پلاسٹک کے گلاس “کون چھوڑتا ہے بھائی؟“، وہ بیچارے حاجی ہاتھ میں زم زم پیتے اور اللہ کا شُکر ادا کرتے۔
میڈیا کے “اینکر پرسنز“ (لال بُجھکڑ) ان تمام مسائل پر فاطر العقل پروگرام پیش کرتے، سیاستدانوں کو لڑواتے اور خوب ریٹنگ بڑھواتے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری صاحب حرمین شریفین میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سوموٹو نوٹس لیا کرتے۔ پی پی پی تمام مسائل کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتی، نواز لیگ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا کرتی، عمران خان صاحب کہا کرتے “اِن سب کو شرم آنی چاہیے، بیڑا غرق کر دیا“، الطاف حسین صاحب کا نعرہ “انقلاب۔۔۔انقلاب“ ہوتا، ق لیگ کو کچھ سمجھ ہی نہ آتی کیا ہو رہا ہے، پرویز مشرف صاحب فیس بُک پر اعلان کیا کرتے کہ “میں میں میں“ آؤں گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا، جماعت اسلامی مسائل کو امریکی سازش قرار دیا کرتی اور اسلامی نظام کے لئے “بھینس“ کے آگے بین بجاتی، مولانا فضل الرحمٰن مسائل کو “ڈیزل میں غوطے“ دے کر عُمرے کیا کرتے، اے این پی کی “لاٹری“ نکلتی اور یہ عوام الناس کو بس “لال ٹوپی“ پہنایا کرتی۔ کوئی “بھولا بھٹکا“ اگر نظامِ خلافت کی بات کرتا تو لوگ اُسے “شِدّت پسند“ قرار دیتے۔ الیکشن ہونے کی صورت میں شریف لوگ نتائج کی فہرست میں “نیچے سے“ جیتا کرتے۔
پیمرا ایک نیا قانون متعارف کرواتا جس کے تحت میری اس تحریر پر پابندی لگا دی جاتی اور میرا کتاب و سُنّت فورم کا آن-لائن اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا جاتا۔
کتاب و سُنّت فورم کے اکاؤنٹ ڈیلیٹ ہونے کے خیال نے مجھے ڈرا دیا اور میں نے اللہ مالکُ المُلک کا لاکھ لاکھ شُکر ادا کیا کہ “مکّہ سعودی عرب میں ہے“ اور یہاں کے لوگ تمام معاملات نہایت خوش اسلوبی سے چلانے کے اہل ہیں، ورنہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ “بدعتِ حسنہ“ کے نام پر کعبۃ اللہ میں لوگ کیا کیا کیا کرتے اور حاجیوں کو کن کن “پاکستانی حالات“ کا سامنا کرنا پڑتا۔
یقیناً خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو مکّہ میں پیدا ہوئے، پوری زندگی کعبۃ اللہ کی فضاؤں میں گزاری اور اُن کا جنازہ کعبۃ اللہ کے سامنے امامِ کعبہ پڑھاتے ہیں۔ یہاں کے انتہائی خوش قسمت وہ مسلمان ہیں جو فقہی ائمہ کے صرف ناموں سے واقف ہیں اور شاید دیوبندی اور بریلوی نام اُنہوں نے کبھی سُنے بھی نہیں۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ کا یہ شعر ہمارے لئے ہے۔۔۔
تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ
--------
-------
واضح رہے کہ اس مضمون کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں رہا اور اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے میں تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔
اللہ ہم سب کو کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی جانا نصیب کرے۔ آمین۔
والسلام علیکم و رحمتہ اللہ
ایک جگہ یہ مضمون پڑھا پاکستان کے حالات وقعات کی سچی تصویر کشی کی بنا پر دل چاہا کہ اسے آپ دوستوں سے بھی شئیر کروں۔
اگر مکّہ پاکستان میں ہوتا؟
اپنا چوتھا عُمرہ مکمل کرنے کے بعد میں سستانے کے لئے کچھ دیر کعبۃ اللہ کے سامنے بیٹھ گیا اور ارد گرد کے حالات کو اپنے انداز میں سوچنا شروع کیا کہ “کیا ہوتا اگر مکّہ پاکستان میں ہوتا؟“۔ اس خیال نے میرے دماغ کے تمام فیوز اُڑا کر رکھ دئیے، مگر اس سوال کے مختلف جوابات ذہن میں آنا شروع ہوئے جو کچھ اس طرح تھے۔۔۔۔
حرم شریف کے باہر سڑکیں اور فُٹ پاتھ ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہوتے، فلائی اُوور گِرنے کے قریب ہوتے اور ڈبلیو11 (کراچی کے روٹس پر چلنے والی مشہور بس W11) “ٹاپو ٹاپ“ حاجیوں کو “لاد“ کر پہنچا رہی ہوتی، کیا معلوم ان بسوں میں “ٹیپ ریکارڈ“ بھی بج رہے ہوتے۔
کعبۃ اللہ کے تمام دروازوں پر “فقیر“ آپ کی “خیرات“ کے عوض آپ کے مستقبل کے لئے “معجزانہ کامیابیوں“ کی دعائیں “بانٹ“ رہے ہوتے۔ ٹریفک سِگنلز پر “فقیرانہ لباس“ میں ملبوس مانگنے والے بچے آپ پر “جھپٹنے“ کی کوشش کرتے، آپ کے “احرام“ کو کھینچتے، آپ احرام “کُھل جانے“ کے ڈر سے اُن کو پانچ پانچ رُوپے دے کر اللہ کا شُکر ادا کرتے۔
بے شمار ٹھیلے والے آپ کو “چین“ کی بنی ہوئی اشیاء بیچنے کی غرض سے اُونچی اُونچی آوازیں لگا رہے ہوتے “چوبیس کے بارہ، چوبیس کے بارہ“۔
قریب ہی ایک پُرانی سی پولیس موبائل کھڑی ہوتی، اُس میں بیٹھی ہوئی موٹی اور کاہل نظر آنے والی پولیس عام لوگوں کو دھتکار کر اور حاجیوں سے دور رکھ کر سیکیورٹی دے رہی ہوتی۔
رینجرز کے جوان مستعدی سے اپنی “اولڈ“ G3 بندوقیں سنبھالے فخر سے کھڑے ہوتے جیسے ان کے پاس دُنیا کا جدید ترین اسلحہ ہے اور انہیں اس سے 200 میٹر دور تک فائر کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے تمام حاجیوں کو “اسکین“ کیا جا رہا ہوتا۔ فول پروف سیکیورٹی کے لئے FBI کے ٹریننگ یافتہ K9s یعنی “کُتّے“ استعمال کئے جا رہے ہوتے۔
مسجدِ حرام میں داخل ہوتے ہی آپ کو بہت سے “چھوٹے“ سر والے افراد ( المعروف دولت شاہ کے چوہے) نظر آتے جو قوالی “دم مست قلندر مست مست“ پر دھمال ڈال رہے ہوتے۔ قوال حضرات خود کو اسلام کا بڑا خدمتگار سمجھتے جو اپنے طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم کی دُھنوں سے اسلام کی “عظیم خدمت“ کرتے۔ نعتوں کی جدید قسم آپ کو دیکھنے میں ملتی، مشہور نعت خواں حضرات نعتیں اس طرح پڑھ رہے ہوتے کہ اُن کے پیچھے “سبز پگڑی“ پہنے بچے حلق سے BASS کے متبادل کے طور پر “حق اللہ۔۔۔ یا۔۔۔۔ اللہ اللہ“ نکال رہے ہوتے۔
کعبۃ اللہ آنے والی خواتین ہماری نوجوان نسل کی “چھانڑے بازی“ یا “پُونڈی“ کا شکار ہو رہی ہوتیں، یہ چھانڑے باز طواف پر توجہ کرنے کے بجائے لڑکیوں کے قریب قریب چلنے کی کوشش کرتے۔
مسجدِ حرام کے ہر کونے اور ستون پر کسی نا کسی “روحانی سلسلے“ کے پیر یا بابوں کے “تنخواہ دار“ مرید قابض ہوتے جو خود کو تمام انسانوں سے افضل تصور کرتے، یہ بلند پایہ مرید اپنے “مرشدِ پاک“ کے نام پر تگڑے تگڑے بکرے اور مُرغے بٹورتے اور ان کے عوض “حاجت مندوں“ کی حاجات “آگے“ پہنچاتے۔ یہ حضرات خواتین کے ساتھ “خاص ہمدردی“ سے پیش آتے۔۔ ان کے مقبوضہ کونے یا ستون پر لنگر کا “خاص انتظام“ ہوا کرتا، لنگر لینے کے لئے مرد و خواتین کی الگ الگ قطاریں بنائی جاتیں مگر اتنی قریب کہ سب ایک دوسرے کی “مدد“ کر سکیں۔ یہ بھی “چھانڑے بازی“ کا ایک نادر موقعہ ہوا کرتا۔
محرم الحرام میں حرمین شریفین کا ماحول “کالا کالا“ نظر آتا جبکہ ربیع الاول میں سب کچھ “سبز سبز“ ہو جایا کرتا۔ کیا معلوم محرم میں احرام کا رنگ “کالا“ اور ربیع الاول میں “سبز“ ہوا کرتا۔
امامت کے مسئلے پر تمام فرقوں میں ہر وقت “خوں ریزی“ کا خطرہ ہوتا، ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کعبۃ اللہ کی امامت کے لئے غیر موزوں ہونے کے “فتوے“ جاری کرتا۔ اس صورتحال میں وزیرِ مذہبی اُمور (ایک ریٹائرڈ جرنل صاحب) کعبۃ اللہ کی امامت “سابق آرمی چیف“ کو سونپ دیتے، جن کے حُلیہ مبارک میں ڈاڑھی تو نہیں البتہ مونچھ ضرور ہوتی اور اُنہوں نے برطانیہ کے کسی ادارے سے “24ویں صدی کی جِدت پسندی“ نامی ایک “اسلامی“ کورس بھی کر رکھا ہوتا۔
حرم شریف کی تزئین و آرائش کا کام اُس کمپنی کو “ٹھیکے“ پر دیا جاتا جو “ٹینڈر“ کی کم سے کم قیمت پر راضی ہوتی مگر زیادہ سے زیادہ “کمیشن“ کھلاتی۔
آبِ زم زم بوتلوں میں بھر کر بازاروں میں فروخت ہو رہا ہوتا مگر حاجی حضرات کو ایک ایک گلاس کے لئے لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا۔ اکثر کے پاس گلاس موجود نہ ہوتے کیونکہ پلاسٹک کے گلاس “کون چھوڑتا ہے بھائی؟“، وہ بیچارے حاجی ہاتھ میں زم زم پیتے اور اللہ کا شُکر ادا کرتے۔
میڈیا کے “اینکر پرسنز“ (لال بُجھکڑ) ان تمام مسائل پر فاطر العقل پروگرام پیش کرتے، سیاستدانوں کو لڑواتے اور خوب ریٹنگ بڑھواتے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری صاحب حرمین شریفین میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سوموٹو نوٹس لیا کرتے۔ پی پی پی تمام مسائل کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتی، نواز لیگ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا کرتی، عمران خان صاحب کہا کرتے “اِن سب کو شرم آنی چاہیے، بیڑا غرق کر دیا“، الطاف حسین صاحب کا نعرہ “انقلاب۔۔۔انقلاب“ ہوتا، ق لیگ کو کچھ سمجھ ہی نہ آتی کیا ہو رہا ہے، پرویز مشرف صاحب فیس بُک پر اعلان کیا کرتے کہ “میں میں میں“ آؤں گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا، جماعت اسلامی مسائل کو امریکی سازش قرار دیا کرتی اور اسلامی نظام کے لئے “بھینس“ کے آگے بین بجاتی، مولانا فضل الرحمٰن مسائل کو “ڈیزل میں غوطے“ دے کر عُمرے کیا کرتے، اے این پی کی “لاٹری“ نکلتی اور یہ عوام الناس کو بس “لال ٹوپی“ پہنایا کرتی۔ کوئی “بھولا بھٹکا“ اگر نظامِ خلافت کی بات کرتا تو لوگ اُسے “شِدّت پسند“ قرار دیتے۔ الیکشن ہونے کی صورت میں شریف لوگ نتائج کی فہرست میں “نیچے سے“ جیتا کرتے۔
پیمرا ایک نیا قانون متعارف کرواتا جس کے تحت میری اس تحریر پر پابندی لگا دی جاتی اور میرا کتاب و سُنّت فورم کا آن-لائن اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا جاتا۔
کتاب و سُنّت فورم کے اکاؤنٹ ڈیلیٹ ہونے کے خیال نے مجھے ڈرا دیا اور میں نے اللہ مالکُ المُلک کا لاکھ لاکھ شُکر ادا کیا کہ “مکّہ سعودی عرب میں ہے“ اور یہاں کے لوگ تمام معاملات نہایت خوش اسلوبی سے چلانے کے اہل ہیں، ورنہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ “بدعتِ حسنہ“ کے نام پر کعبۃ اللہ میں لوگ کیا کیا کیا کرتے اور حاجیوں کو کن کن “پاکستانی حالات“ کا سامنا کرنا پڑتا۔
یقیناً خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو مکّہ میں پیدا ہوئے، پوری زندگی کعبۃ اللہ کی فضاؤں میں گزاری اور اُن کا جنازہ کعبۃ اللہ کے سامنے امامِ کعبہ پڑھاتے ہیں۔ یہاں کے انتہائی خوش قسمت وہ مسلمان ہیں جو فقہی ائمہ کے صرف ناموں سے واقف ہیں اور شاید دیوبندی اور بریلوی نام اُنہوں نے کبھی سُنے بھی نہیں۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ کا یہ شعر ہمارے لئے ہے۔۔۔
تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ
--------
-------
واضح رہے کہ اس مضمون کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں رہا اور اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے میں تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔
اللہ ہم سب کو کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی جانا نصیب کرے۔ آمین۔
والسلام علیکم و رحمتہ اللہ
Comment