اسلام علیکم پیغام ریڈرز ایک اور خوبصورت اور معلوماتی شئیرنگ جسے پڑھ کر آپ کو بچپن کی کہانیوں کی یاد تازہ ہوجائے گئی
پرانے زمانے میں بھی بادشاہوں کو یہ خوش فہمی ہوتی تھی کہ وہ عقل کل ہیں- ایسے ہی ایک بادشاہ محض اس وجہ سے کامیابی سے حکومت کر رہا تھا کہ اسے ایک وزیر با تدبیر میسر تھا- جو اپنی معاملہ فہمی اور دوراندیشی سے بادشاہ کی حماقتوں کو چھپا لیتا تھا، مگر کب تک؟؟… ایک دن خود وزیر با تدبیر بھی بادشاہ سلامت کے نرغے میں آ ہی گیا- بادشاہ کے دماغ میں نہ جانے کیا بات آئی کہ انہوں نے وزیر باتدبیر کو بلا کر اس کے سامنے یہ تین سوال رکھے:
١- زمین کے وسطی مقام کی نشاندھی کی جائے-
٢- ہمیں بتایا جائے کہ ہم زمین کا چکر کتنی دیر میں لگا سکتے ہیں؟
٣- ایک عظیم قومی سرمایہ ہونے کے ناطے ہماری قیمت کا تخمینہ لگایا جائے-
یہ کہ کر جلاد کو بلا کر حکم دیا کہ اگر چوبیس گھنٹوں میں وزیر با تدبیر ان سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو ان کا سر قلم کر دیا جائے- وزیر نے بہت سر کھپایا مگر اسے کچھ سمجھ نہ آیا- بالآخر اس نے ہمت ہار لی اور سوچ لیا کہ اس کے دن گنے جا چکے ہیں- وزیر کے نوکر نے اپنے آقا کو پریشان دیکھ کر وجہ پوچھی تو وزیر نے سارا ماجرا سنا ڈالا- خلاف توقع نوکر کہنے لگا: “یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، آپ بے فکر ہو کر کل دربار جائیں اور بادشاہ سلامت سے کہیں کہ ان سوالوں کا جواب تو میرا نوکر بھی دے سکتا ہے-”
وزیر دھڑکتے دل کے ساتھ دربار پہنچا تو اس سے تینوں سوال پوچھے گئے- وزیر نے کہا اس کا جواب تو میرا نوکر بھی سے سکتا ہے- نوکر کو بلایا گیا- بادشاہ نے اس کے سامنے تینوں سوال دہرائے- نوکر نے وہیں کھڑے کھڑے ایک جگہ زمین میں ڈنڈا گاڑتے ہوئے کہا:” یہ زمین کا وسطی مقام ہے، اگر حضور کو شک ہو تو پیمائش کروا لیں…”، دوسرے سوال کا جواب دیتے ہوئے نوکر نے عرض کیا اگر حضور اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر سورج کی رفتار سے اسے دوڑائیں تو وہ چوبیس گھنٹوں میں زمین کا چکر لگا سکتے ہیں- اور تیسرے سوال کے جواب میں نوکر نے کہا کہ جہاں تک آپ کی قیمت کا سوال ہے تو جناب والا! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے ان کی قیمت تیس روپے مقرر کی تھی، یقیناً آپ ان سے زیادہ قیمتی نہیں لہذا آپ کی قیمت 29 روپے بنتی ہے”-
خود کو عقل کل سمجھنے والے بادشاہ کے پاس سوائے خاموشی کے کوئی چارہ نہ رہا-
پرانے زمانے میں بھی بادشاہوں کو یہ خوش فہمی ہوتی تھی کہ وہ عقل کل ہیں- ایسے ہی ایک بادشاہ محض اس وجہ سے کامیابی سے حکومت کر رہا تھا کہ اسے ایک وزیر با تدبیر میسر تھا- جو اپنی معاملہ فہمی اور دوراندیشی سے بادشاہ کی حماقتوں کو چھپا لیتا تھا، مگر کب تک؟؟… ایک دن خود وزیر با تدبیر بھی بادشاہ سلامت کے نرغے میں آ ہی گیا- بادشاہ کے دماغ میں نہ جانے کیا بات آئی کہ انہوں نے وزیر باتدبیر کو بلا کر اس کے سامنے یہ تین سوال رکھے:
١- زمین کے وسطی مقام کی نشاندھی کی جائے-
٢- ہمیں بتایا جائے کہ ہم زمین کا چکر کتنی دیر میں لگا سکتے ہیں؟
٣- ایک عظیم قومی سرمایہ ہونے کے ناطے ہماری قیمت کا تخمینہ لگایا جائے-
یہ کہ کر جلاد کو بلا کر حکم دیا کہ اگر چوبیس گھنٹوں میں وزیر با تدبیر ان سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو ان کا سر قلم کر دیا جائے- وزیر نے بہت سر کھپایا مگر اسے کچھ سمجھ نہ آیا- بالآخر اس نے ہمت ہار لی اور سوچ لیا کہ اس کے دن گنے جا چکے ہیں- وزیر کے نوکر نے اپنے آقا کو پریشان دیکھ کر وجہ پوچھی تو وزیر نے سارا ماجرا سنا ڈالا- خلاف توقع نوکر کہنے لگا: “یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، آپ بے فکر ہو کر کل دربار جائیں اور بادشاہ سلامت سے کہیں کہ ان سوالوں کا جواب تو میرا نوکر بھی دے سکتا ہے-”
وزیر دھڑکتے دل کے ساتھ دربار پہنچا تو اس سے تینوں سوال پوچھے گئے- وزیر نے کہا اس کا جواب تو میرا نوکر بھی سے سکتا ہے- نوکر کو بلایا گیا- بادشاہ نے اس کے سامنے تینوں سوال دہرائے- نوکر نے وہیں کھڑے کھڑے ایک جگہ زمین میں ڈنڈا گاڑتے ہوئے کہا:” یہ زمین کا وسطی مقام ہے، اگر حضور کو شک ہو تو پیمائش کروا لیں…”، دوسرے سوال کا جواب دیتے ہوئے نوکر نے عرض کیا اگر حضور اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر سورج کی رفتار سے اسے دوڑائیں تو وہ چوبیس گھنٹوں میں زمین کا چکر لگا سکتے ہیں- اور تیسرے سوال کے جواب میں نوکر نے کہا کہ جہاں تک آپ کی قیمت کا سوال ہے تو جناب والا! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے ان کی قیمت تیس روپے مقرر کی تھی، یقیناً آپ ان سے زیادہ قیمتی نہیں لہذا آپ کی قیمت 29 روپے بنتی ہے”-
خود کو عقل کل سمجھنے والے بادشاہ کے پاس سوائے خاموشی کے کوئی چارہ نہ رہا-
Comment