اسلام علکیم
ہم دنیا کی شاید وہ ؤاحد قوم ہیں جو اپنے بچوں کی اکثریت کی طرف سے
مکمل طور پہ غافل ہیں میں جب اپنی قوم کے بے شمار بچوں کو شہروں
کی گندی نالیوں کے کنارے اور کوڑے کے ڈھیروں کے پاس اور دیہات
کی ویران گلیوں میں کھیلتا دیکھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں
کہ اس وقت میری قوم کے جتنے بچے اپنے گھروں اور مدرسوں میں
بیٹھے پڑھ رہے ہیں ان سے کئی گنا زیادہ بچے اپنے گھروں اور اپنے ملک
کو پورے مستقبل کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ ہماری مثال
اُس شخص کی سی ہے جو اپنے زخموں پر حریر و دیبا کے پھاہے
رکھ کلر اپنے اپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا کر لیتا ہے
کہ وہ تو تندرست ہے۔۔بعینہ ہم مدارس کی تعداد کا اعلان
کرنے میں تو بہت تیز ہیں مگر ہماری شماریات کی حس ان بچوں کی گنتی پہ
قادر نہیں جنہیں ہم نے ہا ہمارے مروجہ نظام معیشت
نے بڑی سیر چشمی سے برباد کرنے کے لیے نظر انداز
کر رکھا ہے۔ آج بھی ہم اپنے شہروں میں ہاتھ بھر کے بچوں
کو سائکلوں میں ہوا بھرتے بڑے کڑاہے مانجتے
اور گھر کا سودا سلف لانے کی خاطر دن بھر بھٹکتا دیکھتے ہیں تو اس
کو معمول کی بات سمجھتے ہیں
ہم سب اپنے دن بھر کے وقت سے صرف چند لمحہ نکال کر ایسے بچوں کو
کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکتے ہیں یہ کچھ مشکل کام نہیں
اپ کسی بھی قریبی فلاحی مرکز یا ایسی تنظیموں کے لیے رضا کارانہ طور
پہ خود کو پیش کر سکتے ہیں۔۔کہ بچے ہی ہمارا کل ہیں۔۔سو ایک درخواست
کہ اس پہ ضرور سوچیے گا ۔۔۔کوئی ایک بچہ بھی اپ کی وجہ سے
اس تعلیم یافتہ ہوگیا تو سمجھئے گا اپ نے اس اندھیرے
میں ایک شمع روشن کر دی ہے
بہت زیادہ خوش رہیں
عامر احمد خان
ہم دنیا کی شاید وہ ؤاحد قوم ہیں جو اپنے بچوں کی اکثریت کی طرف سے
مکمل طور پہ غافل ہیں میں جب اپنی قوم کے بے شمار بچوں کو شہروں
کی گندی نالیوں کے کنارے اور کوڑے کے ڈھیروں کے پاس اور دیہات
کی ویران گلیوں میں کھیلتا دیکھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں
کہ اس وقت میری قوم کے جتنے بچے اپنے گھروں اور مدرسوں میں
بیٹھے پڑھ رہے ہیں ان سے کئی گنا زیادہ بچے اپنے گھروں اور اپنے ملک
کو پورے مستقبل کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ ہماری مثال
اُس شخص کی سی ہے جو اپنے زخموں پر حریر و دیبا کے پھاہے
رکھ کلر اپنے اپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا کر لیتا ہے
کہ وہ تو تندرست ہے۔۔بعینہ ہم مدارس کی تعداد کا اعلان
کرنے میں تو بہت تیز ہیں مگر ہماری شماریات کی حس ان بچوں کی گنتی پہ
قادر نہیں جنہیں ہم نے ہا ہمارے مروجہ نظام معیشت
نے بڑی سیر چشمی سے برباد کرنے کے لیے نظر انداز
کر رکھا ہے۔ آج بھی ہم اپنے شہروں میں ہاتھ بھر کے بچوں
کو سائکلوں میں ہوا بھرتے بڑے کڑاہے مانجتے
اور گھر کا سودا سلف لانے کی خاطر دن بھر بھٹکتا دیکھتے ہیں تو اس
کو معمول کی بات سمجھتے ہیں
ہم سب اپنے دن بھر کے وقت سے صرف چند لمحہ نکال کر ایسے بچوں کو
کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکتے ہیں یہ کچھ مشکل کام نہیں
اپ کسی بھی قریبی فلاحی مرکز یا ایسی تنظیموں کے لیے رضا کارانہ طور
پہ خود کو پیش کر سکتے ہیں۔۔کہ بچے ہی ہمارا کل ہیں۔۔سو ایک درخواست
کہ اس پہ ضرور سوچیے گا ۔۔۔کوئی ایک بچہ بھی اپ کی وجہ سے
اس تعلیم یافتہ ہوگیا تو سمجھئے گا اپ نے اس اندھیرے
میں ایک شمع روشن کر دی ہے
بہت زیادہ خوش رہیں
عامر احمد خان
Comment