یہاں ایک عجب آزاداور بے پرواہ ماحول تھا۔۔۔۔۔ ہر غم پریشانی سے بے نیاز۔۔
۔
یہ دن میرے تھے کسی ک مجال نہ تھی ان میں مخل ہو۔۔یہاں موبائل فون کی لعنت
سے بھی آزاد تھا اور کوئی فون کر کے میرا سکون غارت نہ کر سکتا تھا یا کسی
نا خوشگوارواقعے کی اطلاع دے سکتا تھا
مین دنیا سے پرے ایک مقام پر تھا جہاں مجھے کسی قسم کی دخل اندازی پسند نہ تھی
۔
یہ دن میرے تھے کسی ک مجال نہ تھی ان میں مخل ہو۔۔یہاں موبائل فون کی لعنت
سے بھی آزاد تھا اور کوئی فون کر کے میرا سکون غارت نہ کر سکتا تھا یا کسی
نا خوشگوارواقعے کی اطلاع دے سکتا تھا
مین دنیا سے پرے ایک مقام پر تھا جہاں مجھے کسی قسم کی دخل اندازی پسند نہ تھی
یہا ں کی شامیں دلربا تھیں یہاں کی راتیں اداس کرنے اوردل می کھب جانے والی تھیں
دور تک پھیلے ہوئے سکوت اور گہری چپ میں جب ڈوبتے سورج کی اخری روشنی پہاڑوں
کی چوٹیوں کو سنہرا کرتی تو امیرا دل اک گھمبیر سی اداسی کی اغوش میں چلا جاتا
تھا۔۔پہاڑوں کی آوارہ گردی بے شک انسان کو خوشی فراہم کرتی ہے لیکن پہاڑوں کی شامیں
اورراتیں دکھ دینے والی ہوتی ہیاور انسان کو اپنی مختصر حیات کی بہت سی بھولی بسری
باتیں یاد آنے لگتی ہیں۔۔۔کوئی اندر کی محرومی یا ادھوری خواہش یہ پھر وقت کی دھول
میں گم ہو جانے والا کوئی چہرہ۔۔۔۔۔
دور تک پھیلے ہوئے سکوت اور گہری چپ میں جب ڈوبتے سورج کی اخری روشنی پہاڑوں
کی چوٹیوں کو سنہرا کرتی تو امیرا دل اک گھمبیر سی اداسی کی اغوش میں چلا جاتا
تھا۔۔پہاڑوں کی آوارہ گردی بے شک انسان کو خوشی فراہم کرتی ہے لیکن پہاڑوں کی شامیں
اورراتیں دکھ دینے والی ہوتی ہیاور انسان کو اپنی مختصر حیات کی بہت سی بھولی بسری
باتیں یاد آنے لگتی ہیں۔۔۔کوئی اندر کی محرومی یا ادھوری خواہش یہ پھر وقت کی دھول
میں گم ہو جانے والا کوئی چہرہ۔۔۔۔۔
جنگلوں،پہاڑوں جھرنوں، تتیلیوں پھولوں ندی نالوں کی سرزمین پربی ناڑ میں
بھٹکتے ہوئےپانچ روزہو چکے تھے اپنی نوے فیصد توانانی منزل پہ پہنچنے سے پہلے
ضائع کر چکا تھا۔۔۔۔ان پر اسرار راستوں سے گزرتے ہوئے جنگل کی ایک مخصوص
خوشبو اور ایک ہلکا سا خوف بھی آپ کے ساتھ چلتا ہے بقول منیر نیازی
بھٹکتے ہوئےپانچ روزہو چکے تھے اپنی نوے فیصد توانانی منزل پہ پہنچنے سے پہلے
ضائع کر چکا تھا۔۔۔۔ان پر اسرار راستوں سے گزرتے ہوئے جنگل کی ایک مخصوص
خوشبو اور ایک ہلکا سا خوف بھی آپ کے ساتھ چلتا ہے بقول منیر نیازی
رہتاہے اک ہراس سا قدموں کے ساتھ ساتھ
چلتا ہے دشت، دشت نوردوں کے ساتھ ساتھ
چلتا ہے دشت، دشت نوردوں کے ساتھ ساتھ
یہاں اتنے رنگ بکھے تھے کہ میں نے اتنے کمیوپٹر کے ٢٥٦ رنگوں میں بھی نہ دیکھے
تھے میں نے ایسے سحر انگیز مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی کوشش کی
لیکن شاید انصاف نہ کرپایااور کر بھی کیسے سکتا تھا ک اس کا دلکش حسن نہ کمیرے
کی آنکھ میں سما سکتااور نہ ظاہری دیدی بینامیں۔۔۔۔۔اسے تو صرف روح سے دیکھا اور محسوس
کیا جا سکتا ہے۔۔۔کہ جتنا کسی کا ظرف ذوق اور نگاہ ہے اس قدر مظاہر قدرت کے ساز میں
ترنم بھی ہے۔۔لے ھی ہےاور نغمہ زیست بھی۔۔۔
شاہراہ کاغان پر جلکھڈ سے اٹھ اورناران سے اڑتالیس کلومیٹڑ کے فاصلے پر بیسل
آباد ہے یہاں ہر طرف پتھر پہ پتھر ہیں ایک سنگلاخ اور بے روح مقام دوردورتک ویرانی
ہی ویرانی ہے۔۔یہ ازل سے ویران ہے اور ویران ہی رہے گا۔۔۔ناران سے بابو سرٹاپ جانے والی
جیپیوں کا شور کچھ دیر کو بلند ہوتا ہے اس کے بعد ، پھر وہی لمبی چپ اور تیزہوا کا شور
بیسل کے مشرق سےپُربی ناڑ نالہ دریائے کہنار سے آکر ملتا ہے اوراسی نالے کے ساتھ
ساتھ ہمیں سفر کرنا تھا،،پرُبی ناڑ وادی میں داخل ہونے کے لیے دریائے کنہار کو ایک
جھولے پر عبورکرن پڑتا ہے۔۔چیختا چلاتا خونی دریائے کہنار اور یہ انتہائی غیر محفوظ
جھولا ایک ہاتھ سے جھولے کو تھامنا پڑتا ہے اوردوسے ہاتھ سے ڈاوری کھنچ کر جھولے
کو حرکت دی جاتی ہے
تھے میں نے ایسے سحر انگیز مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی کوشش کی
لیکن شاید انصاف نہ کرپایااور کر بھی کیسے سکتا تھا ک اس کا دلکش حسن نہ کمیرے
کی آنکھ میں سما سکتااور نہ ظاہری دیدی بینامیں۔۔۔۔۔اسے تو صرف روح سے دیکھا اور محسوس
کیا جا سکتا ہے۔۔۔کہ جتنا کسی کا ظرف ذوق اور نگاہ ہے اس قدر مظاہر قدرت کے ساز میں
ترنم بھی ہے۔۔لے ھی ہےاور نغمہ زیست بھی۔۔۔
شاہراہ کاغان پر جلکھڈ سے اٹھ اورناران سے اڑتالیس کلومیٹڑ کے فاصلے پر بیسل
آباد ہے یہاں ہر طرف پتھر پہ پتھر ہیں ایک سنگلاخ اور بے روح مقام دوردورتک ویرانی
ہی ویرانی ہے۔۔یہ ازل سے ویران ہے اور ویران ہی رہے گا۔۔۔ناران سے بابو سرٹاپ جانے والی
جیپیوں کا شور کچھ دیر کو بلند ہوتا ہے اس کے بعد ، پھر وہی لمبی چپ اور تیزہوا کا شور
بیسل کے مشرق سےپُربی ناڑ نالہ دریائے کہنار سے آکر ملتا ہے اوراسی نالے کے ساتھ
ساتھ ہمیں سفر کرنا تھا،،پرُبی ناڑ وادی میں داخل ہونے کے لیے دریائے کنہار کو ایک
جھولے پر عبورکرن پڑتا ہے۔۔چیختا چلاتا خونی دریائے کہنار اور یہ انتہائی غیر محفوظ
جھولا ایک ہاتھ سے جھولے کو تھامنا پڑتا ہے اوردوسے ہاتھ سے ڈاوری کھنچ کر جھولے
کو حرکت دی جاتی ہے
جھولے سے اتر کر اپ پربی ناڑ کی تنگ وادی میں داخل ہوتےہیں اسکے بعد نالہ
کو گھوڑوں یا پیدل عبور کرنا پڑتا ہےاسکے نعد چار پانچ گلیشئیر آتے ہیں اس کے بعد
اونچ نیچ کا ایک سلسہ کبھی چڑھائی کبھی اترائیاور یہ ا کو بیسل کی ساڑھے دس ہزار
فٹ کی بلندی سے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی تک لے جاتی ہے
کو گھوڑوں یا پیدل عبور کرنا پڑتا ہےاسکے نعد چار پانچ گلیشئیر آتے ہیں اس کے بعد
اونچ نیچ کا ایک سلسہ کبھی چڑھائی کبھی اترائیاور یہ ا کو بیسل کی ساڑھے دس ہزار
فٹ کی بلندی سے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی تک لے جاتی ہے
Comment