اسلامُ علیکم
کئی دن پہلے یہ میل مجھ تک پہنچی جو کہ بہت دلچسپ ہے اسے میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ آپ سے شئیر کر رہا ہوں۔آپ بھی اس کی دلچسپی کو محسوس کیجئے
ایک دور افتادہ قصبے میں ایک فرد کچھ دن گزرانےکے لئے گیاوہاں پر پہنچ کر اُس نے ایک ہوٹل میں کمرہ بک کروایا بکنگ کے بعد اُس فرد نے کاونٹر سے گھر فون کر کے اپنی خیریت سے پہنچنے کے بارے میں بتایا ۔
ہوٹل کے مالک نے اُس فرد سے پانچ سو روپے ایڈوانس لئے اور اس فرد کو اُس کے کمرے میں پہنچاآیا۔
واپس آکر ہوٹل کے مالک نے سوچا کہ میرے ہاں جس بڑھئی نے لکڑی کا ٹوٹا پھوٹا سامان درست کیا تھا اُس کے ابھی میں نے پانچ سو دینے تھے چلو اچھا ہوا کہ میرے پاس یہ رقم آگئی یہ سوچ کر وہ اُس بڑھئی کے پاس گیا اور ساتھ شکرئے کے وہ پانچ سو اُسے دے آیا
اُس بڑھئی کی بیٹی کی کچھ دن پہلے شادی ہوئی تھی جو آجکل اُس کے ہاں آئی ہوئی تھی اُس بڑھئی نے سوچا کہ شادی کے بعد بیٹی پہلی مرتبہ آئی ہے لہذا خالی ہاتھ واپس بھیجنے سے بہتر ہے کہ یہ پانچ سو میں اپنی بیٹی داماد کو دے دوں لہذا اُس نے وہ پانچ سو اپنے داماد کے ہاتھ پر رکھ دئے
اُس بڑھئی کے داماد نے قصبے کے قصائی کے پانچ سو دینے تھے سو اُس نے قصائی کو وہی پانچ سو دے کر اپنے قرضے سے خلاصی حاصل کی۔
کچھ دیر بعد اُس قصائی سے علاقے کے اخبار فروش نے آکر کچھ ادھار مانگا اُس قصائی نے وہی پانچ سو نکال کر اُس اخبار فروش کو دے دیئے۔
یہ اخبار فروش اسی ہوٹل میں بھی اخبار پہنچاتا تھا اور اس کے مالک سے کئی ماہ پہلے کچھ دنوں کے وعدے پر پانچ سو اُدھار لئیے تھے اور کئی ماہ گزرنےکے باوجود واپس نہ کر سکا تھا اب وہ اخبار فروش قصائی سے اُدھار لیئے ہوئے پانچ سو لا کر ہوٹل کے مالک کو ادا کر دیتا ہے۔
کچھ گھنٹوں بعد ہوٹل کے کاونٹر پر ایک فون آتا ہے جو کہ اسی فرد کے لیئے تھا اس فون کو سننے کے بعد وہ فرد کہتا ہے کہ میں معزرت چاہتا ہوں مجھے یہاں سے جانا ہے آپ چاہیں تو کچھ پیسے کاٹ کر مجھے باقی ادا کردیں ہوٹل کا مالک سوچتا ہے کہ اس کے پانچ سو کی وجہ سے میں اپنا ادھار واپس کر سکا میرے لئے یہی کافی ہے یہ سوچتے ہوئے ہوٹل کا مالک بخوشی اُسے پورے پانچ سو ادا کر تے ہوئے نہائت خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں جناب پھر کبھی ادھر آئیں تو پھر خدمت کا موقع دیجئے گا
وہ فرد اچھی یاد لے کر اس قصبے سےواپس لوٹ جاتا ہے۔
کیسا لگا یہ روپے کا چکر کسی کا کچھ بھی خرچ نہیں ہوا اور کتنوں کے کام بھی سُدھر گئے؟؟؟
کئی دن پہلے یہ میل مجھ تک پہنچی جو کہ بہت دلچسپ ہے اسے میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ آپ سے شئیر کر رہا ہوں۔آپ بھی اس کی دلچسپی کو محسوس کیجئے
ایک دور افتادہ قصبے میں ایک فرد کچھ دن گزرانےکے لئے گیاوہاں پر پہنچ کر اُس نے ایک ہوٹل میں کمرہ بک کروایا بکنگ کے بعد اُس فرد نے کاونٹر سے گھر فون کر کے اپنی خیریت سے پہنچنے کے بارے میں بتایا ۔
ہوٹل کے مالک نے اُس فرد سے پانچ سو روپے ایڈوانس لئے اور اس فرد کو اُس کے کمرے میں پہنچاآیا۔
واپس آکر ہوٹل کے مالک نے سوچا کہ میرے ہاں جس بڑھئی نے لکڑی کا ٹوٹا پھوٹا سامان درست کیا تھا اُس کے ابھی میں نے پانچ سو دینے تھے چلو اچھا ہوا کہ میرے پاس یہ رقم آگئی یہ سوچ کر وہ اُس بڑھئی کے پاس گیا اور ساتھ شکرئے کے وہ پانچ سو اُسے دے آیا
اُس بڑھئی کی بیٹی کی کچھ دن پہلے شادی ہوئی تھی جو آجکل اُس کے ہاں آئی ہوئی تھی اُس بڑھئی نے سوچا کہ شادی کے بعد بیٹی پہلی مرتبہ آئی ہے لہذا خالی ہاتھ واپس بھیجنے سے بہتر ہے کہ یہ پانچ سو میں اپنی بیٹی داماد کو دے دوں لہذا اُس نے وہ پانچ سو اپنے داماد کے ہاتھ پر رکھ دئے
اُس بڑھئی کے داماد نے قصبے کے قصائی کے پانچ سو دینے تھے سو اُس نے قصائی کو وہی پانچ سو دے کر اپنے قرضے سے خلاصی حاصل کی۔
کچھ دیر بعد اُس قصائی سے علاقے کے اخبار فروش نے آکر کچھ ادھار مانگا اُس قصائی نے وہی پانچ سو نکال کر اُس اخبار فروش کو دے دیئے۔
یہ اخبار فروش اسی ہوٹل میں بھی اخبار پہنچاتا تھا اور اس کے مالک سے کئی ماہ پہلے کچھ دنوں کے وعدے پر پانچ سو اُدھار لئیے تھے اور کئی ماہ گزرنےکے باوجود واپس نہ کر سکا تھا اب وہ اخبار فروش قصائی سے اُدھار لیئے ہوئے پانچ سو لا کر ہوٹل کے مالک کو ادا کر دیتا ہے۔
کچھ گھنٹوں بعد ہوٹل کے کاونٹر پر ایک فون آتا ہے جو کہ اسی فرد کے لیئے تھا اس فون کو سننے کے بعد وہ فرد کہتا ہے کہ میں معزرت چاہتا ہوں مجھے یہاں سے جانا ہے آپ چاہیں تو کچھ پیسے کاٹ کر مجھے باقی ادا کردیں ہوٹل کا مالک سوچتا ہے کہ اس کے پانچ سو کی وجہ سے میں اپنا ادھار واپس کر سکا میرے لئے یہی کافی ہے یہ سوچتے ہوئے ہوٹل کا مالک بخوشی اُسے پورے پانچ سو ادا کر تے ہوئے نہائت خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں جناب پھر کبھی ادھر آئیں تو پھر خدمت کا موقع دیجئے گا
وہ فرد اچھی یاد لے کر اس قصبے سےواپس لوٹ جاتا ہے۔
کیسا لگا یہ روپے کا چکر کسی کا کچھ بھی خرچ نہیں ہوا اور کتنوں کے کام بھی سُدھر گئے؟؟؟
Comment