372-shed
ميرا دوست اور ميں تقريبا رات کے نو بجے گاؤں کے قريب پہنچے ، ميرے پاس ہاتھ ميں ايک لاٹھي تھی، دوسرے ميں لالٹین، ميرے دوست نے بھی لاٹھی تھام رکھي تھی، اس کے دوسرے ہاتھ ميں مونگ پھليوں اور اخروٹوں والے گڑ کی پڑيا تھی۔
ہمارے ذمے دو کام تھے، پڑوس گاؤں کے نمبردار کو گڑ کا تحفہ پيش کرکے انھيں بتانا کہ ان کا بھيجا ھوا مالی بيمار ہے، اگر وہ دوسرا مالی بھيجيں تواسے ساتھ لے آئيں۔ ہم اپنے گاؤں سے دوپہر کو چلے تھے، ليکن راستے ميں میلہ لگا ھوا تھا، شام تک وہاں رہے سورج غروب ہونے تک اچانک ياد آيا کہ ابھی چار پانچ ميل کا سفر باقی ہے ، چناچہ ايک واقف کار کي دکان سے لال ٹين کرائے پر لے کر روانہ ہوئے۔
گاؤں سے سو ڈيڑہ سو گزادھرہی ہميں کتوں کے لشکر نے گھير ليا، ہمارا خيال تھا، کہ لال ٹین مدد دے گی، اور اس کی روشنی ميںکتوں کی اچھی طرح خبر لے سکيں گے، ليکن روشنی ميں کتے خوب نشانہ باندہ کر حملہ کرتے ہيں، يکا يک ميرے دوست کا ہاتھ لالٹين پر پڑا، اندھيرا ھوتے ہی افراتفری مچ گئی، اتفاق سے ميں نے ايک کتے کي دم پر پاؤں رکھ ديا، اس نے نعرہ لگايا دوسرے کتوں نے اس کا ساتھ ديا۔
ھم دونوں ايسے سرپٹ بھاگے کہ منٹوں ميں گاؤں پہنچ گئے۔ ديکھا کہ چوپال ميں لوگ بيٹھے حقہ پی رہے ہيں۔ وہ ديکھو شکاری صاحب کوئی کہانی سنا رہے ہيں، ميرا دوست بولا ۔۔۔۔۔شکاری صاحب بڑے دلچسپ انسان تھے، ان کے قصے ايسے ہوتے تھے،کہ کچھ پر يقين آتا کچھ پرنہ آتا، بڑے نڑے تو مسکراتے رہتے ليکن لڑکوں کو جو ان سے نوک جھونک بھی کرتے، ان کي باتيں پسند تھيں، خصوصا جس طرح وہ اپني کہاني کے اختتام کو يکدم موڑتے۔
معلوم ہوا کہ کسی بھوت کا قصہ شروع کرنے والے ہيں، حاضرين ميں زيادہ تعداد نوجوانوں کي تھی،جو انہيں لگاتا تار ٹوک رہے تھے، اس لئے موضوع بھی بار بار بدل جاتا ہم نے ان سے طرح طرح کے قصے سنے ليکن بھوتوں کا ذکر آج پہلی مرتبہ ہورہا تھا۔
کافی ديرہو چکي تھی، ميں نے اپنےدوست کو کہا کہ ہميں پيدل چل کر واپس اپنے گاؤں بھی پہنچناہے اس لئے فوراًً نمبردار صاحب کو گڑدے کر اور مالی کے متعلق پوچھ کر سيدھے چليں، ليکن وہ بولا آج کچھ بھي ھو شکاری صاحب کی بھوت والي کہاني ضرور سنيں گے،ہم ايک کونےميں بيٹھ گئے۔
وہ ايک شخص کا قصہ سنا رہے تھے جو ہر روز مسجد ميں صبح کي نماز پر غير حاضر ہوتا، ليکن بقيہ چاروں نمازوں کے وقت باقاعدگي سے پہنچتا، لوگ وجہ پوچھتے تو ٹال مٹول کرجاتا، آخر جب گاؤں والوں نے بہت مجبور کيا تو اس نے بتايا کہ جب وہ نماز کےلئے صبح سويرے گھر سے نکلتا ہے تو ايک بھيانک سي کالي شبہيہ اس کا راستہ روک ليتي ہے، اس طرح کہ ڈر کر اسے واپس آنا پڑتا ہے، يہ سن کر لوگ مذاق اڑانے لگے يہ کیسا ڈرپوک انسان ہے ، پھر کسی بزرگ نے مشورہ ديا، کہ اگر اس پراسرار چيز پر قابو پانا ہے تو علي الصبح دونوں ہاتھوں پر سياہي ملکر نکلو، جونہي وہ سايہ سامنے آئے ہمت کرکے سياہی اس کے منھ پر مل دينا، اس پر تو وہ اور بھی ڈرا ليکن بزرگ نے ہمت بندھائي اور چار رونا چار وہ تيار ھوگيا۔
اگلي صبح نمازی کيا ديکھتے ہيں کہ وہ شخص ہنستا ہوا چلا آرہا ہے، مسجد ميں پہنچتے ہی بڑے فخر سے بولا ، بھائيو، آج ميں نے اس شبيہہ کے منہ پر سياہی مل دی،۔ليکن لوگوں نے ديکھا ساری کالک خود اس کے چہرے پر لگي ہوئی ہے، دراصل وہ اپنے وہم سے خوف زدہ تھا، نہ کوئی سايہ تھا نہ ہی کوئی شبيہہ تھی، نہ نرا وہم تھا جس سے وہ ڈرا کرتا تھا۔ انہوں نے حقے کے کئی کش لگائے اور اپني سفيد مونچھوں کو تاؤدينے لگے۔
ميں نے اپنے دوست کوپھر ياد دلايا کہ اگر ہم فوراً نمبر دار صاحب سے مل کر واپس روانہ نہ ہوئے تو گھر والے بہت خفا ہوں گے، مگر وہ نہ مانا۔آپ کچھ اپنے متعلق بھي بتائيں، ايک نوجوان نے کہا۔ ميں نے نہايت ہی کم عمر ميں پيدا ہوا، ابھی چھوٹا ہيی تھا کہ يتيم ہونا پڑا، اور اتنے تنگ ودو وقسم قسم کے تجربوں ، محنت مشقت کے باوجود اب تک يتيم ہوں۔
آپ کا ذريعہ ما ش کيا رہا؟
کيا کہا؟ ذريعہ ماش؟ انہوں نے ڈانٹ کر پوچھا۔ جي نہيں ذريعہ معاش ۔۔۔۔يعني روزیي کے سلسلے ميں کيا کچھ کرتے رہے ہيں؟ پہلے رياستی پوليس ميں ملازم رہا ، پھر بطور شکاری کئی رياستوں راجواڑوں ميں نوکری کی۔۔۔۔۔اب شکار کے علاوہ کھيتی باڑی کا شغل ہے۔اتفاق سے ميں شروع ہی سے فضول خرچ رہا ہوں۔
کام چور بھوت
ميرا دوست اور ميں تقريبا رات کے نو بجے گاؤں کے قريب پہنچے ، ميرے پاس ہاتھ ميں ايک لاٹھي تھی، دوسرے ميں لالٹین، ميرے دوست نے بھی لاٹھی تھام رکھي تھی، اس کے دوسرے ہاتھ ميں مونگ پھليوں اور اخروٹوں والے گڑ کی پڑيا تھی۔
ہمارے ذمے دو کام تھے، پڑوس گاؤں کے نمبردار کو گڑ کا تحفہ پيش کرکے انھيں بتانا کہ ان کا بھيجا ھوا مالی بيمار ہے، اگر وہ دوسرا مالی بھيجيں تواسے ساتھ لے آئيں۔ ہم اپنے گاؤں سے دوپہر کو چلے تھے، ليکن راستے ميں میلہ لگا ھوا تھا، شام تک وہاں رہے سورج غروب ہونے تک اچانک ياد آيا کہ ابھی چار پانچ ميل کا سفر باقی ہے ، چناچہ ايک واقف کار کي دکان سے لال ٹين کرائے پر لے کر روانہ ہوئے۔
گاؤں سے سو ڈيڑہ سو گزادھرہی ہميں کتوں کے لشکر نے گھير ليا، ہمارا خيال تھا، کہ لال ٹین مدد دے گی، اور اس کی روشنی ميںکتوں کی اچھی طرح خبر لے سکيں گے، ليکن روشنی ميں کتے خوب نشانہ باندہ کر حملہ کرتے ہيں، يکا يک ميرے دوست کا ہاتھ لالٹين پر پڑا، اندھيرا ھوتے ہی افراتفری مچ گئی، اتفاق سے ميں نے ايک کتے کي دم پر پاؤں رکھ ديا، اس نے نعرہ لگايا دوسرے کتوں نے اس کا ساتھ ديا۔
ھم دونوں ايسے سرپٹ بھاگے کہ منٹوں ميں گاؤں پہنچ گئے۔ ديکھا کہ چوپال ميں لوگ بيٹھے حقہ پی رہے ہيں۔ وہ ديکھو شکاری صاحب کوئی کہانی سنا رہے ہيں، ميرا دوست بولا ۔۔۔۔۔شکاری صاحب بڑے دلچسپ انسان تھے، ان کے قصے ايسے ہوتے تھے،کہ کچھ پر يقين آتا کچھ پرنہ آتا، بڑے نڑے تو مسکراتے رہتے ليکن لڑکوں کو جو ان سے نوک جھونک بھی کرتے، ان کي باتيں پسند تھيں، خصوصا جس طرح وہ اپني کہاني کے اختتام کو يکدم موڑتے۔
معلوم ہوا کہ کسی بھوت کا قصہ شروع کرنے والے ہيں، حاضرين ميں زيادہ تعداد نوجوانوں کي تھی،جو انہيں لگاتا تار ٹوک رہے تھے، اس لئے موضوع بھی بار بار بدل جاتا ہم نے ان سے طرح طرح کے قصے سنے ليکن بھوتوں کا ذکر آج پہلی مرتبہ ہورہا تھا۔
کافی ديرہو چکي تھی، ميں نے اپنےدوست کو کہا کہ ہميں پيدل چل کر واپس اپنے گاؤں بھی پہنچناہے اس لئے فوراًً نمبردار صاحب کو گڑدے کر اور مالی کے متعلق پوچھ کر سيدھے چليں، ليکن وہ بولا آج کچھ بھي ھو شکاری صاحب کی بھوت والي کہاني ضرور سنيں گے،ہم ايک کونےميں بيٹھ گئے۔
وہ ايک شخص کا قصہ سنا رہے تھے جو ہر روز مسجد ميں صبح کي نماز پر غير حاضر ہوتا، ليکن بقيہ چاروں نمازوں کے وقت باقاعدگي سے پہنچتا، لوگ وجہ پوچھتے تو ٹال مٹول کرجاتا، آخر جب گاؤں والوں نے بہت مجبور کيا تو اس نے بتايا کہ جب وہ نماز کےلئے صبح سويرے گھر سے نکلتا ہے تو ايک بھيانک سي کالي شبہيہ اس کا راستہ روک ليتي ہے، اس طرح کہ ڈر کر اسے واپس آنا پڑتا ہے، يہ سن کر لوگ مذاق اڑانے لگے يہ کیسا ڈرپوک انسان ہے ، پھر کسی بزرگ نے مشورہ ديا، کہ اگر اس پراسرار چيز پر قابو پانا ہے تو علي الصبح دونوں ہاتھوں پر سياہي ملکر نکلو، جونہي وہ سايہ سامنے آئے ہمت کرکے سياہی اس کے منھ پر مل دينا، اس پر تو وہ اور بھی ڈرا ليکن بزرگ نے ہمت بندھائي اور چار رونا چار وہ تيار ھوگيا۔
اگلي صبح نمازی کيا ديکھتے ہيں کہ وہ شخص ہنستا ہوا چلا آرہا ہے، مسجد ميں پہنچتے ہی بڑے فخر سے بولا ، بھائيو، آج ميں نے اس شبيہہ کے منہ پر سياہی مل دی،۔ليکن لوگوں نے ديکھا ساری کالک خود اس کے چہرے پر لگي ہوئی ہے، دراصل وہ اپنے وہم سے خوف زدہ تھا، نہ کوئی سايہ تھا نہ ہی کوئی شبيہہ تھی، نہ نرا وہم تھا جس سے وہ ڈرا کرتا تھا۔ انہوں نے حقے کے کئی کش لگائے اور اپني سفيد مونچھوں کو تاؤدينے لگے۔
ميں نے اپنے دوست کوپھر ياد دلايا کہ اگر ہم فوراً نمبر دار صاحب سے مل کر واپس روانہ نہ ہوئے تو گھر والے بہت خفا ہوں گے، مگر وہ نہ مانا۔آپ کچھ اپنے متعلق بھي بتائيں، ايک نوجوان نے کہا۔ ميں نے نہايت ہی کم عمر ميں پيدا ہوا، ابھی چھوٹا ہيی تھا کہ يتيم ہونا پڑا، اور اتنے تنگ ودو وقسم قسم کے تجربوں ، محنت مشقت کے باوجود اب تک يتيم ہوں۔
آپ کا ذريعہ ما ش کيا رہا؟
کيا کہا؟ ذريعہ ماش؟ انہوں نے ڈانٹ کر پوچھا۔ جي نہيں ذريعہ معاش ۔۔۔۔يعني روزیي کے سلسلے ميں کيا کچھ کرتے رہے ہيں؟ پہلے رياستی پوليس ميں ملازم رہا ، پھر بطور شکاری کئی رياستوں راجواڑوں ميں نوکری کی۔۔۔۔۔اب شکار کے علاوہ کھيتی باڑی کا شغل ہے۔اتفاق سے ميں شروع ہی سے فضول خرچ رہا ہوں۔
Comment