Re: Poets N Poetry
Tu ne nai nasal ke jazbaat ko jis andaaz mein beyaan kia he, nai nasal tujay kabi moaaf nahi karay gi 372-haha
waise koon si kitaab se yeh sub likha he :think:
Originally posted by aabi2cool
View Post
وعلیکم السلام رسپیکٹڈ سارا باجیییییییییی !
سب سے پہلے تو اتنے اچھے موضوع کے چناؤ پر مبارک باد قبول کیجیئے اور پھر اس کے بعد سوری کہ میں ایک عرصے کہ بعد یہان وارد ہوا تو آتے ہیں براہ راست موضوع کی طرف ۔ ۔ ۔
عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ جب تک انسان کا دل دھڑکتا ہے اور اس کا دماغ سوچتا ہے تو خیال سے اور آواز سے اور رنگ سے انسان کی محبت فطری عمل ہوا کرتی ہے اور ایسے میں انسان کیلیے فنونِ لطیفہ کی "افادیت" اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اور ایسے میں شاعری جو کہ انسانی جمالیاتی حس کا بہترین پرتو ہوا کرتی ہے وہ انسان کی ان عوارض سے محبت کو فنون لطیفہ کی شکل میں تکمیل بخشتی ہے اسی لیے شاعری کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ اچھی شاعری، اور اچھی مصوری حقیقت کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ اس حسن کو حقیتِ اولٰی کہہ لیجیئے یا حسنِ مجرد، بہرحال یہ فنون انسان کے دل میں نرمی، ذہن میں گداز اور عادات میں شائستگی پیدا کرتے ہیں۔ یہ ان جذبوں کو جا کر چھوتے اور متحرک کرتے ہیں جو اگر جامد رہیں تو انسانی شخصیت کو بگاڑ کر اسے بیحد کریہہ المنظر بنا دیتے ہیں۔ چناچہ کسی نے کیا ہی خوب لکھا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فنون تہذیب اور معاشرے کا سنگار ہیں کیونکہ جس طرح ہماری اپنی شخصیت کا ایک حسن و خوبی ہوا کرتا ہے بالکل اسی طرح بحیثیت مجموعی معاشرے کی بھی ایک شخصیت ہوا کرتی ہے اور اس شخصیت کا نکھار انہی فنون کے دم سے ہے، یہی فنون ایک اجنبی معاشرے کو بتاتے ہیں کہ آپ کیا سوچتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں، قدرت کے مظاہر آپ کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔ انسان کے جسم اور اسکی روح کا حسن کتنا بے پناہ ہے۔ جب ہم کوئی شعر پڑھتے ہیں تو ہمارا خیال کتنی کائناتوں میں گھوم آتا ہے۔ جب ہم ایک تصویر دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر سوئی ہوئی کتنی نیکیاں بیدار ہوتی ہیں اور کتنے شکنجے ٹوٹتے ہیں۔ جب ہم ایک موسیقی کی تان سنتے ہیں تو ہمارے ذہن و ضمیر کے کیسے کیسے ان دیکھے اور غیر محسوس تاروں پر چوٹ پڑتی ہے۔ فنونِ لطیفہ کی یہ وہ "افادیت" ہے جسکی کوئی قیمت لگائی ہی نہیں جا سکتی، جو گراں بہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب آتے ہیں نئی نسل اور ان کے افکار کی طرف ۔ ۔ ۔
جی تو آپ نے بالکل بجا فرمایا آجکل کے شاعر اور انکی کی جانے والی اکثر شاعری ہماری نوجوان نسل کی اکثریت کو ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہی کرتی نظر آتی ہے مگر کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے ؟؟؟؟؟؟ یہ جو آجکل کی اکثر شاعری ہے یہ ہمارے آجکل کے اکثر نوجوان طبقے کو اپنے احساسات و خیالات کی ترجمانی کیوں کرتی دکھائی دیتی ہے ؟؟؟؟؟
سب سے پہلے تو اپنے بارے میں بتادوں کہ مجھے کبھی بھی شاعری کے ساتھ زیادہ شغف نہیں رہا اور جتنا تھوڑا بہت رہا بھی تو وہ پرھنے سے زایدہ سننے کی حد تک تھا وہ بھی الیکٹرونکس میڈیا کی وساطت سے اور جو تھوڑا بہت پڑھا تو ان میں سے سوائے اقبال کے کوئی بھی پسند نہیں آیا ۔ ۔ ۔ تین بہت بڑے نام شاعری میں گنوائے جاتے ہیں میر، غالب اور اقبال ان میں سے میر کو تو میں نے پڑھا ہی نہیں اور غالب کی مجھے سمجھ ہی نہ آسکی اور جو تھوڑی بہت سمجھ آئی وہ ہیں اقبال اور آپ کو تو معلوم ہی کی اقبال کی ساری شاعری فلسفہ خودی و عشق کے گرد گھومتی ہے سو اس لحاظ سے میرے نزدیک فقط اقبال ہی بطور طریق ایک ایسے آقاقی شاعر ہیں جو کہ لازوال احساسات و جزبات کی وہ ترجمانی کرتے ہیں کہ انکا طریق و منہج انقلابی ٹھرتا ہے سو اس لحاظ سے آپ کہہ سکتی ہیں کہ مجھے فقط وہ شاعری پسند ہے کہ جس کی تخیلاتی بنیاد آفاقی ہو لہزا اس لحاظ سے عشق اسکا طریق ٹھرے اور منہج اس کا انقلابی ہو کہ جس کے نتیجے میں انسان کے دل و دماغ اور جسم و روح کے اندر ایک ایسا انقلاب بپا ہوجائے کہ وہ (انسان) کسی بھی شئے کی حقیقت کو پالینے پر مصر ہوجائے ۔ ۔
رہ گئے آج کے شاعر اور انکی شاعری اور ہماری آج کی نئی نسل کی اکثریت اور انکی جمالیاتی ذوق کی پرواز کی بات تو اس پر بجائے میں خود کچھ کہیں کیوں نہ اقبال ہی کی رائے پیش کردوں ۔۔۔۔
اقبال وجود زن کو تصویر کائنات کی رنگینی کا سبب ہونے قرار دینے کے باوجود اس کا (یعنی اور نسوانیت پرستی کا ) فنکاروں کے اعصاب پر ہمہ وقت سوار رہنا پسند نہیں فرماتے اور کہتے ہیں
سب سے پہلے تو اتنے اچھے موضوع کے چناؤ پر مبارک باد قبول کیجیئے اور پھر اس کے بعد سوری کہ میں ایک عرصے کہ بعد یہان وارد ہوا تو آتے ہیں براہ راست موضوع کی طرف ۔ ۔ ۔
عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ جب تک انسان کا دل دھڑکتا ہے اور اس کا دماغ سوچتا ہے تو خیال سے اور آواز سے اور رنگ سے انسان کی محبت فطری عمل ہوا کرتی ہے اور ایسے میں انسان کیلیے فنونِ لطیفہ کی "افادیت" اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اور ایسے میں شاعری جو کہ انسانی جمالیاتی حس کا بہترین پرتو ہوا کرتی ہے وہ انسان کی ان عوارض سے محبت کو فنون لطیفہ کی شکل میں تکمیل بخشتی ہے اسی لیے شاعری کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ اچھی شاعری، اور اچھی مصوری حقیقت کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ اس حسن کو حقیتِ اولٰی کہہ لیجیئے یا حسنِ مجرد، بہرحال یہ فنون انسان کے دل میں نرمی، ذہن میں گداز اور عادات میں شائستگی پیدا کرتے ہیں۔ یہ ان جذبوں کو جا کر چھوتے اور متحرک کرتے ہیں جو اگر جامد رہیں تو انسانی شخصیت کو بگاڑ کر اسے بیحد کریہہ المنظر بنا دیتے ہیں۔ چناچہ کسی نے کیا ہی خوب لکھا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فنون تہذیب اور معاشرے کا سنگار ہیں کیونکہ جس طرح ہماری اپنی شخصیت کا ایک حسن و خوبی ہوا کرتا ہے بالکل اسی طرح بحیثیت مجموعی معاشرے کی بھی ایک شخصیت ہوا کرتی ہے اور اس شخصیت کا نکھار انہی فنون کے دم سے ہے، یہی فنون ایک اجنبی معاشرے کو بتاتے ہیں کہ آپ کیا سوچتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں، قدرت کے مظاہر آپ کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔ انسان کے جسم اور اسکی روح کا حسن کتنا بے پناہ ہے۔ جب ہم کوئی شعر پڑھتے ہیں تو ہمارا خیال کتنی کائناتوں میں گھوم آتا ہے۔ جب ہم ایک تصویر دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر سوئی ہوئی کتنی نیکیاں بیدار ہوتی ہیں اور کتنے شکنجے ٹوٹتے ہیں۔ جب ہم ایک موسیقی کی تان سنتے ہیں تو ہمارے ذہن و ضمیر کے کیسے کیسے ان دیکھے اور غیر محسوس تاروں پر چوٹ پڑتی ہے۔ فنونِ لطیفہ کی یہ وہ "افادیت" ہے جسکی کوئی قیمت لگائی ہی نہیں جا سکتی، جو گراں بہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب آتے ہیں نئی نسل اور ان کے افکار کی طرف ۔ ۔ ۔
جی تو آپ نے بالکل بجا فرمایا آجکل کے شاعر اور انکی کی جانے والی اکثر شاعری ہماری نوجوان نسل کی اکثریت کو ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہی کرتی نظر آتی ہے مگر کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے ؟؟؟؟؟؟ یہ جو آجکل کی اکثر شاعری ہے یہ ہمارے آجکل کے اکثر نوجوان طبقے کو اپنے احساسات و خیالات کی ترجمانی کیوں کرتی دکھائی دیتی ہے ؟؟؟؟؟
سب سے پہلے تو اپنے بارے میں بتادوں کہ مجھے کبھی بھی شاعری کے ساتھ زیادہ شغف نہیں رہا اور جتنا تھوڑا بہت رہا بھی تو وہ پرھنے سے زایدہ سننے کی حد تک تھا وہ بھی الیکٹرونکس میڈیا کی وساطت سے اور جو تھوڑا بہت پڑھا تو ان میں سے سوائے اقبال کے کوئی بھی پسند نہیں آیا ۔ ۔ ۔ تین بہت بڑے نام شاعری میں گنوائے جاتے ہیں میر، غالب اور اقبال ان میں سے میر کو تو میں نے پڑھا ہی نہیں اور غالب کی مجھے سمجھ ہی نہ آسکی اور جو تھوڑی بہت سمجھ آئی وہ ہیں اقبال اور آپ کو تو معلوم ہی کی اقبال کی ساری شاعری فلسفہ خودی و عشق کے گرد گھومتی ہے سو اس لحاظ سے میرے نزدیک فقط اقبال ہی بطور طریق ایک ایسے آقاقی شاعر ہیں جو کہ لازوال احساسات و جزبات کی وہ ترجمانی کرتے ہیں کہ انکا طریق و منہج انقلابی ٹھرتا ہے سو اس لحاظ سے آپ کہہ سکتی ہیں کہ مجھے فقط وہ شاعری پسند ہے کہ جس کی تخیلاتی بنیاد آفاقی ہو لہزا اس لحاظ سے عشق اسکا طریق ٹھرے اور منہج اس کا انقلابی ہو کہ جس کے نتیجے میں انسان کے دل و دماغ اور جسم و روح کے اندر ایک ایسا انقلاب بپا ہوجائے کہ وہ (انسان) کسی بھی شئے کی حقیقت کو پالینے پر مصر ہوجائے ۔ ۔
رہ گئے آج کے شاعر اور انکی شاعری اور ہماری آج کی نئی نسل کی اکثریت اور انکی جمالیاتی ذوق کی پرواز کی بات تو اس پر بجائے میں خود کچھ کہیں کیوں نہ اقبال ہی کی رائے پیش کردوں ۔۔۔۔
اقبال وجود زن کو تصویر کائنات کی رنگینی کا سبب ہونے قرار دینے کے باوجود اس کا (یعنی اور نسوانیت پرستی کا ) فنکاروں کے اعصاب پر ہمہ وقت سوار رہنا پسند نہیں فرماتے اور کہتے ہیں
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
اور میں اقبال کے اس تناظر کو زرا اور وسیع کرکے اگر زرا بڑے کینوس پر پینٹ کروں تو جو تصویر ابھرتی ہے وہ بہت ہی کریہہ منظر پیش کرتی ہے اور اس پر اکثر میں ایک سرد آہ بھر کے رہ جاتا ہوں ۔ ۔
آج ہم نے مخالف صنف میں اپنی اٹریکشن اور اسکے نتیجے میں ابھرنے والے شہوانی وسواس و خیالات کو جمالیاتی ذوق اور رومان پروری کا نام دیکر عشق جیسے پاکیزہ آفاقی و لافانی جزبے کا جس بیدردی کے ساتھ خون کیا ہے اس میں سب سے بڑا ہاتھ آج کے شاعر اور انکی شہوت پرستانہ تخیلات کو ابھارنے والی شاعری کا ہے ۔ ۔
بالکل یہی بات ڈاکٹر محبوب راہی نے بھی اپنے مقالہ " اقبال کے تصور عشق کی آفاقیت " میں رقم طراز ہوتے ہوئے کہی ہے آپ لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔
۔اقبال کا تصور عشق جو ایک آفاقی یا تکوینی جذبے سے وابستہ ہے جس پر اقبال نے اپنے موضوعاتی اشعار کی
بنیادیں استوار کی ہیں وہ عشق ہر گز ہر گز نہیں ہے جس کے وسیلے سے ہماری بیشتر غزلیہ شاعری اور فلمی گیتوں میں بدن کی جمالیات سے متعلق فحاشی اور عریانیت کی تشہیر و تر سیل کرتے ہوئے سفلی جذبات کی ترجمانی اور نفسانی خواہشات یعنی شہوانیت کی تسکین کے اسباب فراہم کئے جاتے ہیں اور جسے ارباب ہوس نے عشق مجازی سے موسوم کرتے ہوئے عشق جیسے آفاقی ،مقدس اور پاکیزہ جذبے کو خواہ مخواہ حقیقی اور مجازی کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور اس طرح اپنی فکر کی عریانی اور تخیل کی بے لباسی کو ایک خوش رنگ طلسمی اور خیالی قبا سے چھپانے کی سعی نا تمام کی ہے ۔عشق مجازی اور بدن کی جمالیات دونوں کی اصل میرے نزدیک ایک لذت انگیزی اور لطف آموزی کے ایک قطعی عارضی وقتی اور ہنگامی خوشگوار جھونکے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔وہ عشق مجازی جو بدن کی جمالیات بالفاظ دیگر شہوانی خواہشات سے وابستہ ہے لذت انگیزی کی چند ہیجانی ساعتوں یا عمر کی چند برسوں کی ایک متعینہ مدت پر محیط ہوتا ہے جسے ایام شباب یا پھر امنگوں کی راتیں مرادوں کے دن سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اس کے گزرتے ہی عشق کا سارا نشہ ہرن یعنی ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ جاتا ہے ۔پھر وہ عشق کیونکر ہوا کہ عشق تو حیات و کائنات کی رگ و پے میں روح رواں کی طرح جاری و ساری ایک ابدی اور لازوال جذبہ ہے بقول شاعر
عشق ہی عشق ہے جدھر دیکھو سارے عالم پہ چھا رہا ہے عشق
یہی آفاقی اور لافانی جذبہ عشق جسے موت بھی مار نہیں سکتی
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
اور میں اقبال کے اس تناظر کو زرا اور وسیع کرکے اگر زرا بڑے کینوس پر پینٹ کروں تو جو تصویر ابھرتی ہے وہ بہت ہی کریہہ منظر پیش کرتی ہے اور اس پر اکثر میں ایک سرد آہ بھر کے رہ جاتا ہوں ۔ ۔
آج ہم نے مخالف صنف میں اپنی اٹریکشن اور اسکے نتیجے میں ابھرنے والے شہوانی وسواس و خیالات کو جمالیاتی ذوق اور رومان پروری کا نام دیکر عشق جیسے پاکیزہ آفاقی و لافانی جزبے کا جس بیدردی کے ساتھ خون کیا ہے اس میں سب سے بڑا ہاتھ آج کے شاعر اور انکی شہوت پرستانہ تخیلات کو ابھارنے والی شاعری کا ہے ۔ ۔
بالکل یہی بات ڈاکٹر محبوب راہی نے بھی اپنے مقالہ " اقبال کے تصور عشق کی آفاقیت " میں رقم طراز ہوتے ہوئے کہی ہے آپ لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔
۔اقبال کا تصور عشق جو ایک آفاقی یا تکوینی جذبے سے وابستہ ہے جس پر اقبال نے اپنے موضوعاتی اشعار کی
بنیادیں استوار کی ہیں وہ عشق ہر گز ہر گز نہیں ہے جس کے وسیلے سے ہماری بیشتر غزلیہ شاعری اور فلمی گیتوں میں بدن کی جمالیات سے متعلق فحاشی اور عریانیت کی تشہیر و تر سیل کرتے ہوئے سفلی جذبات کی ترجمانی اور نفسانی خواہشات یعنی شہوانیت کی تسکین کے اسباب فراہم کئے جاتے ہیں اور جسے ارباب ہوس نے عشق مجازی سے موسوم کرتے ہوئے عشق جیسے آفاقی ،مقدس اور پاکیزہ جذبے کو خواہ مخواہ حقیقی اور مجازی کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور اس طرح اپنی فکر کی عریانی اور تخیل کی بے لباسی کو ایک خوش رنگ طلسمی اور خیالی قبا سے چھپانے کی سعی نا تمام کی ہے ۔عشق مجازی اور بدن کی جمالیات دونوں کی اصل میرے نزدیک ایک لذت انگیزی اور لطف آموزی کے ایک قطعی عارضی وقتی اور ہنگامی خوشگوار جھونکے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔وہ عشق مجازی جو بدن کی جمالیات بالفاظ دیگر شہوانی خواہشات سے وابستہ ہے لذت انگیزی کی چند ہیجانی ساعتوں یا عمر کی چند برسوں کی ایک متعینہ مدت پر محیط ہوتا ہے جسے ایام شباب یا پھر امنگوں کی راتیں مرادوں کے دن سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اس کے گزرتے ہی عشق کا سارا نشہ ہرن یعنی ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ جاتا ہے ۔پھر وہ عشق کیونکر ہوا کہ عشق تو حیات و کائنات کی رگ و پے میں روح رواں کی طرح جاری و ساری ایک ابدی اور لازوال جذبہ ہے بقول شاعر
عشق ہی عشق ہے جدھر دیکھو سارے عالم پہ چھا رہا ہے عشق
یہی آفاقی اور لافانی جذبہ عشق جسے موت بھی مار نہیں سکتی
Tu ne nai nasal ke jazbaat ko jis andaaz mein beyaan kia he, nai nasal tujay kabi moaaf nahi karay gi 372-haha
waise koon si kitaab se yeh sub likha he :think:
Comment