Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
! Saraah K Liye !
Collapse
X
-
Comment
-
Re: ?!? Saraah K Liye ?!?
Originally posted by saraah View Post:rose
لفظِ احسان کا مادہ
امام راغب اصفہانی لفظ حسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا حسین ہونا ہے جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو اور تیسرا یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے پر کشش ہو۔
راغب اصفهانی، مفردات القرآن :
قرآن حکیم کی رو سے احسان کا مفہوم کیا ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنَوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا، وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ
المائده، 5 : 93
پھر فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ
التوبه، 9 : 119
ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی سنگت اختیار کرو۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.
الفاتحه، 1 : 5، 6
یہ انعام یافتہ بندے کون ہیں۔ اس کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر فرمائی ہے :
فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا
النساء، 4 : 69
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں احسان کا مفہوم کیا ہے؟
امام بخاری اور امام مسلم کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ایک روز جبریل امین علیہ السلام بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کے لیے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أن تؤمن باﷲ و ملائکته و کتبه و رسله واليوم الآخر و تؤمن بالقدر خيره و شره.
انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أن تشهد أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمدا رسول اﷲ، و تقيم الصلاة، و تؤتی الزکاة، و تصوم رمضان، و تحج البيت إن استطعت إليه سبيلا.
اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الإحسان اَنْ تَعْبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَکنْ تَرَاهُ فَإنَّه يَرَاکَ.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہوجائے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 27، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن الايمان و السلام و الاحسان
ایمان، اسلام اور احسان کا دین میں کیا مقام ہے؟
مذکورہ بالا حدیث جبریل میں دین کی تین بنیادی ضروریات کا بیان ملتا ہے جن میں پہلی ضرورت ایمان ہے۔ ایمان کی تعریف میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو امور بیان فرمائے ہیں ان کا تعلق بنیادی طور پر عقائد و نظریات سے ہے اور عقائد سے تعلق رکھنے والے علم کو اصطلاحی طور پر علم العقائد کہتے ہیں۔
اسلام کی تعریف میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پانچ ارکان بتلائے ہیں ان سب کا تعلق ظاہری اعمال اور عبادات سے ہے۔ اس علم کو شریعت کی اصطلاح میں علم الاحکام یا علم الفقہ کہتے ہیں۔حدیث مبارکہ کی رو سے دین کی تیسری ضرورت احسان ہے اور انسان کو یہ درجہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس میں ایمان اور اسلام دونوں جمع ہو جائیں۔ گویا اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زبان سے اقرار اور دل سے جو تصدیق کی، اس کا عملی اظہار اور پھر اپنے اعمال اور ظاہری عبادات کو حسن نیت اور حسن اخلاص کے اس کمال سے آراستہ کیا کہ اس کے اعمال اور عبادات اس کی تصدیق بالقلب کا آئینہ دار بن گئے۔ اس مرحلہ پر انسان درجہ احسان پر فائز ہو جاتاہے اور اسے باطنی و روحانی کيفیات نصیب ہو جاتی ہیں۔ پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ احسان کا موضوع باطنی اور روحانی کيفیات کے حصول سے متعلق ہے۔
پروفیسر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کی کتاب احسان سے اقتباسLast edited by aabi2cool; 25 March 2009, 13:43.ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
-
Originally posted by saraah View Postnext Question:
Aabi Bhai Aap Ne Bohat Pehlay Ek Tojeeh Pesh Krni Thi...k Ilam ..amal Se Behtar Hai....
Chalain Medaan Me Aajyen...... پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں پر یہ ساری بات ہوئی تھی آپ وہ حوالہ ذکر کریں اور دوسرے یہ کہ میرے خیال میں میں نے یہ کہا تھا کہ علم مرتبے میں عمل سے پہلے ہے اور افضل ہے کیونکہ اسے تقدیم حاصل ہے اور علم کی یہ تقدیم نقلی بھی ہے اور عقلی بھی ہے ۔۔
نقل سے ایک حوالہ ذکر کرتا چلوں کہ جس میں دیگر تمام نقلی حوالاجات بھی آجائیں گے امام بخاری نے اپنی کتاب الجامع الصحیح المسندالمختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المعروف بخاری شریف میں کتاب العلم پر ایک باب ۔باب الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ
کہ علم کا مرتبہ قول اور عمل سے پہلے ہے باندھا ہے کس کا عربی متن درج زیل ہے ۔ ۔ ۔ ۔۔
باب الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ
لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ} فَبَدَأَ بِالْعِلْمِ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
،ترجمہ :-علم کا مرتبہ قول اور عمل سے پہلے ہے اس کی دلیل اللہ پاک کا یہ فرمان ہے یہ بات جان لو کہ اللہ پاک کہ سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس آیت میں اللہ پاک نے علم (یعنی جاننے ) سے آغاز کیا ہے ۔ ۔ ۔۔
یعنی امام بخاری نے علم کہ مرتبہ، کی اولیت کی دلیل یہ دی ہے کہ اللہ پاک نے اپنی معبودیت کو پہلے جان لینے سے تعبیر فرمایا ہے لہزا جب بندہ جانتا ہے تو تب مانتا ہے جب جانتا ہی نہیں تو ماننا کیسا؟ اور عقلی یعنی بدیہی طور پر دیکھا جائے تو ہر عمل عبارت ہے علم سے کوئی بھی عمل انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر علم ہی کی بنیاد پر کرتا ہے اب یہ الگ بات ہے کہ ہر فعل کا فاعل اس فعل کو سرزد یعنی انجام دینے سے پہلے شعوری سطح پر کس حد تک اس عمل سے واقفیت رکھتا ہے . اور اگر کسی فاعل کو کسی فعل کا علمی ادراک شعوری سطح پر حاصل نہ ہو تو پھر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہرچند کہ فاعل کو اپنے فعل کہ وقوع سے پہلے اس کا شعوری ادراک حاصل نہیں ہوا مگر فاعل کا اس فعل کو انجام دینا بھی اس کہ مذکورہ فعل پر ایک طرح سے علمی ادراک کی نشانی ہے اگرچہ اس کا ادراک (بمعنی علم ) غیر شعوری طور پر یا شعور کی انتہائی کم ترین سطح پر ہی کیوں نہ ہوا ہو ۔ ۔ ۔ . . میری ناقص عقل میں ہر عمل اپنے وقوع سے پہلے علمی اعتبار سے انسان کہ شعور میں جگہ پاتا ہے اور جب وہ انسان اس عمل کا علمی ادراک حاصل کرلیتا ہے تو پھر اسے عملی شکل میں لانے کہ لیے اس عمل کو جو کہ ابھی تک علمی سطح پر اس کہ دماغ میں تھا کو وقوع پذیر کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بات کچھ فلسفیانہ رنگ اختیار کرگئی لیکن امید کرتا ہون سمجھ میں آگئی ہوگئی ۔ ۔ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
-
Originally posted by aabi2cool View Post پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں پر یہ ساری بات ہوئی تھی آپ وہ حوالہ ذکر کریں اور دوسرے یہ کہ میرے خیال میں میں نے یہ کہا تھا کہ علم مرتبے میں عمل سے پہلے ہے اور افضل ہے کیونکہ اسے تقدیم حاصل ہے اور علم کی یہ تقدیم نقلی بھی ہے اور عقلی بھی ہے ۔۔
کہ علم کا مرتبہ قول اور عمل سے پہلے ہے باندھا ہے کس کا ۔ ۔۔ ۔ ۔
،ترجمہ :-علم کا مرتبہ قول اور عمل سے پہلے ہے اس کی دلیل اللہ پاک کا یہ فرمان ہے یہ بات جان لو کہ اللہ پاک کہ سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس آیت میں اللہ پاک نے علم (یعنی جاننے ) سے آغاز کیا ہے ۔ ۔ ۔۔
یعنی امام بخاری نے علم کہ مرتبہ، کی اولیت کی دلیل یہ دی ہے کہ اللہ پاک نے اپنی معبودیت کو پہلے جان لینے سے تعبیر فرمایا ہے لہزا جب بندہ جانتا ہے تو تب مانتا ہے جب جانتا ہی نہیں تو ماننا کیسا؟ اور عقلی یعنی بدیہی طور پر دیکھا جائے تو ہر عمل عبارت ہے علم سے کوئی بھی عمل انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر علم ہی کی بنیاد پر کرتا ہے اب یہ الگ بات ہے کہ ہر فعل کا فاعل اس فعل کو سرزد یعنی انجام دینے سے پہلے شعوری سطح پر کس حد تک اس عمل سے واقفیت رکھتا ہے . اور اگر کسی فاعل کو کسی فعل کا علمی ادراک شعوری سطح پر حاصل نہ ہو تو پھر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہرچند کہ فاعل کو اپنے فعل کہ وقوع سے پہلے اس کا شعوری ادراک حاصل نہیں ہوا مگر فاعل کا اس فعل کو انجام دینا بھی اس کہ مذکورہ فعل پر ایک طرح سے علمی ادراک کی نشانی ہے اگرچہ اس کا ادراک (بمعنی علم ) غیر شعوری طور پر یا شعور کی انتہائی کم ترین سطح پر ہی کیوں نہ ہوا ہو ۔ ۔ ۔ . . میری ناقص عقل میں ہر عمل اپنے وقوع سے پہلے علمی اعتبار سے انسان کہ شعور میں جگہ پاتا ہے اور جب وہ انسان اس عمل کا علمی ادراک حاصل کرلیتا ہے تو پھر اسے عملی شکل میں لانے کہ لیے اس عمل کو جو کہ ابھی تک علمی سطح پر اس کہ دماغ میں تھا کو وقوع پذیر کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بات کچھ فلسفیانہ رنگ اختیار کرگئی لیکن امید کرتا ہون سمجھ میں آگئی ہوگئی ۔
۔
ji aagyi samjh....:thmbup:
shukria. aabi bhai .........:rose
aur wo apka koi thraed thaa title yaad nae aaraha.....:mm:Last edited by saraah; 27 March 2009, 13:54.شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا
Comment
Comment