Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Such....?

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Such....?

    میرے پسندیدہ لکھاریوں میں سے ایک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ید بیضاء کی تحریر سے کچھ حصہ شئیر کر رہی ہوں۔۔۔
    ایڈمن سر اگر میں غلط جگہ پر پوسٹ کررہے ہوں تو اس کو سیکشن میں کر دیا جائے تاکہ آگے غلطی نہ ہوئے۔۔۔۔


    دسمبر کی اس یخ بستہ بھیگی رات کو کیسے فراموش کیا جائے جب جلیل نے زندگی کا سچ سمجھایا تھا۔ ٹرین آٹھ گھنٹے لیٹ تھی۔ رات کسی پہر آب گم سٹیشن پر پہنچے تو اطلاع ملی کہ ٹرین مزید تین گھنٹے یہیں کھڑی رہے گی۔ ہم چھٹیاں منانے گھر جا رہے تھے۔ ڈبے میں ہم کوئی سات طلباء تھے جو اسلام آباد سے کوئٹہ جا رہے تھے۔ تاش اور لڈو سے تھک کر ارسطوگان ملت نے ”سچ“ کو تختہ مشق بنا لیا۔ Correspondence Theory پر بحث جاری تھی۔ تھوڑی دیر بعد ڈبے میں ایک سترہ ، اٹھارہ برس کا لڑکا داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک تھالی جس میں کچھ باسی کلچے تھے۔ رات کے اس پہر پانچ روپے کا باسی کلچہ بھی غنیمت تھا۔ حسب عادت غیر ضروری طور پر میں نے لڑکے کا نام پوچھا۔ ج ج جلیل۔ اس کی زبان میں لکنت تھی۔ اس کی توجہ میرے بجائے دوستوں کی جانب تھی جو سچ کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ایک خالی خالی سی نگاہ اس نے مجھ پر ڈالی اور منہ قریب لا کر آہستہ سے بولا۔ س س سچ کو کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ س سچ یہ ہے کہ کہ میں میں اور آپ زندہ ہیں ہیں۔ (سچ کچھ نہیں ہوتا۔ سچ یہ ہے کہ میں اور آپ زندہ ہیں)۔

    برسوں پہلے کسی کہانی میں پڑھا تھا۔ بھکشو نے لامہ سے پوچھا ، سچ کیا ہے مہاراج؟
    لامہ تھوڑی دیر خاموش رہا۔ پھر گویا ہوا۔ سچ لمحہ موجود میں جینے کا نام ہے۔

    عرض ہے کہ زندگی موت کے بطن میں پلتی ہے۔

    ایک درد یہ تھا۔ ایک ملال مگر جینے میں بھی ہے۔ زندگی کی بہاروں میں پل پل کچھ دکھوں کے خسارے پوشیدہ ہیں۔ ایسا عام ہوتا ہے کہ کوئی دوست ناراض ہو جائے تو سوچتے ہیں ٹھیک ہے منا لیں گے۔ کبھی خیال آتا ہے میں کیوں بار بار مناﺅں۔ اس بار غلطی اس کی ہے۔ وہ منائے تو ٹھیک ورنہ میں نہیں منانے لگا۔ ماں کبھی غصہ کرتی ہے تو ہم ہاتھ جھاڑ کر کہتے ہیں ماں تم بھی ناں۔ بہن کوئی فرمائش کرتی ہے تو کہتے ہیں ایک تو تمہاری فرمائشیں ختم نہیں ہوتیں۔ چھوٹا بھائی پیسے مانگتا ہے تو کہتے ہیں میں درختوں سے نہیں اتارتا۔ ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن سے ہم روز کچھ رشتوں، کچھ محبتوں، کچھ امنگوں کے ڈور الجھا دیتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ زندگی کی خوبصورتی انہی رشتوں میں تو ہے۔ گھر ریت بجری کی آمیزش سے تیار ڈھانچے کو نہیں کہتے۔ ان رشتوں سے گوندھے محبت کو گھر کہا جاتا ہے۔ ہم بہت کچھ مستقبل کی نظر کر دیتے ہیں۔ کل منا لیں گے۔ کل بات کر لیں گے۔ کل دیکھا جائے گا۔ کبھی کبھی یہ کل نہیں آتا۔ زندگی کے ورق پر آخری لفظ ’ بہت ضروری‘ لکھا رہ جاتا ہے۔

    جلیل نے کہا تھا ، سچ یہ ہے کہ میں اور آپ زندہ ہیں۔ لامہ نے کہا تھا سچ لمحہ موجود میں جینے کا نام ہے۔ میں نہ لامہ ہوں اور نہ جلیل۔ گیان بانٹنا ان جیسے آشفتہ سروں کا کام ہے۔ میں تو ایک عام انسان ہوں۔ یہ سوال خود سے کر رہا ہوں کہ کیا میں نے کبھی لمحہ موجود میں جینے کو اہم سمجھا ہے؟ میرا جواب نفی میں زیادہ ہے۔ آپ اپنے دل سے پوچھ کر اپنا جواب خود ڈھونڈیں۔ لمحہ موجود کا سچ مگر جان لینا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ میں اور آپ ابھی زندہ ہیں۔

    Last edited by crystal_thinking; 24 September 2016, 22:39.
    میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

  • #2
    سچ
    tumharey bas mein agar ho to bhool jao mujhey
    tumhein bhulaney mein shayid mujhey zamana lagey

    Comment


    • #3
      یہ انهوں نے کوئٹہ کے سانحہ پہ لکها تها ان کے قریبی 5 وکیل اس حادثے کا شکار ہوئے... لیکن بات حقیقت ہے
      میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

      Comment


      • #4
        bohut acha likka giya hai....................

        Comment


        • #5
          جی یہ سانحہ کوئٹہ پہ لکها تها انهوں نے جس میں ان کے قریبی دوستی جان بحق ہو گے تهے وہ بهی پانچ... ان میں سے ایک کے بهائی نے لکها دیکها تها... بہت ضروری... اور وہ ضروری کام موت نے ٹال دیا... اور سچ یہی نکلا کہ ہم اس لمحہ میں زندہ ہیں....
          میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

          Comment

          Working...
          X