ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں
مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت پہ ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
اسلام علیکم اقبال علیہ رحمہ کی اس تخلیق پر کچھ گفتگو ہوجائے لیکن خیال رہے کہ گفتگو ادبی رہنی چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Comment