بالی ووڈ کے نوجوان گلوکار سونو نگم کا شمار ان گلوکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے بہت کم وقت میں پوری فلم انڈسٹری کو اپنی آواز کا دیوانہ بنادیا۔
سونو نگم نہ صرف ایک خوبصورت گلے کے مالک ہیں بلکہ دیکھنے میں بھی وہ کسی فلم کے ہیرو سے کم نہیں ہے۔ بی بی سی ہندی کے ہندوستان ایڈیٹر سنجیو شری واستو نے ایک خاص ملاقات میں سونو نگم سے انکی زندگی کے ان چھوئے پہلوؤں پر بات کی۔ پیش ہے سونو نگم کے ساتھ کیے گئے انٹریو کا متن۔
س: مجھے پتہ چلا کہ آپ نے ساڑھے تین سال کی عمر سے ہی گانا شروع کردیا تھا۔ آپ کی والد گلوکار تھے تو کیا گلوکار بننے کی بات شروع سے ہی من میں تھی؟
ج: میں یہاں مذہب کو بیچ میں لانا چاہوں گا۔ جیسے کسی بچے کو شروع سے بتایا جاتا ہے کہ وہ ہندو ہے، مسلمان، یہ عیسائی تو اسے لگتا ہے یہی دنیا ہے۔اسی طرح جب میں نے آنکھ کھولی تو میرے چاروں طرف سٹیج شوز تھے، کانسرٹس تھے۔ کبھی پاپا اسٹیج پرگا رہے تھے تو کبھی ممی۔ اس سے مجھے لگنے لگا کہ یہی دنیا ہے اور میں بھی یہی کروں گا۔ کبھی ممی پاپا نے نہیں کہا کہ گلوکار بننا ہے۔
س: کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب شروع شروع میں گاتے تھے اس پر رفیع صاحب کا گہرا اثر دکھائی دیتا تھا؟
ج: اس سچائی کو ہم کبھی جھٹلا نہیں سکتے۔ جب میں ممبئی میں گلوکار بننے آیا تھا تو میری یہی کوشش رہتی تھی کہ میں رفیع صاحب کی طرح گاؤں۔ جیسے لتا جی جب آئیں تھیں تو وہ نورجہاں جیسا گاتی تھیں اور رفیع صاحب خود کہتے تھے وہ جی ایم درانی سے متاثر تھے۔ اس لیے یہ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی کسے کو سنے بنا یا کسی سے متاثر ہوئے گا سکتے ہیں۔
سونو نگم کا کہنا ہے کہ آواز کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے وہ ریاض کرتے ہیں
س:آپ نے بچپن سے ہی کام شروع کردیا تھا لیکن ہم لوگوں کو یاد ہے کہ آپ کی پہلی امیج ’زی سارے گاما شو‘ کی ہے۔ ہمیں ہمیشہ لگتا تھا کہ آپ اتنا اچھا گاتے ہیں لیکن یہ بات دل کو چھو جاتی کہ آپ مہمانوں کو بہت عزت دیتے تھے۔ آپ اصل زندگي میں ہی اتنا نرم مزاج ہیں یا یہ سوچ رکھا تھا کہ ایسا کرنا ہے؟
ج: سچ پوچھیے تو اس کے علاوہ کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ جب شو پر روی شنکر جی، غلام مصطفی جی، نوشاد جی، پروین سلطانہ جیسے لوگ جج کی شکل میں آئیں گیں تو کوئی غرور دکھا سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہندوستانی کلاسیکی میوزک اور فلم میوزک کی شروعات ہوئی۔ اس لیے میرے پاس اس شو کی میزبانی کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا۔ یہ انداز میرے دل سے نکلتا تھا۔
س: ’سا رے گاما‘ کی میزبانی کرنے کے دوران ہی فلموں میں گانے کا موقع ملا یہ پھر اس کے پہلے یا بعد میں؟
ج: میں 1991 میں ممبئی آیا تھا اور سا رے گا ما 1995 میں شروع ہوا تھا۔ چار سال تک ممبئی میں نے بہت جدوجہد کی اور میرے پاس بہت کام تھا۔حالانکہ ’اچھا صلہ دیا تونے میرے پیار کا۔۔‘ البم بہت مقبول ہوا۔ اس پر’بے وفا صنم‘ نام کی بھی فلم بھی بنی ۔ فلموں میں مجھے پہلا بڑا بریک بارڈر فلم میں’سندیسے آتے ہیں۔۔‘ سے ملا اور اس کے بعد پردیس فلم کا گانا ملا۔
س: آپ نے کہا کہ چار سال آپنے بہت محنت کی کیسے تھے وہ دن؟
ج: میں جب 18 برس کا تھا تو پاپا کے ساتھ ممبئی آیا تھا۔ ہم دونوں نے میوزک ڈائریکٹروں کے دفتروں کا بہت خاک چھانی ہے۔ ہم لوگوں کی جدوجہد خاص طور سے جذباتی تھی۔ میں اپنے اسکول کا ٹاپر تھا اور سبھی بہت عزت کرتے تھے۔ جب میں ممبئی پہنچا تو دفتروں کے چپراسی بھگا دیتے تھے تو بہت برا لگتا تھا۔
سونو نگم نے ساڑھے تین برس کی عمر میں ہی اسٹیج پر گانا شروع کردیا تھا
س: آپ کی آواز اتنی اچھی ہے اس کا احساس کب ہوا آپکو؟
ج:یہ بات مجھے بچپن سے پتہ تھی۔ اس میں غرور والی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کو اپنی کمزوریوں اور اچھائیوں کا علم ہونا چاہیے۔ میں بچپن میں محمد رفیع اور کشور کمار کی طرح سے گانے کی کوشش کرتا تھا۔ اس کے بعد کمار شانو، ادت نارائن، اور ابھیجیت بھٹاچاریہ کے اسٹائل میں بھی گالیتا تھا۔ میں ہی ایک ایسا گلوکار تھا جو اتنے سارے لوگوں کی آواز میں گا سکتا تھا اور یہ میں بچپن سے جانتا تھا۔
س: آج بھی ریاض کرتے ہیں یا نہیں؟
ج: میرے لیے ریاض بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ میں پیدائشی گلوکار نہیں ہوں۔
س: آپ کی مقبولیت کا دور شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی آپ کے رویے کے بھی تذکرے ہونے لگے۔ مقبولیت کے بعد کسی طرح کی تبدیلی محسوس کی اپنے آپ میں؟
ج: مجھے نہيں لگتا کہ مقبولیت کے بعد کسی نے میرے رویے کی شکایت کی بلکہ مجھے تو افسوس ہے کہ میرے بارے اس طرح کی کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ میں آج لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ ایک گانا ہٹ ہوا یا کوئي اعزاز ملا تو بڑی بڑی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ میں تو ہمیشہ لوگوں کے لیے آسانی سے کام کرنے کی حامی بھر دیتا ہوں اور سستے میں کام کرتا ہوں۔ جب میرے پاس کام ہوتا ہے تو کچھ کام لیے منع تو کرنا ہی پڑے گا۔ ایسے میں جن لوگوں کے ساتھ کام نہیں کروں گا انہیں برا تو لگے گا ہی۔
س: آپ نے ’سندیسے آتے ہیں۔۔‘ گانے کے لیے اعزاز لینے سے انکار کر دیا تھا۔کیوں؟
ج: اس گانے کو روپ کمار راٹھور میں نے مل کر گایا تھا۔ ایوارڈ کے لیے انہیں منتخب بھی نہیں کیا گیا۔ میں خود پرست ہو کر نہیں جی سکتا۔ میں جانتا ہوں کے روپ کمار میرے لیے ایسا نہيں کرتے۔ میں نے ایوارڈ دینے والوں سے کہا بھی کہ ان لوگوں نے یہ غلط کیا ہے۔ انہیں ہم دونوں کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جس کو وہ چاہتے اعزاز سے نوازتے۔ یہ بات بھارت میں بہت غلط ہے۔ ایوارڈ ٹیلنٹ کو فروغ دینے کی بجائے مارکیٹنگ کا کھیل بن گیا ہے۔
رویے کی شکایت نہیں ہوئي۔
میں آج لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ ایک گانا ہٹ ہوا یا کوئي اعزاز ملا تو بڑی بڑی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ میں تو ہمیشہ لوگوں کے لیے آسانی سے کام کرنے کی حامی بھر دیتا ہوں اور سستے میں کام کرتا ہوں۔ جب میرے پاس کام ہوتا ہے تو کچھ کام لیے منع تو کرنا ہی پڑے گا۔ ایسے میں جن لوگوں کے ساتھ کام نہیں کروں گا انہیں برا تو لگے گا ہی۔
سونو نگم، گلوکار
س: آپ نے فلموں میں بھی کام کیا ہے۔ کبھی دل میں یہ خیال آتا ہے کہ زبردست سٹار بن جاؤں؟
ج: میرے پاس تقریباً 75 فلموں کے سکرپٹ آئے تھے۔ اس وقت میں نے جذبات میں آ کر اور دوستوں کے کہنے پر کچھ فلمیں کی۔ میں بطور اداکار ان فلموں کا حصہ بنا تھا۔ میں نے اپنا کام بخوبی کیا لیکن فلم کی خراب کارکردگی کے لیے ذمہ دار دوسری چیزیں میرے ہاتھوں میں نہیں تھی۔ مجھ سے ہر کوئی پوچھتا ہے کہ آپ نے فلم ’جانی دشمن‘ کیوں کی۔ یہ فلم سپرہٹ تھی لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ فلم بہت خراب بنی تھی۔ تو جب مجھ سے کوئی یہ سوال کرتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ یہ سوال اکشے کمار، سنیل شیٹی، سنی دیول، منیشا کوئرالا جیسے اس فلم میں کام کرنے والے ستاروں سے پوچھو۔ خراب فلم بنانے کے بعد سب کا نقصان ہوا لیکن میرا زيادہ کیونکہ یہ میری پہلی فلم تھی۔
میری فلم ’لو ان نیپال‘ اچھی بنی تھی لیکن اسے کسے نے دیکھا نہیں۔ ان تجربات کے بعد میں نے فلموں میں کام کرنے سے منع کردیا۔حالانکہ ایک سکرپٹ ہے جس کے لیے میرا دوست چھ سال سے میرے پیچھے پڑا ہے۔ میں نے اسے کہہ رکھا ہے کہ پروڈیوسر اچھا چاہیے۔ میرے دماغ میں ابھی تو کوئی فلم نہیں ہے لیکن ایک بار اچھی فلم کرنی ضرور ہے۔
س: کوئی اور تمنا دل میں؟
ج: اگلے دس پندرہ سالوں میں میوزک انڈسٹری میں کمپنی کھولنے کی خواہش ہے تاکہ قابل لوگوں کو آسانی سے کام مل سکے اور ان راستوں سے نہ گزرنا پڑے جن سے ہم گزرے ہیں۔