مجھے محبت ہو گئی ہے ۔ ہرررا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیل کی عجیب حالت تھی - ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہواؤں میں اڑ رہا ہو- اپنے کمرے تک منہ چھپا کے گیا تھا اس کی مسکراہٹ نہیں رک رہی تھی کیا کرتا بیچارہ، محبت ہو گئی تھی آخر-
گھر والوں کو شک گزرا اور جب کچھ سمجھ نہ آیا تو زہیر جو کہ اس کا دوست تھا کو بلایا گی.عبدالقدوس ر اپنے ایک پٹھان دوست دانی ن جو کہ نیا آیا تھا اس علاقہ میں کو بھی ساتھ لایا۔تینوں اچھے دوست ہیں
خلیل نے مہمان خانے میں بٹھایا ااور جلدی سے چائے بسکٹ لانے کے بعد دروازہ بند کر دیا-
اس کے بعد بڑے خفیہ انداز میں آہستہ سے اپنے دوست کو بتایا کہ اسے محبت ہو گئی ہے۔چہرے پے بے پناہ خوشی اور شرمیلی سی مسکراہٹ تھی۔ بقول شخصے اس سے بتیسی نہیں سنبھالی جا رہی تھی۔
.عبدالقدوس: کیا کہہ رہے ہو :o۔ کب کس سے :no۔ کیوں۔۔۔
کمال وہ پانچویں گلی میں اس کا مکان ہے۔ نام ابھی پتا نہیں۔
.عبدالقدوس : محبت کب ہوئی کل تو تم ٹھیک تھے :con-
خلیل: آج ہوئی ہے ۔کبھی کبھی ہماری ایک دوسرے پر نظر پڑتی تھی آج صبح جب میں وہاں سے گزرا تو وہ میری طرف دیکھ کے مسکرائی تھی۔
دانی: خلیل تمہارا خالہ کو دکاندار سے محبت ہو گیا ہے خانہ خرابا
خلیل: کیا بکواس کر رہے ہو۔ کس دکاندار سے خلیل کی حالت غصے اور پریشانی سے بری ہو گئی۔
دانی: تمہارا خالہ ہر روز چاچا دینو کی دکان کو جاتا ہے کل میں نے خود دیکھا وہ چاچا دینو سے مسکرا مسکرا کر بات کر رہی تھی-
عبدالقدوس: سمجھتے ہوئے انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہنے لگا بھئی مسکرانے سے محبت نہیں ہو جاتی کیو خلیل
خلیل: تو اور کیا چاچا دینو کو خالہ چاچا کہتی ہے۔
عبدالقدوس: خلیل پچھلے چند دن میں کون سی فلم دیکھی ہے۔
خلیل: کیا زبردست فلم ہو دل والے دلہنیا لے جائینگے ۔ میں نے پانچ بار اب تک دیکھی ہے۔
عبدالقدوس ۔ اچھا دیکھ نام تک جانتے نہیں ۔ صرف مسکرانے سے محبت ھو گئی۔ 17 عمر ہے ابھی ۔ اس مقام تک پہنچنا ہے جہاں تم سب کو خوشیان دے سکو۔
خلیل: محبت اندھی ہوتی ہے ۔ بس مجھے نصیحت کی ضرورت نہیں۔ مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا -
اب عبدالقدوس اور دانی نے گھر والوں کو بتا دیا۔ خفیہ اجلاس میں کمال کے ڈیدی کا رنگ غصے سے لال تھا۔
خلیل کی ماں بار بار کہہ رہی تھی کی قصور اس لڑکی کا ہے میرا کمال تو بھولا ہے-
ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ نئی ہمسائی آ گئی -دو ملاقاتوں میں خلیل ہ ل کی ماں کی بڑی اچھی دوستی ہو گئی تھی تبسم سے۔اتنے میں ںخلیل گھر آیا تو ہمسائی کو دیکھ کر جھجک گیا - یہی تو تھی وہ شہزادی۔ عبدالقدوس کو کہنی مار کے کہنےلگا اسی سے مجھے محبت ھوئی ہے۔ دانی نے سن لی ، چلا کر بولا خلیل ل کو اس سے محبت ہے۔
سب ہکے بکے رہ گئے۔ خلیل کی مان نے چپل کو رفتار دی جس سےدانی نہ بچ سکا اور اس کے سینے پے تھڑاک سے جا لگی۔
خاتون تو یہ کہہ کر چلی گئیں کہ آپ نے اپنے بیٹے کی تصویر دکھائی تھی تو بچہ سمجھ کر شفقت سے مسکرائی مجھے کیا پتا تھا کہ تربیت کا فقدان ہے اس گھر میں۔ میرے اپنے پانچ بچے ہیں کبھی کوئی شکایت نہیں آئی آج تک۔
خاتون کے جاتے ہی خلیل کے ابا نے کہا تو تمہارا بیٹا بے قصور ہے ۔ سارہ قصور لڑکی کا ہے۔ خلیل کی ماں نظریں چرانے لگی۔
اس کے بعد ابا کا جوتا تھا جو کسی جنگجو کی تلوار کی طرح چل رہا تھا۔
گھر میں پانی پت کا میدان سجا تھا گھمسان کا رن پڑا
جبکہ عبدالقدوس اور دانی باورچی خانے میں فریج سے پھل نکال نکال کے کھا رہے تھے۔کھڑکی سے جھانکتے ہوئے میدان جنگ کو قلعہ بند ہو کر دیکھ رہے تھے۔
گردو غبار کے بادل دیر تک اڑتے رہے۔اور فریج خالی ہوتا رہا-
خلیل کی عجیب حالت تھی - ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہواؤں میں اڑ رہا ہو- اپنے کمرے تک منہ چھپا کے گیا تھا اس کی مسکراہٹ نہیں رک رہی تھی کیا کرتا بیچارہ، محبت ہو گئی تھی آخر-
گھر والوں کو شک گزرا اور جب کچھ سمجھ نہ آیا تو زہیر جو کہ اس کا دوست تھا کو بلایا گی.عبدالقدوس ر اپنے ایک پٹھان دوست دانی ن جو کہ نیا آیا تھا اس علاقہ میں کو بھی ساتھ لایا۔تینوں اچھے دوست ہیں
خلیل نے مہمان خانے میں بٹھایا ااور جلدی سے چائے بسکٹ لانے کے بعد دروازہ بند کر دیا-
اس کے بعد بڑے خفیہ انداز میں آہستہ سے اپنے دوست کو بتایا کہ اسے محبت ہو گئی ہے۔چہرے پے بے پناہ خوشی اور شرمیلی سی مسکراہٹ تھی۔ بقول شخصے اس سے بتیسی نہیں سنبھالی جا رہی تھی۔
.عبدالقدوس: کیا کہہ رہے ہو :o۔ کب کس سے :no۔ کیوں۔۔۔
کمال وہ پانچویں گلی میں اس کا مکان ہے۔ نام ابھی پتا نہیں۔
.عبدالقدوس : محبت کب ہوئی کل تو تم ٹھیک تھے :con-
خلیل: آج ہوئی ہے ۔کبھی کبھی ہماری ایک دوسرے پر نظر پڑتی تھی آج صبح جب میں وہاں سے گزرا تو وہ میری طرف دیکھ کے مسکرائی تھی۔
دانی: خلیل تمہارا خالہ کو دکاندار سے محبت ہو گیا ہے خانہ خرابا
خلیل: کیا بکواس کر رہے ہو۔ کس دکاندار سے خلیل کی حالت غصے اور پریشانی سے بری ہو گئی۔
دانی: تمہارا خالہ ہر روز چاچا دینو کی دکان کو جاتا ہے کل میں نے خود دیکھا وہ چاچا دینو سے مسکرا مسکرا کر بات کر رہی تھی-
عبدالقدوس: سمجھتے ہوئے انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہنے لگا بھئی مسکرانے سے محبت نہیں ہو جاتی کیو خلیل
خلیل: تو اور کیا چاچا دینو کو خالہ چاچا کہتی ہے۔
عبدالقدوس: خلیل پچھلے چند دن میں کون سی فلم دیکھی ہے۔
خلیل: کیا زبردست فلم ہو دل والے دلہنیا لے جائینگے ۔ میں نے پانچ بار اب تک دیکھی ہے۔
عبدالقدوس ۔ اچھا دیکھ نام تک جانتے نہیں ۔ صرف مسکرانے سے محبت ھو گئی۔ 17 عمر ہے ابھی ۔ اس مقام تک پہنچنا ہے جہاں تم سب کو خوشیان دے سکو۔
خلیل: محبت اندھی ہوتی ہے ۔ بس مجھے نصیحت کی ضرورت نہیں۔ مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا -
اب عبدالقدوس اور دانی نے گھر والوں کو بتا دیا۔ خفیہ اجلاس میں کمال کے ڈیدی کا رنگ غصے سے لال تھا۔
خلیل کی ماں بار بار کہہ رہی تھی کی قصور اس لڑکی کا ہے میرا کمال تو بھولا ہے-
ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ نئی ہمسائی آ گئی -دو ملاقاتوں میں خلیل ہ ل کی ماں کی بڑی اچھی دوستی ہو گئی تھی تبسم سے۔اتنے میں ںخلیل گھر آیا تو ہمسائی کو دیکھ کر جھجک گیا - یہی تو تھی وہ شہزادی۔ عبدالقدوس کو کہنی مار کے کہنےلگا اسی سے مجھے محبت ھوئی ہے۔ دانی نے سن لی ، چلا کر بولا خلیل ل کو اس سے محبت ہے۔
سب ہکے بکے رہ گئے۔ خلیل کی مان نے چپل کو رفتار دی جس سےدانی نہ بچ سکا اور اس کے سینے پے تھڑاک سے جا لگی۔
خاتون تو یہ کہہ کر چلی گئیں کہ آپ نے اپنے بیٹے کی تصویر دکھائی تھی تو بچہ سمجھ کر شفقت سے مسکرائی مجھے کیا پتا تھا کہ تربیت کا فقدان ہے اس گھر میں۔ میرے اپنے پانچ بچے ہیں کبھی کوئی شکایت نہیں آئی آج تک۔
خاتون کے جاتے ہی خلیل کے ابا نے کہا تو تمہارا بیٹا بے قصور ہے ۔ سارہ قصور لڑکی کا ہے۔ خلیل کی ماں نظریں چرانے لگی۔
اس کے بعد ابا کا جوتا تھا جو کسی جنگجو کی تلوار کی طرح چل رہا تھا۔
گھر میں پانی پت کا میدان سجا تھا گھمسان کا رن پڑا
جبکہ عبدالقدوس اور دانی باورچی خانے میں فریج سے پھل نکال نکال کے کھا رہے تھے۔کھڑکی سے جھانکتے ہوئے میدان جنگ کو قلعہ بند ہو کر دیکھ رہے تھے۔
گردو غبار کے بادل دیر تک اڑتے رہے۔اور فریج خالی ہوتا رہا-
Comment