Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
'Express yourself'
Collapse
X
-
Re: 'Express yourself'
آج کی رات غمِ دوست میں شدت ہے بہت
جن سے الفت تھی بہت ان سے شکایت ہے بہت
کتنی یادیں ہیں چلی آتی ہیں کمزور و نڈھال
غمِ جاناں کی کشاکش غمِ دوراں کے سوال
چاند کو چھونے کی خواہش انہیں پانے کا خیال
بے شمار آرزوئیں حسرت و ارمان وصال
عمر اپنی انہی بیکار خیالوں میں دھری
آج کی رات غمِ دوست میں شدت ہے بہت
چھا گیا پھر انہی خوابیدہ نگاہوں کا فسوں
ذہن میں کھلنے لگے پھر تیری یادوں کے کنول
آج پھر ہونٹ تصور میں تیرے چوم لیے
جذبۂ شوق سے ہونے لگیں پلکیں بوجھل
ہائے ٹوٹی ہے کہاں جاکے خیالوں کی کمند
آج کی رات غمِ دوست میں شدت ہے بہت
ہائے رنگینئ ایام کہاں سے لاؤں
عیش و عشرت کا وہ اک جام کہاں سے لاؤں
رندئ حافظ و خیام کہاں سے لاؤں
وہ حسین صبح وہ حسین شام کہاں سے لاؤں
میرے آوارہ خیالو! مجھے سو جانے دو
آج کی رات غمِ دوست میں شدت ہے بہت
جن سے الفت تھی بہت ان سے شکایت ہے بہتمجھے تلاش نہ کر ذوقِ بیخودی سجود
نظر کی چند شعاعوں میں گھر گیا ہوں میں
Comment
Comment