Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

رفیع کی یاد آتی ہے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • رفیع کی یاد آتی ہے

    ریحانہ بستی والا


    بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ممبئی

    لافانی آواز کے مالک محمد رفیع کی آج چھبیسویں برسی ہے۔ اکتیس جولائی انیس سو اسی کی شام دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت واقع ہوئی تھی۔
    بھارتی فلم انڈسٹری کی تاریخ محمد رفیع کے نغموں کے بغیر لکھی ہی نہیں جا سکتی کیونکہ سروں کے اس شہنشاہ نے چھبیس ہزار سے زیادہ نغمے گائے اور وہ سارے گیت آج بھی کروڑوں لوگوں کی زبان پر ہیں۔


    سونو نگم آج کے دور کے گلوکار ہیں جنہوں نے رفیع کے نغموں کی نقل کرتے ہوئے اپنی گائیکی کے دور کی ابتدا کی۔ ان جیسے سینکڑوں ایسے فنکار اس فلم انڈسٹری میں موجود ہیں جنہوں نے رفیع کے گائے نغمےگا کر گائیکی کو سیکھا اور پھر ان کی نقل کی۔ آج ایسے کئی فنکار ترقی کرتے ہوئے بلندیوں پر پہنچ گئے ان میں سونو نگم کا بھی نام لیا جا سکتا ہے۔
    رفیع اردو ہندی مراٹھی، گجراتی، بنگالی بھوجپوری تمل کے علاوہ کئی زبانوں میں گیت گائے۔ رفیع کی خاصیت تھی کہ وہ جس فنکار کے لیے گاتے اسی کی آواز اور اسی کے انداز کو اپناتے





    سونو نگم کا کہنا تھا چونکہ انہوں نے محمد رفیع کو اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا اس لیئے ان کے لیئے وہ بھگوان کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان جیسا گلوکار صدیوں میں بھی نہیں پیدا ہو سکتا۔


    کہا جاتا ہے کہ ایک روز کندن لال سہگل کا پروگرام تھا۔ وہ اپنے وقت کے مشہور گلوکار تھے اور انہیں سننے کے لیئے سینکڑوں کا مجمع، بجلی فیل ہونے کی وجہ سے سہگل نےگانے سے انکار کر دیا ۔اسی وقت رفیع کے بھائی نے پروگرام کے منتظمین سے کہا کہ ان کا بھائی بھی ایک گلوکار ہے اور اسے موقع دیا جائے۔
    مجمے کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے رفیع کو گانے کا موقع دیا۔ تیرہ سال کی عمر میں انہوں نے سٹیج پر گیت گایا۔ اسی پروگرام میں موسیقار شیام سندر موجود تھے۔ انہوں نے ایک جوہری کی طرح رفیع کو پرکھ لیا اور انہیں بمبئی آنے کی دعوت دی۔ بس یہیں سے رفیع کا یادگار سفر شروع ہوا۔

    رفیع کے گانے ہر خاص و عام میں یکساں مقبول ہوئے

    رفیع کی زندگی میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب موسیقار اعظم نوشاد نے انہیں گانے کا موقع دیا۔ اس وقت نوشاد علی اور طلعت محمود کی جوڑی بہت کامیاب تھی نوشاد کا ہر گیت طلعت گاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز نوشاد نے طلعت کو گانے سے قبل سگریٹ پیتے دیکھ لیا۔ اصولوں کے پکے نوشاد بہت برہم ہوئے اور انہوں نے طلعت کے بجائے رفیع کو چن لیا۔ رفیع نے زندگی میں کبھی سگریٹ یا شراب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔

    نغمگی کا یہ سفر بہت کامیاب رہا۔ انہوں نے اردو ہندی مراٹھی، گجراتی، بنگالی بھوجپوری تمل کے علاوہ کئی زبانوں میں گیت گائے۔ رفیع کی خاصیت تھی کہ وہ جس فنکار کے لیئے گاتے اسی کی آواز اور اسی کے انداز کو اپناتے۔

    رفیع بہت سیدھے اور صاف دل انسان تھے۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر ایک پیسہ لئے گیت گایا۔ ایک بڑے موسیقار نے رفیع کی موت کے بعد اعتراف کیا کہ ان کے پاس رفیع کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ گیت ختم ہونے کے بعد انہوں نے رفیع صاحب سے نظریں نہیں ملائیں اور دنیا کو دکھانے کے لئے ایک خالی لفافہ پکڑا دیا۔ رفیع نے اسے لے لیا لیکن بعد میں ملاقات کے بعد کبھی اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا جب بھی ملے مسکرا کر ملے۔
    رفیع کو ان کے گیتوں پر چھ فلم فیئر ایوارڈ مل چکے ہیں۔ حکومت نے انہیں پدم شری کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ رفیع ایسے فنکار تھے جنہوں نے درجنوں فنکاروں کی زندگی بنا دی۔ فلم دوستی میں موسیقار شنکر جے کشن کے نغموں کو اپنی آواز دینے کے بعد وہ نغمے بہت مقبول ہوئے اور دنیا نے اس جوڑی کو پہچانا۔
    سکتا۔


  • #2
    Thanx 4 sharing.

    Comment

    Working...
    X