نضباطی کمیٹی ناقابل قبول ہے: آفریدی
شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوئے تو وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی انضباطی کمیٹی کےسامنے پیش نہیں ہونگے۔
واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہ تین رکنی انضباطی کمیٹی شاہد آفریدی کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر قائم کی ہے اور اس نے بدھ کے روز شاہد آفریدی کو پیش ہونے کے لیے کہا ہے۔
شاہد آفریدی نے پیر کو کراچی پریس کلب میں اپنے وکلا سید علی ظفر اور محمود مانڈوی والا کے ساتھ پریس کانفرنس کی ہے۔
کراچی سے نامہ نگار عبدالرشید شکور کے مطابق شاہد آفریدی کے وکلاء نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے جو طریقہ کار اپنایا ہے اس پر انہیں اعتراض ہے کیونکہ آفریدی کو سنے بغیر این او سی واپس لے لیاگیا اور بورڈ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے تھا کہ وہ انصاف کے اصول کے مطابق آفریدی کا موقف بھی سنتا۔
انہوں نے کہا کہ شاہد آفریدی کو کمیٹی کے سامنے پیش ہونے میں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو معطلی اور این اوسی واپس لینے کے اپنے فیصلے واپس لینے ہونگے اگر ایسا نہ ہوا تو آفریدی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہونگے۔
شاہد آفریدی کے وکلاء نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ انہوں نے شوکاز نوٹس کا جواب دیتے ہوئے اپنی غلطیاں تسلیم کر لی ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہد آفریدی کے وکیل کو بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی اجازت دے دی ہے تو ان کا جواب تھا کہ اس بارے میں انہیں باضابطہ طور پر نہیں بتایا گیا ہے بلکہ میڈیا سے ہی پتہ چلا ہے۔
شاہد آفریدی نے اس موقع پر کہا کہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے محاذآرائی نہیں بلکہ انصاف چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قیادت ان کا مسئلہ نہیں ہے وہ ماضی میں بھی اپنے جونیئرز کی کپتانی میں بھی کھیل چکے ہیں اور اگر پاکستان کرکٹ بورڈ اسد شفیق اور عمراکمل کو بھی کپتان بنا دے تو ان کی قیادت میں بھی کھیلنے کو تیار ہیں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کا کھلاڑیوں کےساتھ جو رویہ ہے وہ صحیح نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پلیئر پاورز کھلاڑیوں کو رسوا کر کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم میں کئی کھلاڑی ایسے بھی ہیں جو پریشان ہیں لیکن سینٹرل کنٹریکٹ کی وجہ سے مجبور اور خاموش ہیں۔
انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وہ اس معاملے میں سیاست دانوں کا سہارا لے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ شاہد آفریدی کی ریٹائرمنٹ اور بورڈ کی ان کے خلاف تادیبی کارروائی کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور نوازشریف نے بھی آفریدی سے رابطہ کیا تھا جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کے قانونی مشیر تفضل حیدر رضوی کا کہنا ہے کہ شاہد آفریدی کا سینٹرل کنٹریکٹ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ معطل ہوا ہے اور اس ناتے وہ اپنی ریٹائرمنٹ کی پیشگی اطلاع کرکٹ بورڈ کو دینے کے پابند تھے۔
انہوں نے کہا کہ آفریدی کا کنٹریکٹ اسی وقت ختم ہوتا جب وہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے اور بورڈ کو اس کی اطلاع دیتے۔
واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہ تین رکنی انضباطی کمیٹی شاہد آفریدی کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر قائم کی ہے اور اس نے بدھ کے روز شاہد آفریدی کو پیش ہونے کے لیے کہا ہے۔
شاہد آفریدی نے پیر کو کراچی پریس کلب میں اپنے وکلا سید علی ظفر اور محمود مانڈوی والا کے ساتھ پریس کانفرنس کی ہے۔
کراچی سے نامہ نگار عبدالرشید شکور کے مطابق شاہد آفریدی کے وکلاء نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے جو طریقہ کار اپنایا ہے اس پر انہیں اعتراض ہے کیونکہ آفریدی کو سنے بغیر این او سی واپس لے لیاگیا اور بورڈ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے تھا کہ وہ انصاف کے اصول کے مطابق آفریدی کا موقف بھی سنتا۔
انہوں نے کہا کہ شاہد آفریدی کو کمیٹی کے سامنے پیش ہونے میں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو معطلی اور این اوسی واپس لینے کے اپنے فیصلے واپس لینے ہونگے اگر ایسا نہ ہوا تو آفریدی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہونگے۔
شاہد آفریدی کے وکلاء نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ انہوں نے شوکاز نوٹس کا جواب دیتے ہوئے اپنی غلطیاں تسلیم کر لی ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہد آفریدی کے وکیل کو بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی اجازت دے دی ہے تو ان کا جواب تھا کہ اس بارے میں انہیں باضابطہ طور پر نہیں بتایا گیا ہے بلکہ میڈیا سے ہی پتہ چلا ہے۔
شاہد آفریدی نے اس موقع پر کہا کہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے محاذآرائی نہیں بلکہ انصاف چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قیادت ان کا مسئلہ نہیں ہے وہ ماضی میں بھی اپنے جونیئرز کی کپتانی میں بھی کھیل چکے ہیں اور اگر پاکستان کرکٹ بورڈ اسد شفیق اور عمراکمل کو بھی کپتان بنا دے تو ان کی قیادت میں بھی کھیلنے کو تیار ہیں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کا کھلاڑیوں کےساتھ جو رویہ ہے وہ صحیح نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پلیئر پاورز کھلاڑیوں کو رسوا کر کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم میں کئی کھلاڑی ایسے بھی ہیں جو پریشان ہیں لیکن سینٹرل کنٹریکٹ کی وجہ سے مجبور اور خاموش ہیں۔
انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وہ اس معاملے میں سیاست دانوں کا سہارا لے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ شاہد آفریدی کی ریٹائرمنٹ اور بورڈ کی ان کے خلاف تادیبی کارروائی کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور نوازشریف نے بھی آفریدی سے رابطہ کیا تھا جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کے قانونی مشیر تفضل حیدر رضوی کا کہنا ہے کہ شاہد آفریدی کا سینٹرل کنٹریکٹ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ معطل ہوا ہے اور اس ناتے وہ اپنی ریٹائرمنٹ کی پیشگی اطلاع کرکٹ بورڈ کو دینے کے پابند تھے۔
انہوں نے کہا کہ آفریدی کا کنٹریکٹ اسی وقت ختم ہوتا جب وہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے اور بورڈ کو اس کی اطلاع دیتے۔
Comment