ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کے سکوائش کی قومی چیمپیئن ماریہ طور کا تعلق پاکستان کے قدامت پسند اور عسکریت پسندوں کی جنت سمجھے جانے والے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے ہے
پاکستان کی نسیم حمید اور سارہ ناصر نے پچھلے ماہ بنگلہ دیش میں ہونے والی سارک گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے کے بعد ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں جو پز یرائی حاصل کی ہے ان کے بقول ان کے اس کارنامے سے پاکستان میں دوسری خواتین کی حوصلہ افزائی ہوگی جس سے کھیلوں کا معیار بھی بہتر ہوگا۔ لیکن ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کے سکوائش کی قومی چیمپیئن ماریہ طور کا تعلق پاکستان کے قدامت پسند اور عسکریت پسندوں کی جنت سمجھے جانے والے قبائلی علاقے جنوبی وزیر ستان سے ہے اور عالمی رینکنگ میں وہ 85 ویں نمبر پر ہیں۔
احمد زئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھنے والی اس 19 سالہ کھلاڑی نے خواتین پر گھر سے باہر نکلنے اور تعلیم حاصل کرنے پر پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر سکوائش کی دنیا میں جو مقام حاصل کیا ہے ، ماریہ طور کے خیال میں ہر پاکستانی عورت ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے عزم پر ڈٹ جائے اور اسے اپنے خاندان کی مکمل حمایت حاصل رہے۔
وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی انٹرویو میں اُنھوں نے وزیرستان کے علاقوں میں عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں اور فوجی آپریشن پر افسوس کا اظہار کر تے ہو ئے کہا کہ اگر شدت پسند اپنی توانائیاں اسلحہ پھینک کر کھیلوں پر صرف کریں تو اس سے نہ صرف شدت پسندی کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ علاقے میں امن وامان بھی لوٹ آئے گا۔ ماریہ کا بچپن وزیرستان کے شکئی کے علاقے میں گزرا لیکن ان دنوں یہ پہاڑی علاقہ طالبان عسکریت اور پاکستانی فوج کے لیے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
ماریہ طور نے بتایاکہ انتہاپسندوں کی جانب سے اُنھیں اور اُن کے اہل خانہ کو دھمکیاں دی گئیں اور اُنھیں سکوائش کے کھیل سے دور رہنے کی تلقین کی گئی تاہم ماریہ کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف اس کھیل کو جاری رکھیں گی بلکہ اس راستے پر چلتے ہوئے وہ قبائلی علاقوں میں کھیل اور تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں ۔
جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین کھیلوں کے مقابلے میں پاکستان کے لیے کراٹے کے مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتنے والی سارہ ناصر کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو کھیل کے میدان میں نمایاں مقام کے حصول کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کا کہنا ہے حکومت کی طرف سے حالیہ دنوں میں کامیاب خواتین کھلاڑیوں کودیے جانے والے انعامات اور عوام کی پزیرائی حوصلہ افزاء اقدامات ہیں ۔ سارہ ناصر نے والدین سے اپیل کی وہ ایسی لڑکیوں جو کھیل کے میدان میں آگے بڑھنے کی خواہش مند ہیں اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
جنوبی ایشیائی ممالک کے کھیلوں کے حالیہ مقابلوں میں 100 میڑ کی ریس جیتنے والی نسیم حمید بھی شامل ہیں جو یہ مقابلہ جیتنے کے بعد جنوبی ایشیا کی تیز ترین دوڑنے والی خاتون بن گئیں۔
سارک ممالک کے کھیلوں کے مقابلے میں سونے کا تمغہ جیتنے پر سارہ ناصراور دیگر کامیاب ہونے والی خواتین کھلاڑیوں کو حکومت پاکستان کی طرف سے نقدانعامات سے نواز گیا لیکن ماریہ طورنے شکوہ کرتے ہوئے کہا حکام کی طرف سے اُن کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔ اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت سکوائش کے میدان میں اُن کی کارکردگی اور ملک کے لیے خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُ ن کی بھی معاونت کرے ۔
پاکستان کی نسیم حمید اور سارہ ناصر نے پچھلے ماہ بنگلہ دیش میں ہونے والی سارک گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے کے بعد ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں جو پز یرائی حاصل کی ہے ان کے بقول ان کے اس کارنامے سے پاکستان میں دوسری خواتین کی حوصلہ افزائی ہوگی جس سے کھیلوں کا معیار بھی بہتر ہوگا۔ لیکن ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کے سکوائش کی قومی چیمپیئن ماریہ طور کا تعلق پاکستان کے قدامت پسند اور عسکریت پسندوں کی جنت سمجھے جانے والے قبائلی علاقے جنوبی وزیر ستان سے ہے اور عالمی رینکنگ میں وہ 85 ویں نمبر پر ہیں۔
احمد زئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھنے والی اس 19 سالہ کھلاڑی نے خواتین پر گھر سے باہر نکلنے اور تعلیم حاصل کرنے پر پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر سکوائش کی دنیا میں جو مقام حاصل کیا ہے ، ماریہ طور کے خیال میں ہر پاکستانی عورت ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے عزم پر ڈٹ جائے اور اسے اپنے خاندان کی مکمل حمایت حاصل رہے۔
وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی انٹرویو میں اُنھوں نے وزیرستان کے علاقوں میں عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں اور فوجی آپریشن پر افسوس کا اظہار کر تے ہو ئے کہا کہ اگر شدت پسند اپنی توانائیاں اسلحہ پھینک کر کھیلوں پر صرف کریں تو اس سے نہ صرف شدت پسندی کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ علاقے میں امن وامان بھی لوٹ آئے گا۔ ماریہ کا بچپن وزیرستان کے شکئی کے علاقے میں گزرا لیکن ان دنوں یہ پہاڑی علاقہ طالبان عسکریت اور پاکستانی فوج کے لیے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
ماریہ طور نے بتایاکہ انتہاپسندوں کی جانب سے اُنھیں اور اُن کے اہل خانہ کو دھمکیاں دی گئیں اور اُنھیں سکوائش کے کھیل سے دور رہنے کی تلقین کی گئی تاہم ماریہ کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف اس کھیل کو جاری رکھیں گی بلکہ اس راستے پر چلتے ہوئے وہ قبائلی علاقوں میں کھیل اور تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں ۔
جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین کھیلوں کے مقابلے میں پاکستان کے لیے کراٹے کے مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتنے والی سارہ ناصر کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو کھیل کے میدان میں نمایاں مقام کے حصول کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کا کہنا ہے حکومت کی طرف سے حالیہ دنوں میں کامیاب خواتین کھلاڑیوں کودیے جانے والے انعامات اور عوام کی پزیرائی حوصلہ افزاء اقدامات ہیں ۔ سارہ ناصر نے والدین سے اپیل کی وہ ایسی لڑکیوں جو کھیل کے میدان میں آگے بڑھنے کی خواہش مند ہیں اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
جنوبی ایشیائی ممالک کے کھیلوں کے حالیہ مقابلوں میں 100 میڑ کی ریس جیتنے والی نسیم حمید بھی شامل ہیں جو یہ مقابلہ جیتنے کے بعد جنوبی ایشیا کی تیز ترین دوڑنے والی خاتون بن گئیں۔
سارک ممالک کے کھیلوں کے مقابلے میں سونے کا تمغہ جیتنے پر سارہ ناصراور دیگر کامیاب ہونے والی خواتین کھلاڑیوں کو حکومت پاکستان کی طرف سے نقدانعامات سے نواز گیا لیکن ماریہ طورنے شکوہ کرتے ہوئے کہا حکام کی طرف سے اُن کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔ اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت سکوائش کے میدان میں اُن کی کارکردگی اور ملک کے لیے خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُ ن کی بھی معاونت کرے ۔