2009ء میں دہشت گردی کےمسلسل واقعات نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو بیرونِ ملک سفر کرنے اور دوسروں کے میدانوں پرمیچ کھیلنے پر مجبور کردیا، اور ابھی یہ بھی تعین نہیں ہو سکا کہ وہ کب اپنے ملک میں اور اپنے ہم وطن شائقین کے سامنے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنا شروع کرے گی۔
پاکستان کو دوسرے ممالک میں جا کر کے کھیلنے کی ضرورت اُس وقت پیش آئی جب تین مارچ کو دہشت گردوں نے لاہور میں اُس بس پر حملہ کردیا جو سری لنکا کے کھلاڑیوں کو دوسرے میچ کے لیے قذافی اسٹیڈیم لے جارہی تھی۔
اگرچہ مہمان ٹیم کو جانی نقصان نہیں ہوا تھا لیکن اِس واقعے کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی غیر ملکی ٹیموں نےپاکستان کھیلنے سے انکار کردیا اور کرکٹ کی تنظیم یعنی آئی سی سی نے عالمی کپ 2011ء کے وہ تمام میچ دوسری جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا جو پاکستان کھیلے جانے والے تھے۔
اِس سے قبل، پاکستان میں جاری ہنگاموں اور خودکش حملوں کے بعد آئی سی سی نے فیصلہ کیا کہ چمپینز ٹرافی کا انعقاد پاکستان کی بجائے جنوبی افریقہ میں کیا جائے۔
ان تمام منفی عوامل کے باعث پاکستان کی ٹیم بظاہرشدید ذہنی دباؤ میں آگئی لیکن اِس کے باوجود حیرت انگیز طور پرپاکستانی ٹیم نے یونس خان کی کپتانی میں ٹونٹی 20عالمی کپ جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ عالمی کپ جون کے مہینے میں انگلینڈ میں کھیلا گیا تھا۔
اگلے ماہ، پاکستان نے سری لنکا کا دورہ کیا جہاں اُس نے ٹیسٹ میچ، پانچ ون ڈے انٹرنیشنل اور ایک ٹونٹی20میچ کھیلا تھا۔ ستمبر اکتوبر میں پاکستان کی ٹیم نے جنوبی افریقہ میں چمپینز ٹرافی میں شرکت کی جہاں اُسے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ چند ہفتوں کے بعد پاکستان کی ٹیم نیوزی لینڈ پہنچی جہاں اُس کی تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک ایک سے ڈرا ہوگئی۔
چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے ہارنے کے بعد پاکستان کرکٹ کا ستارہ ایک بار پھر گردش میں آگیا اور ٹیم پر سٹے بازی اور جان بوجھ کر میچ ہارنے کے الزامات لگے۔ حتیٰ کہ ٹیم انتظامیہ کی سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے آگے جواب طلبی بھی ہوئی۔ اس صورتِ حال سے تنگ آ کر ٹیم کے کپتان یونس خان نہ صرف کپتانی سے دست بردار ہو گئے بلکہ انھوں نے کسی بھی قسم کی کرکٹ کھیلنے سے معذوری ظاہر کر لی۔ اس وجہ سے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دوروں میں محمد یوسف کو کپتان بنایا گیا ہے۔
پورا سال ختم ہونے کے باوجود پاکستان کی ٹیم اب بھی سفر میں ہے۔ فی الوقت وہ 40دِن کے آسٹریلیا کے دورے پر ہے جہاں وہ سڈنی میں دوسرا میچ کھیل رہی ہے۔ پہلا ٹیسٹ 26دسمبر کو میلبرن میں شروع ہوا تھا اور یہ میچ میزبان ٹیم نے 170رن سے جیت لیا تھا۔
آسٹریلیا میں ایک اور ٹیسٹ میچ، پانچ ون ڈے انٹرنیشنل اور ایک ٹونٹی20میچ کھیلنے کے بعد پاکستان کی ٹیم فروری میں وطن واپس لوٹے گی۔
AFP
پاکستانی کرکٹ کے افق کا روشن ستارہ عمر اکمل
سال 2009ء جہاں پاکستانی کرکٹ کے شائقین کے لیے مایوس کن ثابت ہوا، وہیں اسی سال پاکستانی کرکٹ کو دو ایسے ستارے ملے، جن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں پاکستانی کرکٹ کے افق پر جگمگاتے رہیں گے۔ یہ کھلاڑی ہیں محمد عامر اور عمر اکمل۔ 17 سالہ محمد عامر نے ٹونٹی 20 ورلڈ کپ سے اپنے بین الاقوامی کیریر کا آغاز کیا اور تب سے اب تک وہ نہ صرف ٹونٹی 20، بلکہ ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں بھی پاکستانی ٹیم کا لازمی جزو بن گئے ہیں۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف میچ میں پانچ وکٹیں لے کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ نسیم الغنی کے بعد محمد عامر دوسرے کم سن ترین باؤلر ہیں جنھوں نے ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی ہیں۔
محمد عامر نہ صرف تیز رفتار سوئنگ باؤلنگ پر عبور رکھتے ہیں، بلکہ ان میں ایک اچھا آل راؤنڈر بننے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ نومبر میں انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ میں میں ناقابلِ شکست 73 رنز سکور کیے، جو دسویں نمبر پر کھیلنے والے کسی بھی بلے باز کی طرف سے ریکارڈ سکور ہے۔
2009ء ہی میں پاکستان کو ایک ایسا بلے باز بھی ملا جسے مستقبل کا اثاثہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ہیں وکٹ کیپر کامران اکمل کے چھوٹے بھائی عمر اکمل۔ عمر اکمل نے سری لنکا کے خلاف ایک روزہ میچ کھیل کر اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا اورپہلے ہی میچ میں انھوں نے شان دار سنچری بنا کر اپنے عزائم واضح کر دیے۔ اس اننگز کے دوران انھوں نے سری لنکا کے خطرناک اور مشکل باؤلرملنگا کو جس طرح سٹریٹ چھکے لگائے، اس سے بعض لوگوں نے عمر اکمل کا تقابل سچن تنڈلکر سے کرنا شروع کر دیا، جنھوں نے اپنے کیریئر کے آغاز میں عبدالقادر کی پٹائی کی تھی۔
19 سالہ عمر اکمل بے دھڑک کھیلتے ہیں اور کسی باؤلر کو اپنے اوپر حاوی ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ اب تک کل آٹھ اننگز میں وہ ایک سنچری اور چار نصف سنچریوں کی مدد سے 457 رنز سکور کر چکے ہیں اور ان کی اوسط 57 رنز فی اننگز ہے۔
پاکستان کو دوسرے ممالک میں جا کر کے کھیلنے کی ضرورت اُس وقت پیش آئی جب تین مارچ کو دہشت گردوں نے لاہور میں اُس بس پر حملہ کردیا جو سری لنکا کے کھلاڑیوں کو دوسرے میچ کے لیے قذافی اسٹیڈیم لے جارہی تھی۔
اگرچہ مہمان ٹیم کو جانی نقصان نہیں ہوا تھا لیکن اِس واقعے کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی غیر ملکی ٹیموں نےپاکستان کھیلنے سے انکار کردیا اور کرکٹ کی تنظیم یعنی آئی سی سی نے عالمی کپ 2011ء کے وہ تمام میچ دوسری جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا جو پاکستان کھیلے جانے والے تھے۔
اِس سے قبل، پاکستان میں جاری ہنگاموں اور خودکش حملوں کے بعد آئی سی سی نے فیصلہ کیا کہ چمپینز ٹرافی کا انعقاد پاکستان کی بجائے جنوبی افریقہ میں کیا جائے۔
ان تمام منفی عوامل کے باعث پاکستان کی ٹیم بظاہرشدید ذہنی دباؤ میں آگئی لیکن اِس کے باوجود حیرت انگیز طور پرپاکستانی ٹیم نے یونس خان کی کپتانی میں ٹونٹی 20عالمی کپ جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ عالمی کپ جون کے مہینے میں انگلینڈ میں کھیلا گیا تھا۔
اگلے ماہ، پاکستان نے سری لنکا کا دورہ کیا جہاں اُس نے ٹیسٹ میچ، پانچ ون ڈے انٹرنیشنل اور ایک ٹونٹی20میچ کھیلا تھا۔ ستمبر اکتوبر میں پاکستان کی ٹیم نے جنوبی افریقہ میں چمپینز ٹرافی میں شرکت کی جہاں اُسے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ چند ہفتوں کے بعد پاکستان کی ٹیم نیوزی لینڈ پہنچی جہاں اُس کی تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک ایک سے ڈرا ہوگئی۔
چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے ہارنے کے بعد پاکستان کرکٹ کا ستارہ ایک بار پھر گردش میں آگیا اور ٹیم پر سٹے بازی اور جان بوجھ کر میچ ہارنے کے الزامات لگے۔ حتیٰ کہ ٹیم انتظامیہ کی سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے آگے جواب طلبی بھی ہوئی۔ اس صورتِ حال سے تنگ آ کر ٹیم کے کپتان یونس خان نہ صرف کپتانی سے دست بردار ہو گئے بلکہ انھوں نے کسی بھی قسم کی کرکٹ کھیلنے سے معذوری ظاہر کر لی۔ اس وجہ سے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دوروں میں محمد یوسف کو کپتان بنایا گیا ہے۔
پورا سال ختم ہونے کے باوجود پاکستان کی ٹیم اب بھی سفر میں ہے۔ فی الوقت وہ 40دِن کے آسٹریلیا کے دورے پر ہے جہاں وہ سڈنی میں دوسرا میچ کھیل رہی ہے۔ پہلا ٹیسٹ 26دسمبر کو میلبرن میں شروع ہوا تھا اور یہ میچ میزبان ٹیم نے 170رن سے جیت لیا تھا۔
آسٹریلیا میں ایک اور ٹیسٹ میچ، پانچ ون ڈے انٹرنیشنل اور ایک ٹونٹی20میچ کھیلنے کے بعد پاکستان کی ٹیم فروری میں وطن واپس لوٹے گی۔
AFP
پاکستانی کرکٹ کے افق کا روشن ستارہ عمر اکمل
سال 2009ء جہاں پاکستانی کرکٹ کے شائقین کے لیے مایوس کن ثابت ہوا، وہیں اسی سال پاکستانی کرکٹ کو دو ایسے ستارے ملے، جن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں پاکستانی کرکٹ کے افق پر جگمگاتے رہیں گے۔ یہ کھلاڑی ہیں محمد عامر اور عمر اکمل۔ 17 سالہ محمد عامر نے ٹونٹی 20 ورلڈ کپ سے اپنے بین الاقوامی کیریر کا آغاز کیا اور تب سے اب تک وہ نہ صرف ٹونٹی 20، بلکہ ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں بھی پاکستانی ٹیم کا لازمی جزو بن گئے ہیں۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف میچ میں پانچ وکٹیں لے کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ نسیم الغنی کے بعد محمد عامر دوسرے کم سن ترین باؤلر ہیں جنھوں نے ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی ہیں۔
محمد عامر نہ صرف تیز رفتار سوئنگ باؤلنگ پر عبور رکھتے ہیں، بلکہ ان میں ایک اچھا آل راؤنڈر بننے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ نومبر میں انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ میں میں ناقابلِ شکست 73 رنز سکور کیے، جو دسویں نمبر پر کھیلنے والے کسی بھی بلے باز کی طرف سے ریکارڈ سکور ہے۔
2009ء ہی میں پاکستان کو ایک ایسا بلے باز بھی ملا جسے مستقبل کا اثاثہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ہیں وکٹ کیپر کامران اکمل کے چھوٹے بھائی عمر اکمل۔ عمر اکمل نے سری لنکا کے خلاف ایک روزہ میچ کھیل کر اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا اورپہلے ہی میچ میں انھوں نے شان دار سنچری بنا کر اپنے عزائم واضح کر دیے۔ اس اننگز کے دوران انھوں نے سری لنکا کے خطرناک اور مشکل باؤلرملنگا کو جس طرح سٹریٹ چھکے لگائے، اس سے بعض لوگوں نے عمر اکمل کا تقابل سچن تنڈلکر سے کرنا شروع کر دیا، جنھوں نے اپنے کیریئر کے آغاز میں عبدالقادر کی پٹائی کی تھی۔
19 سالہ عمر اکمل بے دھڑک کھیلتے ہیں اور کسی باؤلر کو اپنے اوپر حاوی ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ اب تک کل آٹھ اننگز میں وہ ایک سنچری اور چار نصف سنچریوں کی مدد سے 457 رنز سکور کر چکے ہیں اور ان کی اوسط 57 رنز فی اننگز ہے۔
Comment