Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

پاکستانی کرکٹ 2007ء بھی ایک بحران

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • پاکستانی کرکٹ 2007ء بھی ایک بحران


    کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، چناں چہ جب پورا ملک ہی اتھل پتھل کا شکار ہو تو کرکٹ ٹیم اس سے کیسے بے نیاز رہ سکتی ہے۔
    چناں چہ پاکستانی سیاست کی طرح پاکستانی کرکٹ 2007ء بھی ایک بحران سے نکل کر دوسرے بحران میں داخل ہوتی رہی۔ وقتاً فوقتاً کچھ امید کے آثار دکھائی دیے، لیکن ایسے ہی جیسے لمحے بھر کو بجلی چمک کے پھر گھپ اندھیرا چھا جائے۔
    سال بھر کا تاریک ترین لمحہ وہ تھا جب ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ورلڈ کپ کے پہلے ہی راؤنڈ میں پاکستان کو آئرلینڈ کی نوآموز ٹیم کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست کی گمبھیرتا کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آئرلینڈ کی ٹیم کے بعض کھلاڑی پارٹ ٹائم کرکٹ کھیلتے تھے اور اپنی ملازمتوں سےصرف ایک ہفتے کی چھٹی لے کر ورلڈ کپ کھیلنے آئے تھے، کیوں کہ انھیں یقین تھا کہ ان کی ٹیم پہلے راؤنڈ سے آگے نہیں جا سکے گی۔ چناں جب انتہائی غیر متوقع طور پر آئرلینڈ دوسرے راؤنڈ میں پہنچ گیا تو انھیں مزید چھٹی کی درخواست وطن بھیجناپڑی۔
    باب وولمر کی ہلاکت کا شبہ پاکستانی کھلاڑیوں پر کیا گیا

    لیکن بدقسمتی کی دیوی نے یہیں پر اکتفا نہیں کی۔ اور ایسے حالات میں جب لگتا تھا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا برا ہو گا،بدترین خبر آئی کہ پاکستانی ٹیم کے انگریز کوچ باب وولمر اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے ہیں اور ان کے قتل کا شبہ پاکستانی کھلاڑیوں پر کیا جا رہا ہے۔
    بس پھر کیا تھا،قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا۔ سابق کرکٹر سرفراز نواز تو ایسے موقع کی تاک میں رہتے ہیں، وہ بھلا اسے کیوں ہاتھ سے جانے دیتے۔ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، کہہ ڈالا کہ چوں کہ باب وولمر بمعہ پاکستانی ٹیم سٹے بازی میں ملوث تھے، اس لیے انھیں سٹے بازوں نے قتل کیا ہے۔ کسی نے شوشہ چھوڑا کہ وولمر کی کتاب منظرِ عام پر آنے والی تھی جس میں سٹے بازوں کو بے نقاب کیا جانے والا تھا۔ غرض جتنے منھ اتنی باتیں۔
    اس موقعے پر جمیکا کی پولیس نے بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلے۔ کبھی کہا کہ وولمر کا گلا گھونٹا گیا ہے، کبھی رائے زنی کی پہلے انھیں زہر دے کر بے خود کر دیا گیا تھا، کبھی سانپ کے ڈسنے کی خبر اڑائی گئی۔
    انضمام الحق اس تنازعے میں اپنی کپتانی سے ہاتھ دھو بیٹھے

    بے چارے انضمام کا پاؤں اس تلاطم میں ایسا پھسلا کہ کسی کے سنبھالے نہ سنبھلا۔ میچ پلاننگ، ٹیم کے انتخاب جیسے معاملات تو الگ رہے، ان کے تبلیغی میلان تک کو ہدف بنایا گیا۔ اس کے بعد انضمام کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں۔
    اب پاکستانی کرکٹ کی ڈگمگاتی لڑکھڑاتی نیّا سنبھالنے کی ذمّے داری شعیب ملک کے نوجوان کاندھوں پر ڈال دی گئی۔ انصاف سے دیکھا جائے تو کپتانی کے سب سے مستحق امیدوار یونس خان تھے، لیکن یونس خان نے اس اعزاز سے سرفراز ہونے سے انکار کر دیا۔ وجہ یہ معلوم ہوئی میں ان کی تصویر گدھے کے گلے میں لٹکا کر اسے ان کے گھر کے سامنے پھرایا گیاتھا۔
    یونس خان کے ہمت ہارنے کی ایک اور، زیادہ روایتی وجہ بھی تھی، اور یہ کہ وہ عمران خان کی طرح مکمل طور بااختیار کپتان بننا چاہتے تھے۔ جب کہ بورڈ شروع ہی سے انھیں سیاہ و سفید کا مالک بنانے کے لیے تیار نہیں تھا۔
    یونس خان: کپتانی کے کوچے میں بڑی رسوائیاں!

    خیر، شعیب ملک نئے کپتان نام زد ہو گئے، اور ساتھ ہی ساتھ ٹیم کے مرحوم کوچ کی جگہ آسٹریلیا کے سابق فاسٹ باولر جیف لاسن کو کوچ بھرتی کر لیا گیا۔ اگرچہ اس عہدے کے لیےکئی دوسرے کوچوں نے درخواستیں جمع کروائی تھیں، جن میں سری لنکا کو ورلڈ کپ جتوانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے کوچ ڈیو ویٹ مور بھی شامل تھے۔
    تاہم پاکستانی کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں نے جیف لاسن کا انتخاب کیا جن کا بین الاقوامی کوچنگ کا تجربہ صفر تھا۔ تاہم جو بات لاسن کے حق میں اور ویٹ مور کے خلاف گئی وہ ٹیم کے بعض کھلاڑیوں کی رپورٹ تھی کہ ویٹ مور کے مقابلے پر لاسن زیادہ گھل مل جانے والے اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک ہیں۔
    خیر، نئے کوچ اور نئے کپتان کے ساتھ ٹیم نے جنوبی افریقہ کا رخ کیا دنیا کے پہلے ٹونٹی 20 ورلڈ کپ میں شرکت کرنے کے لیے۔لیکن ابھی ٹورنمنٹ شروع بھی نہیں ہوا تھا شعیب اختر اورمحمد آصف کے درمیان ڈریسنگ روم میں لڑائی نے مزہ کرکرا کر دیا۔

    شعیب اختر اپنی پرانی غلطیاں کبھی نہیں دہراتے

    شعیب اختر اپنے کیریر میں ہر طرح کے تنازعات میں ملوث رہ چکے ہیں، تاہم ان پر نکتہ چینوں کا یہ اعتراض بالکل بے جا ہے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھنے کے فن سے عاری ہیں۔ وہ سبق ضرور سیکھتے ہیں اور جو غلطی کرتے ہیں، اسے کبھی نہیں دہراتے، بلکہ ہر بار نئی غلطیاں کرتے ہیں۔
    تاہم شعیب اختر کے باوجود، یا شاید ان کی کمی کی وجہ سے، ٹیم نےافتتاحی ٹونٹی 20ورلڈ کپ میں شان دار کامیابی کا مظاہرہ کیا اورفائنل کی آخری گیند پر مصباح الحق کے سویپ شاٹ سے قطعِ نظر اس ٹورنمنٹ کو سال 2007ء میں پاکستانی ٹیم کا سب سے سنہرا لمحہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
    تاہم اس ورلڈ کپ کے بعد ایک بار پھر شکست کی بدلیاں منڈلانے لگیں۔ ٹیم کا اثاثہ اس کے فاسٹ باولر تھے، لیکن انتظامیہ نے جنوبی افریقہ کے خلاف سپن وکٹیں بنانے کا فیصلہ کیا۔ جس کا نتیجہ حسبِ توقع ہار کی شکل میں نکلا۔ اسی دوران انضمام الحق کو ایک موقع دیا گیا کہ وہ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں آخری ٹیسٹ میچ کھیل کر جاوید میاں داد کا سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ توڑ سکیں۔ لیکن افسوس کہ جب بام صرف دو رنز کے فاصلے پر رہ گیا تو انضمام کمند تڑوا کر خود کو سٹمپ کروا بیٹھے۔
    اس کے بعد دورہٴ بھارت کا کڑا مرحلہ آیا۔ یہ ایسا پلِ صراط ہے کہ جس پر اچھے اچھوں کے پاؤں جلے ہیں، بھلا شعیب ملک کی ناتجربہ کار ٹیم بھلا کیسے اس امتحان پر پورا اترتی۔
    اور پھر مرے پر سو درّے یہ ہوئے کہ بیچ میں اہم فاسٹ باولرزخمی ہو گئے ۔ عمر گل اور محمد آصف تو خیر ٹیم میں شامل ہی نہیں ہو پائے تھے، شعیب اختر میچوں کے بیچ بیچ میں ان فٹ ہوتے رہے اور ٹیم تین باؤلروں سے کھیلتی رہی۔ شعیب ملک خود آخری دو ٹیسٹ نہیں کھیل پائے اور کپتانی کے فرائض اپنے گاؤں والوں کے ڈر کے باوجود بے چارے یونس خان کو سرانجام دینا پڑے۔
    نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا، یعنی ٹیم بھارت سے 27 سال بعد پہلی بار ٹیسٹ سیریز ہار کر واپس آئی۔ تاہم اس دورے کا اگر کوئی مثبت پہلو ہے تو وہ یہی ہے کہ ٹیم کو مصباح الحق کی شکل میں ایک ایسا مڈل آرڈر بلے باز ملا جس پر کسی حد تک بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ کہنا ابھی بہت قبل از وقت ہے کہ وہ انضمام کی ریٹائرمنٹ سے پیدا ہونے والا وسیع وعریض خلا بھر پائیں گے یا نہیں۔
    2008ء اپنے سفر کا آغاز کر چکا ہے، لیکن اس برس پاکستان کو ایک اور طرح کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور وہ ہیں پاکستان کے امن و امان کی صورتِ حال۔
    زمبابوے کی ٹیم تو جیسے تیسے پاکستان پہنچ چکی ہے، اور سائیڈ میچ کھیلنے میں مصروف ہے، لیکن مارچ میں آسٹریلیا کی ٹیم کااہم دورہ طے ہے، جس کے آگے بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ ہمارے حالات تو پہلے بھی خراب تھے، اور 2002ء میں بھی آسٹریلیا نے پاکستان آنے سے انکار کر دیاتھا جس کی وجہ سے شارجہ اور سری لنکا میں میچ کھیلنا پڑے تھے۔
    لیکن اب خاص طور پر بے نظیر بھٹو کےقتل کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کا حصہ بن گیا ہے۔ جس کی وجہ سے آسٹریلیا کے دورے کی بیل منڈھے چڑھتے نظر نہیں آتی۔
    اگر ٹیم کو کھیلنے کا موقع ملے تو کم از کم کاغذ پر ٹیم بری نہیں ہے۔ دونوں اوپنر، سلمان بٹ
    فی الحال نمبر پانچ پر مصباح کا قبضہ پکا ہے

    اور یاسر حمید کسی حد تک افتتاحی جوڑے کے طور پر جگہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ ون ڈاؤن پر یونس خان اور چار نمبر پر محمد یوسف کی اہمیت مسلمہ ہے۔ پانچوں نمبر پر فی الحال مصباح کا قبضہ پکا لگ رہا ہے۔ باؤلنگ میں ہمارے پاس دنیا کے بہترین فاسٹ باؤلروں کی کھیپ موجود ہے، شیعب اختر، محمد آصف اور عمرگل دنیا کی کسی بھی بیٹنگ لائن کو مشکلات میں ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
    صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیم متحد ہو کر کھیلے، اور شعیب اختر بیان بازی اور بالی وڈ کی بجائے گیند بازی پر زیادہ توجہ دیں۔

    I Have Green Blood In My Veins Because I Am a Pakistani



  • #2
    Re: پاکستانی کرکٹ 2007ء بھی ایک بحران

    mashaAllah

    Comment


    • #3
      Re: پاکستانی کرکٹ 2007ء بھی ایک بحران

      q jee ?/

      I Have Green Blood In My Veins Because I Am a Pakistani


      Comment


      • #4
        Re: پاکستانی کرکٹ 2007ء بھی ایک بحران

        nice sharing
        "Can you imagine what I would do if I could do all I can? "

        Comment


        • #5
          Re: پاکستانی کرکٹ 2007ء بھی ایک بحران

          thank you

          I Have Green Blood In My Veins Because I Am a Pakistani


          Comment

          Working...
          X