Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

مذہب کے نام پر قتل کسی طور جائز نہیں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • مذہب کے نام پر قتل کسی طور جائز نہیں

    مذہب کے نام پر قتل کسی طور جائز نہیں
    27 فروری 2015
    وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ اسلام کے نام پر قتل و غارت اورکفر کے فتوے کسی صورت جائز نہیں ہیں اور حکومت ایسے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ انہوں نے میڈیا کے کندھوں پر ذمہ داری ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر بدقسمتی سے ایک خدا،رسولؐ اورکتاب کو ماننے والے گروہوں میں بٹ گئے ہیں، تو میڈیا کو اس تفریق کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔میڈیا ایسے پروگراموں کا اہتمام کرے، جس سے مذہبی منافرت اورانتہاء پسندی کے خاتمے میں مدد ملے ۔ان کا کہنا تھا کہ مدارس کی اکثریت دینی تعلیمات کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہے ہو سکتا ہے بعض ادارے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کا کام کر رہے ہوں۔ دہشت گردی در حقیقت ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے اور اِسی مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ صوبے میں وال چاکنگ، اشتعال انگیز تقاریر، لاؤڈ سپیکر کے ناجائز استعمال،مذہبی منافرت پر مبنی لٹریچر کی تقسیم و اشاعت کے قانون پر سختی سے عملدر آمدکرایا جارہا ہے، ان قوانین میں ترامیم کر کے سزاؤں کو مزید سخت کیا گیا ہے۔400کے قریب غیر ملکی طلباء ایسے ہیں، جن کے ویزے کی میعادختم ہوچکی ہے، اس حوالے سے وفاقی حکومت کو لکھ دیا گیا ہے کہ جس کے جواب پر انہیں پنجاب سے بے دخل کیا جائے گا۔
    پاکستان میں فرقہ واریت اور مذہب کے نام پر قتل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے،پاکستان ادارہ برائے پیس سٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فرقہ واریت میں 2011ء سے بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2014 ء میں فرقہ واریت کے کل 292 واقعات ہوئے، جن میں 210 لوگ مارے گئے اور 312 زخمی ہوئے۔ 2015ء میں اب تک آٹھ ایسے واقعات ہو چکے ہیں، جن میں 104 لوگ جاں بحق ہو ئے، جبکہ 134 زخمی ہوئے۔ 1989ء سے لے کر 2015ء تک پاکستان میں پانچ ہزار سے زائد لوگ فرقہ واریت کی نذر ہو چکے ہیں اور پاکستان کا کوئی بھی صوبہ اس عفریت سے محفوظ نہیں ہے۔
    دہشت گردوں نے بھی مذہب کے نام پر ہی یہ طوفان برپا کر رکھا ہے،کبھی وہ کسی مسجد کو نشانہ بناتے ہیں، کبھی کسی امام بارگاہ پر حملہ کرتے ہیں۔ ان کی اسلام کی اپنی ہی تشریح ہے جسے وہ بندوق کے زور پر پوری قوم پرمسلط کرنا چاہتے ہیں جو اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اسلام تو برداشت اور صبر و تحمل کا مذہب ہے،اس میں فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اس میں تو کسی بھی انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔اسلام کی تعلیمات عام کرنے کے لئے آنحضورﷺ نے تلوار کا استعمال نہیں کیا تھا ، کوئی زبردستی نہیں کی تھی، آپؐ کا ہتھیار تو حسن اخلاق تھا ، جس سے آپﷺ نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا اور اسلام کی طرف مائل کیا۔ہم جس نبیﷺ کے امتی ہونے پر فخر کرتے ہیں، انہی کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں، فراموش کر چکے ہیں۔ایک دوسرے کے خیالات سننے کو تیار نہیں ہیں، کسی کو برداشت کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ مسلمان صدیوں سے مختلف فرقوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں،ہمیشہ سے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جاتا تھا، عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا پھر اچانک ایسا کیا ہوگیا،ایسا کون سا مسئلہ درپیش ہو گیا کہ لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کی دوڑ میں لگ گئے، اب یہاں مذہب کے نام پر جان لے لینا آسان ترین کام ہے،جو فیصلے اﷲ تعالیٰ کے کرنے والے ہیں وہ اُسی پر چھوڑ دینے چاہئیں۔ بغیر سوچے سمجھے کسی پر بھی کفرکا فتویٰ لگانے کا اختیار تو کسی کے پاس نہیں ہے۔فتویٰ کسی ایک شخص کے بارے میں تو ہو سکتا ہے،اس کے ذریعے کسی ایک انسان کے صحیح یا غلط فعل کا تعین تو کیا جا سکتا ہے، لیکن اجتماعی طور پر ایک پورے فرقے یا گروہ پر فتویٰ لگادینا اور اسے خارج از اسلام قرار دینا صریحاً ناجائز ہے، کسی بھی مفتی کو اس بات کا حق نہیں دیا جایا سکتا۔ایسے فتوے دینے والوں اور مذہب کے نام پر دنگا فساد بر پا کرنے والوں کی نشاندہی ہو نی چاہئے، اسے جرم قرار دنیا چاہئے اور ایسی حرکتیں کرنے والے عناصر کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہئے۔
    ہمیں اپنے معاشرے میں مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے کی روایت عام کرنی چاہئے، تمام فرقوں اور مسالک کے درمیان ہم آہنگی اور مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا ضابطہ اخلاق عمل میں لانا چاہئے جس کے ذریعے فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔ہم اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، اس کے لئے سب کو ہاتھ ملانے کی ضرورت ہے، جب تک ہم فرقوں سے بالا تر ہو کرمسلمان ہونے کا ثبوت نہیں دیں گے تب تک لوگ ہماری اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور ہم دہشت گردی کا جن بھی بوتل میں بند نہیں کر پائیں گے۔ہم سب کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ فرقہ واریت اور مذہب کے نام پر قتل و غارت کی اسلام میں ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہے،اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اس کا مقصد انتشار پھیلانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
    ***************************/editorials/27-Feb-2015/198290

  • #2
    Re: مذہب کے نام پر قتل کسی طور جائز نہیں

    قرآن مجید، مخالف مذاہب اور عقائدکے ماننے والوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کا نہیں بلکہ ’ لکم دینکم ولی دین‘ اور ’ لااکراہ فی الدین‘ کادرس دیتاہے اور جو انتہاپسند عناصر اس کے برعکس عمل کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول سلم ، قرآن مجید اور اسلام کی تعلیمات کی کھلی نفی کررہے ۔ فرقہ واریت مسلم امہ کیلئے زہر ہے اور کسی بھی مسلک کے شرپسند عناصر کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دینا اسلامی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ اتحاد بین المسلمین کےخلاف ایک گھناؤنی سازش ہے۔ ایک دوسرے کے مسالک کے احترام کا درس دینا ہی دین اسلام کی اصل روح ہے۔ دہشت گردی، انتہاپسندی اور فرقہ واریت نے قومی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
    اسلام میں فرقہ پرستی کا کوئی تصور نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے
    وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ.
    ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘
    آل عمران، 3 :
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرقہ پرستی کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
    يَدُ اﷲِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَ مَنْ شَذَّ شَذَّ اِلَی النَّارِ.
    ’’اجتماعی وحدت کو اللہ کی تائید حاصل ہوتی ہے، جو کوئی جماعت سے جدا ہو گا وہ دوزخ میں جا گرے گا۔‘‘
    ترمذی، السنن، کتاب الفتن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء فی لزوم الجماعة، 4 : 39 - 40، رقم : 2167
    اسلام انسانیت کی بقاء، معاشرے میں امن و سلامتی، اتحاد، اخوت اور بھائی چارے کا ضامن ہے۔ اس میں فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرمایا
    إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ.
    ’’بیشک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں۔‘‘
    الانعام، 6 : 159
    اس آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے کوئی سرو کار اور تعلق نہ رکھیں، جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی جمعیت کا شیرازہ منتشر کر دیا۔ علاوہ ازیں ملی شیرازہ کو تفرقہ و انتشار کے ذریعے تباہ کرنے والوں کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی سخت احکامات صادر فرمائے۔
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    ’’جو شخص بھی تمہاری جماعت کی وحدت اور شیرازہ بندی کو منتشر کرنے کے لئے قدم اٹھائے اس کا سر قلم کر دو۔‘‘
    مسلم، الصحيح، کتاب الامارة، باب حکم من فرق امر المسلمين و هو مجتمع، 3 : 478، رقم : 1852
    مذکورہ بالا قرآنی آیت اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اسلام میں فرقہ بندی اور تفرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔

    Comment

    Working...
    X