پشاور میں 16دسمبر کی صبح کتنی ہی ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو اٹھایا ہوگا کہ بیٹا اٹھ جاؤ ہاتھ منہ دھو لو، میں ناشتہ بنا رہی ہوں اور کتنے ہی بچوں نے نرم گرم بستر کو چھوڑنے سے انکار کیا ہوگا۔ سردیوں کی صبح اٹھنا کتنا مشکل ہوتا ہے نا؟؟ بہت سے ماؤں نے پیار سے ناشتہ بستر میں ہی اپنے بچوں کو کروا دیا ہوگا۔ اپنے ہاتھ سے نوالے کھلائے ہوں گے۔ کتنے ہی بچوں نے ناشتہ نہ کرنے کی ضد کی ہوگی لیکن مامتا کے آگے کون جیت سکتا ہے؟ کسی ماں نے اپنے لال کو پراٹھا انڈا کھلایا ہوگا کسی ماں نے جیم بریڈ اور چائے کسی بچے نے صبح توس کھانے کی فرمائش کی ہوگی، کسی نے کہا ہوگا امی مجھے صرف دودھ چاہیے اور کچھ نہیں۔ یوں ضد لاڈ میں بچے تیار ہوئے ہوں گے۔ماؤں نے اجلے یونیفارم خود پہنائے ہوں گے، موزے جوتے بھی۔ کچھ بچوں نے کہا ہوگا کہ امی میں اب بڑا ہوگیا ہوں میں خود پہن سکتا ہوں، آپ کیوں میرے کام کرتی ہیں۔ لیکن ماؤں نے پھر بھی مامتا سے مجبور سارے کام خود کیے ہوں گے۔ کچھ بچےجنہوں نے ابھی نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہوگا امی سے چھپ کر جیل کر لگا کر ہیر اسٹائل بھی بنا یا ہوگا لیکن امی نے تو آکر اس ہیئر اسٹائل پر اونی ٹوپی رکھ دی ہوگی کہ بیٹا باہر بہت ٹھنڈ ہے، بنا ٹوپی کے باہر مت جانا۔ بچوں کی تیاری کے دوران ماؤں نے بہت سارے ٹفن لنچ بکس بھی تیار کیے ہوں گے، گرما گرم پراٹھے، کباب، بریڈ، آملیٹ اور کیا نعمت نہیں، اس چھوٹے سے ڈبے میں چپس، کیچپ، سوسج، مفن کیا نہیں۔کتنے ہی بچوں نے اپنے والد سےبھی پیسے نکلوائے ہوں گے کہ کینٹین سے بھی چیزیں کھائیں گے اور دوستوں بھی کھلائیں گے۔
کوئی بچہ اسکول وین میں گیا ہوگا تو کوئی اسکول بس میں، کوئی ڈرائیور کے ساتھ تو کسی نے ماں باپ کے ساتھ درس گاہ کا رخ کیا ہوگا۔ ماؤں نے کتنی دیر ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے بچوں کو خداحافظ کہا ہوگا، جب تک وہ اوجھل نہیں ہوا ہوگا، ماں کا ہاتھ رکا نہیں ہوگا۔ کتنی دعائیں کرکے اسکول بھیجا ہوگا کیونکہ آج تو اسکول میں پیپر تھا۔ کتنے ہی باپ بھی اپنے بچوں کی کامیابی کے لیے دعاگو رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ میرے بچے کو امتحان میں سرخرو کرنا۔ زندگی معمول کے مطابق تھی، بچے مسکول میں، مائیں اپنے گھروں میں اور والد اپنے اپنے دفاتر میں۔ مائیں تو بچوں کے لیے دوپہر کا کھانا بنانے میں مصروف اور سوچتی ہوں گی جب میرا بیٹا میرالال واپس آئے گا تو اس کا من پسند کھانا کھلاؤں گی،لیکن یہ دن تو شروع ہی ہوا تھا قیامت صغریٰ میں تبدیل ہونے کے لیے۔ بچے اپنی اپنی کلاسوں میں امتحان دینے میں مشغول تھے کہ اچانک دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کردیا، ڈیڑھ ہزار نہتے طالب علم اوران کے نہتے110اساتذہ اس صورتحال کے لیے تیا ر نہیں تھے،لیکن پھر بھی اساتذہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ بچوں کو بچایا جائے۔والدین کے بعد دنیا کا سب سے مقدس رشتہ اساتذہ کا ہے، کتنے ہی اساتذہ نے دہشت گردوں سے کہا ہوگا کہ ان کے شاگردوں کو کچھ مت کہا جائے لیکن دہشت گرد کہاں انسانیت کی زبان جانتے ہیں۔ انہوں نے اندھا دھند بچوں اور اساتذہ پر فائر کھول دیا۔
جس وقت گھروں میں مائیں اپنے بچوں کے لیے انواع واقسام کے کھانے بنا رہی تھیں اس وقت دہشت گرد چن چن کر ان کے بچوں کو گولیوں سے چھلنی کررہے تھے۔ بچوں کے اجلے یونیفارم خون کے لال رنگ سے رنگے گئے، ان کی کتابیں بستے سب دہشت گرد اپنے پاؤں تلے روندتے گئے اور مزید لوگوں کو نشانہ بنانے نکل گئے۔ جب یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تو مائیں گھروں سے نکلیں۔شفقت سے بھرپور باپ دفاتر کاروباری مراکز سے بھاگے کہ اپنے جگر گوشوں کو بچائیں لیکن ان کے بچے تو دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیے تھے۔ پاک آرمی نے آپریشن کا آغاز کیا، بچوں اور اساتذہ کو دہشت گردوں کے چنگل سے چھڑوانے کا آغاز کیا۔ اب تک بیشتر بچوں اور اساتذہ کو بحفاظت نکال لیا گیالیکن بہت سے ذی روح جان کی بازی ہار گئے۔ مائیں بلکتی رہیں اور اسکول سے لاشیں نکلتی رہیں،وہ جو خواب ان بچوں نے دیکھے تھے وہ سب چکنا چور ہوگئے، جو امیدیں والدین کی تھیں وہ بھی ایک گولی کی وجہ سے ختم ہوگئیں۔
پورا پشاور خون میں نہا گیا، وہ بھی ننھے منے پھولوں کےخون سے۔وہ پھول جو بنا کھلے مرجھا گئے۔وہ پھول جنہوں نے ابھی پائلٹ، ڈاکٹر، صحافی، سیاستدان، انجینئر، فوجی، بینکار بن کر اس ملک کی باگ ڈور کو سنبھالنا تھا۔ وہ بچے جن کی ماؤں نے ان کے سہرے کے پھول دیکھنے تھے سب منوں مٹی تلے جا سوئے۔ جس ماں نے نو مہینے اپنی کھوکھ میں رکھ کر پیدا کیا راتوں کو جاگ جاگ کر اپنے بچوں کو بڑا کیا، آج وہ یہ رات ان کے بنا کیسے گزاریں گے، اس کا جواب کون دے گا؟والدین اسپتالوں میں اپنے بچوں کو دیوانہ وار ڈھونڈتے رہے اور اس وقت بچوں کی کراہنے کی آوازیں اور لواحقین کی آہ و زاری کی وجہ سے قیامت کا سماں ہےلیکن اب بھی قوم کے حوصلے بلند ہیں۔ بچوں کی لاشیں وصول کرتے وقت بھی والدین کہتے رہے ہمیں اپنے بچوں کی شہادت پر فخر ہے اور حکومت اور پاک فوج چن چن کر ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔
سوشل میڈیا پر بھی عوام غم و حسرت کی تصویر نظر آئے اور پل پل اس واقعے کی مذمت کرتے رہے اور آنسو بہاتے رہے۔ آج ساری قوم متحد نظر آرہی ہے، اسی جذبے کے ساتھ ہم دہشت گردی کو شکست دے سکتے ہیں۔ جن ماؤں کے جگر گوشے چلے گئے وہ کبھی واپس نہیں آسکتے اور کوئی ان کے غم کا مداوا نہیں کرسکتا لیکن حکومت اور فوج مل کر بیٹھے اورحکمت عملی تیار کرے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کا سدباب کیسے کرنا ہے تاکہ کسی اور ماں کی گو د نہ اجڑے اور کوئی بھی بچہ اس صورتحال کا سامنا نہ کرے جس دہشت بربریت اور ظلم کے نشانہ بچے آج بنے۔
ظلم کی وہ داستاں کہ کانپے قلم جو ہو رقم
روحوں کے وہ زخم جو لفظوں سے بھر نہ پائیں گے
جو نگاہیں خامشی سے راہ ہماری دیکھتی ہیں
جان لو پتھر اگیں گر وہ ہماری آس ہیں
خون سے رنگے ہوئے ان منظروں کو دیکھتے
تو کیا ہمارا روپ ہوگا مختلف قاتل سے پھر
آنے والی نسل جب تاریخ کے اوراق پر
کاغذ کے منہ پہ خود پڑھے گی سب لکھا اس طور سے
تو کیا گوارہ وہ کرے گی شکل ہماری دیکھنا
Comment