اسلام علکیم
یہ ایک فرضی کہانی ہے کسی قسم کی مشہابت اتفاقیہ ہوگی اور راقم الحروف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔۔:nail:
پیارے پچوں۔۔۔دو دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں ایک شریف بندہ رہتا تھا،،اس شریف آدمی کے دو بیٹے بھی بہت شریف تھے۔۔انہوں نے ایک دفعہ پنڈی چکوال ریلوے ٹریک کا بڑا حصہ چوری کر کے اتفاق فونڈری میں ڈھال دیا۔ ان دونوں شریف بھائیوں کی اس دیانت اور ایمانداری کا صلہ جلد ہی انہیں ملا اور وہ کافی متمول ہوگئے۔۔اسی طرح کی مزید دیانت داریوں کے بعد بالآاآخر اس ملک کے بادشاہ بن گئے۔۔دیکھا بچوں دیانت کا پھل ضرور ملتا ہے۔۔۔۔لیکن خوشی کے ساتھ غم بھی ہوتا جلد ہی دونوں بھائی عقل سے پیدل اور سر سے گنجے ہو گئے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بافضل تعالی عقل سے پیدل ہونے کے باوجود ایک شریف اس ملک کا بادشاہ ہے اور اس کا بھائی وزیر تدبیر ،۔بن چکا ہے
گنجے شریف دولت کو ہاتھ کی میل سمجھتے تھے انہوں نے اس وجہ سے اس میل کو اپنے ملک سے دور بنکوں میں پھنک دیا۔۔پیارے بچوں یہ جس ملک کی بات ہو رہی وہاں ہوشربا مہنگائی تھی ملاوٹ قتل وغارت دہشت گردی دن میں سولہ سولہ گھنٹے لوڈشیڈنگ تھی عوام جوہڑوں کا پانی پی کر پیاس بجھاتی تھی نہ سر پہ چھت نہ پائوں میں زمین الغرض عوام انتہائی بدحال تھی۔۔لیکن ان گنجوں کے دل میں عوام کو درد کوٹ کوٹ کر بھرا تھا یہ عوام کی دیرینہ خدمت کو تڑپ رہے تھے ،چھوٹا گنجا جو وزیر باتدبیر تھا ایک روز عوام کے غم میں نڈھال ہو کر اپنے محل میں بیٹھا تھا کہ یکایک اس کے ذہن میں عوام کے مسائلحل کرنے کا ایک طریقہ ذہن میں ایا۔۔۔پیارے بچوں جہاں چاہ وہاں راہ کے مصداق اگر نیت صاف ہو تو منزل اہی جاتی چھوٹے گنجے نے سرکاری خزانے کو ایک بڑی پھکی دی اور کئی سو ارب روپے سے عوام کے مسائل کا حل یعنی سستا تندور شروع کر دیا۔۔جہاں عوام کو دو روپےکی روٹی ملتی تھی۔۔اس کے بعد چھوٹے گنجھے نے اخباروں میں لاکھوں کے اشتہار دے کے اس منصوبے کی پبلسٹی کی۔۔اور تمام کاروبار ملک کو لات مار کر دن رات اس کام میں مشغول ہوگیا چھوٹے گنجھے کی مستعدی دیکھنے کے لائق تھی عوام اس دو رپے کی روٹی کا رات کے وقت چھت کی طرح تان لیتی تھی، جب دوا کی ضرورت ہو تو بھی اسی روٹی سے کام چلتا تھا یہ روٹی بستر بھی بن جاتی تھی اس سے روزگار بھی تھا لیکن چھوٹے گنجھے کی اتنی مستعدی کے باوجودعوام مفوک الحال ہی رہی اللہ جانے اس کی کیاوجہ تھی۔۔
بڑا گنجا بھی عوام کے غم میں نڈھال سری پائے کھاتا رہتا تھا لوڈشیڈنگ سے نجات دلانا اس کے بس میں نہیں تھا لیکن عوام کی تکلیگ بھی گوارہ نہ تھی اس وجہ سے اس نے جلدی جلدی نندی پور بجلی گھرکا افتتاع کر دیا جو بجلی کے علاہ ہر چیز پیدا کرتا تھا لیکن رحم دل گنجا نے اس کا بھی حل نکال لیا اور پوری تین دن اس پاور ہاوس کو ڈیزل پہ چلا کر بجلی پیدا کی۔۔
چھوٹا گنجا بجلی کے سلسلے میں بڑے گنجھے سے بھی بہت اگے تھا اس نے کہا اگر بجلی پیدا کرنے کو اسے اپنا کوٹ بھی سیل کرنا پڑا تو کرے گا۔۔کوٹ جو دس بارہ ہزار کا تھا بک جاتا تو ملک کے تمام مسائل حل ہوجاتے ۔یہاں بھی چھوٹے گنجھے کی ملک سے محبت جھلکتی انہوں نے صریحا اپنے محلات اپنا کروڑوں کا بینک بیلنس کاروبار ملیں بیچنے کی بات نہیں کی ۔۔دیکھا پیارے بچوں یہ ہوتی بے لوث محبت وطن سے
جاری ہے کیونکہ میری آںکھوں میں آنسو اگئے ان بھائیوں کی محب وطنی دیکھ کے میں جلد ہی اتا
:pray:
یہ ایک فرضی کہانی ہے کسی قسم کی مشہابت اتفاقیہ ہوگی اور راقم الحروف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔۔:nail:
پیارے پچوں۔۔۔دو دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں ایک شریف بندہ رہتا تھا،،اس شریف آدمی کے دو بیٹے بھی بہت شریف تھے۔۔انہوں نے ایک دفعہ پنڈی چکوال ریلوے ٹریک کا بڑا حصہ چوری کر کے اتفاق فونڈری میں ڈھال دیا۔ ان دونوں شریف بھائیوں کی اس دیانت اور ایمانداری کا صلہ جلد ہی انہیں ملا اور وہ کافی متمول ہوگئے۔۔اسی طرح کی مزید دیانت داریوں کے بعد بالآاآخر اس ملک کے بادشاہ بن گئے۔۔دیکھا بچوں دیانت کا پھل ضرور ملتا ہے۔۔۔۔لیکن خوشی کے ساتھ غم بھی ہوتا جلد ہی دونوں بھائی عقل سے پیدل اور سر سے گنجے ہو گئے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بافضل تعالی عقل سے پیدل ہونے کے باوجود ایک شریف اس ملک کا بادشاہ ہے اور اس کا بھائی وزیر تدبیر ،۔بن چکا ہے
گنجے شریف دولت کو ہاتھ کی میل سمجھتے تھے انہوں نے اس وجہ سے اس میل کو اپنے ملک سے دور بنکوں میں پھنک دیا۔۔پیارے بچوں یہ جس ملک کی بات ہو رہی وہاں ہوشربا مہنگائی تھی ملاوٹ قتل وغارت دہشت گردی دن میں سولہ سولہ گھنٹے لوڈشیڈنگ تھی عوام جوہڑوں کا پانی پی کر پیاس بجھاتی تھی نہ سر پہ چھت نہ پائوں میں زمین الغرض عوام انتہائی بدحال تھی۔۔لیکن ان گنجوں کے دل میں عوام کو درد کوٹ کوٹ کر بھرا تھا یہ عوام کی دیرینہ خدمت کو تڑپ رہے تھے ،چھوٹا گنجا جو وزیر باتدبیر تھا ایک روز عوام کے غم میں نڈھال ہو کر اپنے محل میں بیٹھا تھا کہ یکایک اس کے ذہن میں عوام کے مسائلحل کرنے کا ایک طریقہ ذہن میں ایا۔۔۔پیارے بچوں جہاں چاہ وہاں راہ کے مصداق اگر نیت صاف ہو تو منزل اہی جاتی چھوٹے گنجے نے سرکاری خزانے کو ایک بڑی پھکی دی اور کئی سو ارب روپے سے عوام کے مسائل کا حل یعنی سستا تندور شروع کر دیا۔۔جہاں عوام کو دو روپےکی روٹی ملتی تھی۔۔اس کے بعد چھوٹے گنجھے نے اخباروں میں لاکھوں کے اشتہار دے کے اس منصوبے کی پبلسٹی کی۔۔اور تمام کاروبار ملک کو لات مار کر دن رات اس کام میں مشغول ہوگیا چھوٹے گنجھے کی مستعدی دیکھنے کے لائق تھی عوام اس دو رپے کی روٹی کا رات کے وقت چھت کی طرح تان لیتی تھی، جب دوا کی ضرورت ہو تو بھی اسی روٹی سے کام چلتا تھا یہ روٹی بستر بھی بن جاتی تھی اس سے روزگار بھی تھا لیکن چھوٹے گنجھے کی اتنی مستعدی کے باوجودعوام مفوک الحال ہی رہی اللہ جانے اس کی کیاوجہ تھی۔۔
بڑا گنجا بھی عوام کے غم میں نڈھال سری پائے کھاتا رہتا تھا لوڈشیڈنگ سے نجات دلانا اس کے بس میں نہیں تھا لیکن عوام کی تکلیگ بھی گوارہ نہ تھی اس وجہ سے اس نے جلدی جلدی نندی پور بجلی گھرکا افتتاع کر دیا جو بجلی کے علاہ ہر چیز پیدا کرتا تھا لیکن رحم دل گنجا نے اس کا بھی حل نکال لیا اور پوری تین دن اس پاور ہاوس کو ڈیزل پہ چلا کر بجلی پیدا کی۔۔
چھوٹا گنجا بجلی کے سلسلے میں بڑے گنجھے سے بھی بہت اگے تھا اس نے کہا اگر بجلی پیدا کرنے کو اسے اپنا کوٹ بھی سیل کرنا پڑا تو کرے گا۔۔کوٹ جو دس بارہ ہزار کا تھا بک جاتا تو ملک کے تمام مسائل حل ہوجاتے ۔یہاں بھی چھوٹے گنجھے کی ملک سے محبت جھلکتی انہوں نے صریحا اپنے محلات اپنا کروڑوں کا بینک بیلنس کاروبار ملیں بیچنے کی بات نہیں کی ۔۔دیکھا پیارے بچوں یہ ہوتی بے لوث محبت وطن سے
جاری ہے کیونکہ میری آںکھوں میں آنسو اگئے ان بھائیوں کی محب وطنی دیکھ کے میں جلد ہی اتا
:pray:
Comment