بالآخرہ خان سید عرف سجنا اور ملا فضل اللہ کی تحریک طالبان پاکستان کے درمیان دراڑ پیدا ہوا اور خان سید نے اپنی ہچکچاہٹ پرقابو پاتے ہوئے ملک بھر میں تباہی مچا نے والے عسکریت پسند گروہ کو خیر آباد کہہ دیا . اور اب عسکریت پسند اب نظریاتی اور علقائی طور پر منقسم ہو چکے ہیں . جغرافائی طور پر دیکھیں تو سجنا سمیت حکومت حامی گروہ فاٹا کے جنوبی حصوں (شمالی و جنوبی وزیرستان) پر غلبہ رکھتے ہیں . ان جنوبی حصوں کے کمانڈر نذیر اور حافظ گل بہادر گروہوں نے پہلے ہی حکومت کے ساتھ امن معاہدے کر رکھے ہیں . سجنا محسود علاقے پر قبضہ چاہتے ہیں اور ایسے میں وہ حائل آخری رکاوٹ شہریار محسود گروہ کو ختم کرنے کی کوششوں میں ہیں . ٹی ٹی پی میں شہریار اکیلے نامور محسود کمانڈر رہ گئے ہیں اور سجنا کے خلاف لڑائی میں وہ تیزی سے اپنے آدمی اور آپشنز کھوتے جا رہے ہیں . انہیں یا تو سجنا سے ہار ماننا پڑی گی یا پھر بے رحم قبائلی حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے فنا ہونا پڑے گا . سجنا کے ٹی ٹی پی سے بغاوت کے بعد اب پاکستان میں تین متوازی جنگجو قیادتیں بن گئے ہیں :
ایک: جنوبی وزیرستان کے بے جوڑ محسود کمانڈر سجنا، جن کے پاس سب سے زیادہ جنونا فوج ہے .
دوئم: شمالی وزیرستان کے سب سے بااثر کمانڈرحافظ گل بہادر .
سوئم: سب سے بے رحم اور اعلانیہ حکومت مخالف عبدالولی عرف خالد خراسانی ، جو بہت تیزی سے ملا فضل اللہ کی جگہ ٹی ٹی پی کے متبادل کمانڈر بنتے جا رہے ہیں .
ویسے خراسانی حکیم اللہ محسود کے نعم البدل ہیں . پشاور، اسلام آباد اور کراچی سمیت پورے ملک میں پھیلے اپنے وسیع نیٹ ورک کے حامل خراسانی دوسرے سخت گیر گروہوں کی مدد سے آج پاکستان کے لیے سب سے خطرناک گروپ بنا ہوا ہے . اب کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کسی طرح وانا میں بہاؤالدین کی قیادت میں سجنا ، گل بہادر اور کمانڈر نذیر گروہ کے درمیان اتحاد قائم کیا جا سکے . خیال ہے کہ سجنا پہلے ہی گل بہادر کو پیغام بھیج چکے ہیں کہ دونوں مل کر شمالی وزیرستان کو حکومت مخالف غیر ملکی اور مقامی جنگجوؤں سے پاک کریں تاکہ علاقے میں ممکنہ فوجی آپریشن سے بچا جا سکے . معلوم ہوا ہے کہ میران شاہ اور میر علی میں ٹی ٹی پی اور غیر ملکی جنگجوؤں، جن میں زیادہ تر ازبک ہیں، کو کہا جائے گا کہ وہ مقامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے پر امن زندگی گزاریں یا پھرعلاقے سے چلے جائیں . میر علی اور میران شاہ میں فضائی بمباری پہلے ہی مفید ثابت ہوئی ہے اور وہاں میں موجود زیادہ تر غیر ملکی جنگجو شمالی وزیرستان کے علاقوں دتہ خیل اور شوال، لوئر کرم، اپر اورکزئی یا پھر تیراہ وادی کے انتہائی گھنے جنگلوں میں چلے گئے ہیں . میر علی میں اب اکیلی اسلامی تحریک ازبکستان رہ گئی ہے جس نے ابھی تک علاقے چھوڑنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا اور ایسا لگتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کرنے کے لیے ازبک جنگجو خراسانی سے مل چکے ہیں .
اگر کوئی ایسا موقع ہے جب فوجی آپریشن کے لیے حالات موضوں ہوں، جب عسکریت پسند تتر بتر اور کمزور ہوں اور جب عوامی تائید بھی حاصل ہو تو وہ موقع آج اور ابھی ہے . اب رد عمل کے بارے میں تشویش کا وقت نہیں ہے بلكہ اٹھنے اور کام تمام کرنے كا وقت ہے . مواقع پہلے بھی گنوا ئے گئی تہی لیکن اس مرتبہ ایسا کرنے کے متحمل نہیں ہونا چاہیئے
ایک: جنوبی وزیرستان کے بے جوڑ محسود کمانڈر سجنا، جن کے پاس سب سے زیادہ جنونا فوج ہے .
دوئم: شمالی وزیرستان کے سب سے بااثر کمانڈرحافظ گل بہادر .
سوئم: سب سے بے رحم اور اعلانیہ حکومت مخالف عبدالولی عرف خالد خراسانی ، جو بہت تیزی سے ملا فضل اللہ کی جگہ ٹی ٹی پی کے متبادل کمانڈر بنتے جا رہے ہیں .
ویسے خراسانی حکیم اللہ محسود کے نعم البدل ہیں . پشاور، اسلام آباد اور کراچی سمیت پورے ملک میں پھیلے اپنے وسیع نیٹ ورک کے حامل خراسانی دوسرے سخت گیر گروہوں کی مدد سے آج پاکستان کے لیے سب سے خطرناک گروپ بنا ہوا ہے . اب کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کسی طرح وانا میں بہاؤالدین کی قیادت میں سجنا ، گل بہادر اور کمانڈر نذیر گروہ کے درمیان اتحاد قائم کیا جا سکے . خیال ہے کہ سجنا پہلے ہی گل بہادر کو پیغام بھیج چکے ہیں کہ دونوں مل کر شمالی وزیرستان کو حکومت مخالف غیر ملکی اور مقامی جنگجوؤں سے پاک کریں تاکہ علاقے میں ممکنہ فوجی آپریشن سے بچا جا سکے . معلوم ہوا ہے کہ میران شاہ اور میر علی میں ٹی ٹی پی اور غیر ملکی جنگجوؤں، جن میں زیادہ تر ازبک ہیں، کو کہا جائے گا کہ وہ مقامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے پر امن زندگی گزاریں یا پھرعلاقے سے چلے جائیں . میر علی اور میران شاہ میں فضائی بمباری پہلے ہی مفید ثابت ہوئی ہے اور وہاں میں موجود زیادہ تر غیر ملکی جنگجو شمالی وزیرستان کے علاقوں دتہ خیل اور شوال، لوئر کرم، اپر اورکزئی یا پھر تیراہ وادی کے انتہائی گھنے جنگلوں میں چلے گئے ہیں . میر علی میں اب اکیلی اسلامی تحریک ازبکستان رہ گئی ہے جس نے ابھی تک علاقے چھوڑنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا اور ایسا لگتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کرنے کے لیے ازبک جنگجو خراسانی سے مل چکے ہیں .
اگر کوئی ایسا موقع ہے جب فوجی آپریشن کے لیے حالات موضوں ہوں، جب عسکریت پسند تتر بتر اور کمزور ہوں اور جب عوامی تائید بھی حاصل ہو تو وہ موقع آج اور ابھی ہے . اب رد عمل کے بارے میں تشویش کا وقت نہیں ہے بلكہ اٹھنے اور کام تمام کرنے كا وقت ہے . مواقع پہلے بھی گنوا ئے گئی تہی لیکن اس مرتبہ ایسا کرنے کے متحمل نہیں ہونا چاہیئے
Comment