چند ہفتوں پہلے ، بلوچستان کے شہر پنجگور میں مسلح غنڈے کلاس میں گھس كر ، طلباء کو حکم دیا کہ جو تعلیم وہ حاصل کر رہے ہیں ، شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی . تنظیم الاسلام الفرقان نامی گروہ ، جو پہلے غیرمعروف تھا ، ان اسکولوں کو تحریری دھمکیاں دے رہا ہے جہاں لڑکیاں پڑھتی ہیں اور خواتین اساتذہ کام کرتی ہیں . انھیں دھمکی دیجارہی ہے کہ وہ "بیہودہ مغربی" تعلیم حاصل نہ کریں . اس گروہ نے ان ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی نشانہ بنایا جو لڑکیوں کو اسکول پہنچاتے ہیں . لوگوں کو بتانے کے لئے کہ وہ ان کی بات سمجھ لیں انہوں نے 14 مئی کو ایک وین پر گولی چلائی اور اسے جلادیا جو اسکول کی طرف جارہی تھی .
پاکستان میں تعلیم پر انتہا پسندوں کے حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں . ایک اندازے کے مطابق کے پی میں حالیہ برسوں کی عسکریت پسندی کے نتیجے میں 600000 طلباء حصول تعلیم سے محروم ہیں . گذشتہ مہینے ہی میں کے پی کی شعبہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق عسکرت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں صوبے کے 160 پرائمری اور سکنڈری اسکول اور پشاور کے 13 اسکول بند رہے . بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تعداد صحیح نہیں ہے بلکہ 385 اسکول بند رہے جن میں سے 295 لڑکیوں کے اسکول تھے . یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ اس میں وہ درجنوں اسکول شامل نہیں ہیں جنھیں عسکریت پسندوں نے 2000 کی دہائی کے وسط سے بموں کے حملوں میں تباہ کردیا تھا .
ان اسکولوں کے بند ہوجانے کے نتیجے میں مدرسوں کی تعداد بڑھ جائیگی جسکے نتیجے میں عسکریت پسندوں کی حمایت میں اضافہ ہوگا . كچھ رپورٹوں كے مطابق مدرسوں اور تشدد پسند انتہاپسندوں کے درمیان تعلق موجود ہے . مدرسے نہ صرف نئے اركان اور پیسے فراہم کرتے ہیں جنھیں جنگجوئی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، بلکہ ان سے نیٹ ورکنگ کا کام بھی لیا جاتا ہے جس سے عسکریت پسند گروہوں کو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں سہولت ہوتی ہے . رپورٹوں کے مطابق صوبے میں 2500 رجسٹرڈ اور 10000 ہزار غیر رجسٹرڈ مدرسے موجود ہیں .
تعلیم پر عسکریت پسندی کو روکنے میں ناکامی کے نتیجے میں ہمیں غیر ضروری طور پر ایک نسل سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور عسکریت پسندی کے منفی، دل دہلا دینے والے اثرات کو کم کرکے بیان کرنا ممکن نہیں: پڑھی لکھی آبادی کے بغیر جمہوریت کام نہیں کرسکتی کیونکہ ایسے ہی لوگ شہری معاملات میں حصہ لے سکتے اور تنقیدی سوچ کے حامل ہوتے ہیں . تعلیم حاصل کئے بغیر، پاکستان کے عوام اس ہنرمندی سے محروم ہوجائنگے جو عالمی سطح کی معیشت میں حصہ لینے کے لئے ضروری ہے اور ان فوائد سے بھی محروم ہوجائنگے جو ایک بڑی آبادی سے حاصل ہوسکتے ہیں .
بین الاقوامی ملازمتوں میں پاکستان کا حصہ بھی گھٹ جائیگا جس سے ہماری معیشت کو دھچکا پہنچے گا جس کا باہر سے آنیوالے زر مبادلہ پر گہرا انحصار ہے- علاوہ ازیں، یہ حقیقت کہ اس سے کے پی اور بلوچستان کے اسکولوں کو سخت نقصان پہنچا ہے صوبوں کے درمیان تناؤ بڑھ سکتا ہے کیونکہ دیگر صوبوں کے ساتھ ترقی کے اشاریوں کے درمیان خلیج بڑھتی جائیگی . چنانچہ، اسکے نتیجے میں نہ صرف زندگیوں کا نقصان ہوگا بلکہ سیاست پر بھی اسکے براہ راست اثرات پڑ سکتے ہیں ، تاوقتیکہ اسکی روک تھام نہ کیجائے .
پاکستان میں تعلیم پر انتہا پسندوں کے حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں . ایک اندازے کے مطابق کے پی میں حالیہ برسوں کی عسکریت پسندی کے نتیجے میں 600000 طلباء حصول تعلیم سے محروم ہیں . گذشتہ مہینے ہی میں کے پی کی شعبہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق عسکرت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں صوبے کے 160 پرائمری اور سکنڈری اسکول اور پشاور کے 13 اسکول بند رہے . بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تعداد صحیح نہیں ہے بلکہ 385 اسکول بند رہے جن میں سے 295 لڑکیوں کے اسکول تھے . یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ اس میں وہ درجنوں اسکول شامل نہیں ہیں جنھیں عسکریت پسندوں نے 2000 کی دہائی کے وسط سے بموں کے حملوں میں تباہ کردیا تھا .
ان اسکولوں کے بند ہوجانے کے نتیجے میں مدرسوں کی تعداد بڑھ جائیگی جسکے نتیجے میں عسکریت پسندوں کی حمایت میں اضافہ ہوگا . كچھ رپورٹوں كے مطابق مدرسوں اور تشدد پسند انتہاپسندوں کے درمیان تعلق موجود ہے . مدرسے نہ صرف نئے اركان اور پیسے فراہم کرتے ہیں جنھیں جنگجوئی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ، بلکہ ان سے نیٹ ورکنگ کا کام بھی لیا جاتا ہے جس سے عسکریت پسند گروہوں کو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں سہولت ہوتی ہے . رپورٹوں کے مطابق صوبے میں 2500 رجسٹرڈ اور 10000 ہزار غیر رجسٹرڈ مدرسے موجود ہیں .
تعلیم پر عسکریت پسندی کو روکنے میں ناکامی کے نتیجے میں ہمیں غیر ضروری طور پر ایک نسل سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور عسکریت پسندی کے منفی، دل دہلا دینے والے اثرات کو کم کرکے بیان کرنا ممکن نہیں: پڑھی لکھی آبادی کے بغیر جمہوریت کام نہیں کرسکتی کیونکہ ایسے ہی لوگ شہری معاملات میں حصہ لے سکتے اور تنقیدی سوچ کے حامل ہوتے ہیں . تعلیم حاصل کئے بغیر، پاکستان کے عوام اس ہنرمندی سے محروم ہوجائنگے جو عالمی سطح کی معیشت میں حصہ لینے کے لئے ضروری ہے اور ان فوائد سے بھی محروم ہوجائنگے جو ایک بڑی آبادی سے حاصل ہوسکتے ہیں .
بین الاقوامی ملازمتوں میں پاکستان کا حصہ بھی گھٹ جائیگا جس سے ہماری معیشت کو دھچکا پہنچے گا جس کا باہر سے آنیوالے زر مبادلہ پر گہرا انحصار ہے- علاوہ ازیں، یہ حقیقت کہ اس سے کے پی اور بلوچستان کے اسکولوں کو سخت نقصان پہنچا ہے صوبوں کے درمیان تناؤ بڑھ سکتا ہے کیونکہ دیگر صوبوں کے ساتھ ترقی کے اشاریوں کے درمیان خلیج بڑھتی جائیگی . چنانچہ، اسکے نتیجے میں نہ صرف زندگیوں کا نقصان ہوگا بلکہ سیاست پر بھی اسکے براہ راست اثرات پڑ سکتے ہیں ، تاوقتیکہ اسکی روک تھام نہ کیجائے .