یہ نیچے مضمون كو پڑھ كر مجہے ایسا لگتا ہے كہ صرف میرا سوچ ایسا نہیں بلكہ بہت سے لوگ ایسے سوچتے ہیں . بات صرف یہ ہے كہ بہت سے لوگ ایسے سوچ كر كے اپنا نظریات كو كچھ نہ كچھ دلیل كی وجہ سے چھپا ركھنا چاہتے ہیں . مگر ہمارے ملك كی خراب حالات كے دیكھ كر ہم كو اپنا آواز اٹہانا پڑیگا كیوں كہ شدت پسند ہماری آواز كو ہمیشہ كے لئے بند كرنا چاہتے ہیں
عالم اسلام اور سازشی ذہنیت
پچھلے کچھ برسوں میں اس بات کی فکر بڑھتی جا رہی ہے کہ ناصرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کا ایک بڑا مسئلہ اسلامی شدت پسندی ہے. اس خوف کی وجہ سے دنیا میں کافی وسیع طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے . عالمی ردعمل کا اگر بغور جائزہ لیا جاۓ تو کچھ لوگ اس کو امریکی جنگ کا ردعمل سمجتھے ہیں اور کچھ سمجتے ہیں کہ سارا عالم اسلام ہی دہشت گرد ہے.
یہ سب جانتے ہیں کہ شدت پسندی ایک بڑا مسئلہ ہے. لیکن یہ کہنا کہ بیشتر اسلامی دنیا شدت پسند ہوگئی ہے اور القاعدہ جیسی تنظیموں اور تخریب کاری کی حامی ہے، مبالغہ آ رائی سے زیادہ کچھ نہیں. ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی ہو گی کہ خود مسلمان بھی دہشت گردی کا شکار ہیں اور اس وجہ سے وہ کسی طور پر خود کش حملوں کے حامی نہیں ہو سکتے اور زیادہ تر اسلامی دنیا اعتدال پسند ہے اور دہشت گردی سے نفرت کرتی ہے.
ویسے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کی اصل وجوہات سے انکاری ہونا ہے. ہم دہشت گردی کو بیرونی دنیا بالخصوص 'مغرب کی سازش' یا ان کی پالیسیوں کا ردعمل سمجھتے ہیں. یہاں پر ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی ہوگی کہ آج بھی مسلمانوں کی اکثریت ١١/ ٩ کے حملوں کو محض مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کی خلاف جنگ کرنے کا جواز تراشنے کیلئے ایک گھناؤنی امریکی سازش سے تعبیردیتی ہے
سوچ کے اس انداز کی وجہ سے ہم ایک طرح سے دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ اگر دہشت گردی محض ایک مغربی سازش ہے تو پھر ہمارے درمیان موجود دہشت گردوں کے خلاف ایکشن ہمارے نزدیک اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ بن جاتا ہے اور یہ سوچ درحقیقت انتہا پسندوں کو مضبوط بناتی ہے کیونکے دہشت گردی کو روكنے کے لئے سخت اقدامات درکار ہوتے ہیں
كیا ہم آز سے پانچ سال پہلے بہول گئے جب انتہا پسندوں نے سوات کی وادی پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا اور سوات كے باشندوں پر جبر کر رہے تہیں اور لڑکیوں کے اسکول جلا رہے تہیں . بات ہمیں سمجھ اس وقت آئی جب صوفی محمّد صاحب نے ایک تقریر میں پورے پاکستان میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کر دیا اور ناکامی کی صورت میں اسلام آباد پر حملے کی دھمکی دے ڈالی. تب جا کر میڈیا کی آنکھ کھلی اور بلاخر فوجی ایکشن شروع ہوا . آج بھی ہم ہر جگہ سازشیں تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور سوچ کے اس انداز کی وجہ سے دہشت گردی مزید پروان چڑھ رہی ہے . ہمارا ایک اور بنیادی مسئلہ دہشت گردوں کے متعلق معذرت خوانہ رویہ ہے . ہم میں سے اکثر لوگ دہشت گردی کو محض ایک ری ایکشن کے طور پر دیکھتے ہیں. اس انداز فکر کی وجہ سے دہشت گردوں سے نفرت کی بجائے ان سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے . یہ انداز فکر ہی در حقیقت دہشت گردی کو پروان چڑھاتا ہے کیونکے ہم بجاۓ اپنے اندر جھانکنے کے اور دہشت گردی کے سدباب کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کے، بیرونی دنیا کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں . یہ سوچ دہشت گردوں کو ایک طریقے سے مدد کرتی ہے کیونکہ وہ ظالم کے بجائے مظلوم دکھنے لگتے ہیں . اسی انداز فکر کی وجہ سے ہمیں خود خوش حملوں پر کم اور ڈرون حملوں پر کہیں زیادہ غصّہ آتا ہے حلانکہ ڈرون دہشت گردوں کو نشانہ بناتے ہیں جبکے خودکش حملے عام اور معصوم شہریوں کا خون بہاتے ہیں . اور تو اور ہم لوگ تو خود خوش حملوں کو بھی ڈرون حملوں کا ہی نتیجہ سمجھتے ہیں
ہمیں یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ دہشت گرد بنیادی طور پر نظریاتی ہوتے ہیں اور اگر کل کو امریکا افغانستان سے چلا بھی جاۓ تب بھی یہ اپنا کام کرتے رہینگے . یہ بات بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ خود کش حملے با قاعدہ طرح اور تعلیمات کے نتیجے میں ہوتے ہیں لہٰذا ان کومحض خود کار ردعمل سے تشبیہہ دینا درست نہیں.اس وقت یہی معذرت خوانہ رویہ دہشت گردوں کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کے راستے میں رکاوٹ ہے.
جب تک پاکستانیوں کا انداز فکر نہیں بدلے گا دہشت گردی اسی طرح سے پروان چڑھتی رہے گی. بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بےشمار اعتدال پسند لوگ ویسے تو دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں مگر اپنی سوچ کے انداز کی وجہ سے اس کی الٹا حوصلہ افزائی کرتے ہیں. ہمیں سوچ کا یہ انداز بدلنا ہوگا اور یہ بات سمجھنی ہوگی کہ دشمن ہماری اپنی صفوں میں موجود ہے اور ہمیں اس کو ختم کرنے کے لئے سخت اقدامات اٹھانے ہونگے
عالم اسلام اور سازشی ذہنیت
پچھلے کچھ برسوں میں اس بات کی فکر بڑھتی جا رہی ہے کہ ناصرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کا ایک بڑا مسئلہ اسلامی شدت پسندی ہے. اس خوف کی وجہ سے دنیا میں کافی وسیع طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے . عالمی ردعمل کا اگر بغور جائزہ لیا جاۓ تو کچھ لوگ اس کو امریکی جنگ کا ردعمل سمجتھے ہیں اور کچھ سمجتے ہیں کہ سارا عالم اسلام ہی دہشت گرد ہے.
یہ سب جانتے ہیں کہ شدت پسندی ایک بڑا مسئلہ ہے. لیکن یہ کہنا کہ بیشتر اسلامی دنیا شدت پسند ہوگئی ہے اور القاعدہ جیسی تنظیموں اور تخریب کاری کی حامی ہے، مبالغہ آ رائی سے زیادہ کچھ نہیں. ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی ہو گی کہ خود مسلمان بھی دہشت گردی کا شکار ہیں اور اس وجہ سے وہ کسی طور پر خود کش حملوں کے حامی نہیں ہو سکتے اور زیادہ تر اسلامی دنیا اعتدال پسند ہے اور دہشت گردی سے نفرت کرتی ہے.
ویسے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کی اصل وجوہات سے انکاری ہونا ہے. ہم دہشت گردی کو بیرونی دنیا بالخصوص 'مغرب کی سازش' یا ان کی پالیسیوں کا ردعمل سمجھتے ہیں. یہاں پر ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی ہوگی کہ آج بھی مسلمانوں کی اکثریت ١١/ ٩ کے حملوں کو محض مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کی خلاف جنگ کرنے کا جواز تراشنے کیلئے ایک گھناؤنی امریکی سازش سے تعبیردیتی ہے
سوچ کے اس انداز کی وجہ سے ہم ایک طرح سے دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ اگر دہشت گردی محض ایک مغربی سازش ہے تو پھر ہمارے درمیان موجود دہشت گردوں کے خلاف ایکشن ہمارے نزدیک اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ بن جاتا ہے اور یہ سوچ درحقیقت انتہا پسندوں کو مضبوط بناتی ہے کیونکے دہشت گردی کو روكنے کے لئے سخت اقدامات درکار ہوتے ہیں
كیا ہم آز سے پانچ سال پہلے بہول گئے جب انتہا پسندوں نے سوات کی وادی پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا اور سوات كے باشندوں پر جبر کر رہے تہیں اور لڑکیوں کے اسکول جلا رہے تہیں . بات ہمیں سمجھ اس وقت آئی جب صوفی محمّد صاحب نے ایک تقریر میں پورے پاکستان میں نفاذ شریعت کا مطالبہ کر دیا اور ناکامی کی صورت میں اسلام آباد پر حملے کی دھمکی دے ڈالی. تب جا کر میڈیا کی آنکھ کھلی اور بلاخر فوجی ایکشن شروع ہوا . آج بھی ہم ہر جگہ سازشیں تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور سوچ کے اس انداز کی وجہ سے دہشت گردی مزید پروان چڑھ رہی ہے . ہمارا ایک اور بنیادی مسئلہ دہشت گردوں کے متعلق معذرت خوانہ رویہ ہے . ہم میں سے اکثر لوگ دہشت گردی کو محض ایک ری ایکشن کے طور پر دیکھتے ہیں. اس انداز فکر کی وجہ سے دہشت گردوں سے نفرت کی بجائے ان سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے . یہ انداز فکر ہی در حقیقت دہشت گردی کو پروان چڑھاتا ہے کیونکے ہم بجاۓ اپنے اندر جھانکنے کے اور دہشت گردی کے سدباب کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کے، بیرونی دنیا کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں . یہ سوچ دہشت گردوں کو ایک طریقے سے مدد کرتی ہے کیونکہ وہ ظالم کے بجائے مظلوم دکھنے لگتے ہیں . اسی انداز فکر کی وجہ سے ہمیں خود خوش حملوں پر کم اور ڈرون حملوں پر کہیں زیادہ غصّہ آتا ہے حلانکہ ڈرون دہشت گردوں کو نشانہ بناتے ہیں جبکے خودکش حملے عام اور معصوم شہریوں کا خون بہاتے ہیں . اور تو اور ہم لوگ تو خود خوش حملوں کو بھی ڈرون حملوں کا ہی نتیجہ سمجھتے ہیں
ہمیں یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ دہشت گرد بنیادی طور پر نظریاتی ہوتے ہیں اور اگر کل کو امریکا افغانستان سے چلا بھی جاۓ تب بھی یہ اپنا کام کرتے رہینگے . یہ بات بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ خود کش حملے با قاعدہ طرح اور تعلیمات کے نتیجے میں ہوتے ہیں لہٰذا ان کومحض خود کار ردعمل سے تشبیہہ دینا درست نہیں.اس وقت یہی معذرت خوانہ رویہ دہشت گردوں کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کے راستے میں رکاوٹ ہے.
جب تک پاکستانیوں کا انداز فکر نہیں بدلے گا دہشت گردی اسی طرح سے پروان چڑھتی رہے گی. بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بےشمار اعتدال پسند لوگ ویسے تو دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں مگر اپنی سوچ کے انداز کی وجہ سے اس کی الٹا حوصلہ افزائی کرتے ہیں. ہمیں سوچ کا یہ انداز بدلنا ہوگا اور یہ بات سمجھنی ہوگی کہ دشمن ہماری اپنی صفوں میں موجود ہے اور ہمیں اس کو ختم کرنے کے لئے سخت اقدامات اٹھانے ہونگے