سکول پر خود کش حملہ
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں ایک سرکاری سکول کے باہر خود کش حملے میں ایک طالب علم ہلاک ہوا ہے اور 2 طالب علم زخمی ہو گئے۔
دوسری جانب بنوں میں لڑکیوں کے ایک سکول کو بھی دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دیا گیا ہے۔
ہنگو پولیس اہلکاروں کے مطابق خود کش حملے کا واقعہ ہنگو شہر سے بیس کلومیٹر دور کوہاٹ روڈ پر ابراہیم زئی کے مقام پر پیش آیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ آج صبح سکول یونیفارم پہنے ہوئے ایک خود کش حملہ آور سکول کے سامنے پہنچا اور حود کو دھماکےسے اڑا دیا۔ اس دھماکے کی زد میں ایک طالب علم اعتزاز حسن آیا ہے جو پولیس کے مطابق موقع پر ہلاک ہوگیا۔ ضلع پولیس کے سربراہ افتخار احمد کے مطابق سرکاری سکول کے باہر طلباءاپنی وین سے اتر رہے تھے کہ حملہ آور نے خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑا لیا جس کے باعث دو بچے زخمی بھی ہوئے، دھماکے سے اسکول کے دروازے کو کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ خود کش حملہ آور کی جیکٹ میں پانچ سے چھ کلوگرام دھماکہ خیز مواد تھا۔ موقع سے خود کش حملہ آور کی ٹانگیں، جیکٹ کے ٹکڑے اور ایک دستی بم ملا ہے۔
پولیس اہلکار نے بتایا کہ خود کش حملہ آور نے سکول یونیفارم پہنی ہوئی تھی ۔خیبر پختونخوا اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہزاروں سکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔
ادھر ضلع بنوں کے علاقے حوید میں لڑکیوں کے ایک پرائمری سکول میں دو دھماکے ہوئے ہیں جس سے سکول کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے ۔ یہ دھماکے رات دیر سے ہوئے ہیں اس لیے ان دھماکوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2...blast_tk.shtml
دوسری جانب کالعدم لشکر جھنگوی کے ترجمان علی سفیان نے نامعلوم مقام سے جیو نیوز کو فون کرکے ہنگواسکول پرخودکش حملہ کی ذمہ دار قبول کرلی ہے۔یاد رہے کہ طالبان اور لشکر جھنگوی ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں،دونوں القائدہ کےساتھی دہشت گرد ہیں اور دہشت گردی میں ایک دوسرے سے تعاون اور مل کر کاروائیاں کرتے ہیں.
دہشتگرد مسلسل سکولوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مہمند ایجنسی کی تحصیل حلیم زئی میں تعلیم دشمنوں نے لڑکوں کے دو پرائمری سکولوں کو تباہ کردیا۔ دھماکے کے بعد علاقے میں خوف وہراس پھیل گیاتاہم کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک تخریب کاری کے دوران تباہ ہونے والے اسکولوں کی تعداد ایک سو آٹھ ہوگئی ہے–
صوبہ خیبر پختونخواہ میں سکولوں کی تباہی ایک معمول سا بنتا جارہا ہے اور طالبان نہایت بے دردی کے ساتھ قومی دولت کو تباہ کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے چوبیس اضلاع میں بہت کم ایسے علاقے ہوں گے جہاں شدت پسندوں نے سکولوں کو نشانہ نہ بنایا ہو ۔ طالبان کی عقل و سمجھ میں یہ نہ آ رہا ہے کہ سکولوں کو تباہ کرنا ملک و قوم کی موجودہ و آئندہ نسلوں سے عظیم دشمنی ہے۔
سکول ایک قومی دولت ہیں، جہاں پاکستان کے بچے اور بچیاں اپنے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے آئندہ ملک و قوم کی خدمت کر نے کی سعی کرتے ہیں۔۔ تعلیم ایک ایسی بنیاد اور ستون ہے جس پر ملک کی سلامتی کا تمام دارومدار و انحصار ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی ۲۵ ملین بچے اور بچیاں حصول تعلیم کی نعمتوں سے محروم ہیں اور طالبان سکولوں کو تباہ کرکے اس محرومی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔
دہشت گردوں کا سکول پر حملہ اور اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنا نہایت قبیح اور قابل مذمت کاروائی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حکام کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران پانچ سو کے قریب تعلیمی ادارے شدت پسندی کے کارروائیوں میں تباہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں بچے تعلیم کے حصول سے محروم ہوگئے ہیں . طالبان کی سکول دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہ ہے۔ قرآنی احکامات کی صریح اور کھلی خلاف ورزی کر کے بھی یہ نام نہاد طالبان اسلام اور شریعت کا ڈھول پیٹ رہے ہیں. اُن کی جہالت کا سب سے بڑا شاہکار بچوں کے سکولوں کا نذرِ آتش کرنا اور طالبعلموں کا قتل ہے۔ا ن دہشت گردوں کا سکولوں کی تباہی اور سکول دشمنی کا رویہ بتاتا ہے کہ وہ طالبان نہیں جاہلان ہیں. سکول دشمنی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسلام اور پاکستان دونوں کے مخلص نہیں اور نہ ہی ان کو پاکستانی عوام میں دلچسپی ہے بلکہ یہ تو اسلام ،پاکستان اور عوام کے دشمن ہیں کیونکہ یہ ہمیں ترقی کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے۔ سکولوں کو جلانے اور طالب علموںپر حملوں کے معاملہ میں طالبان کی سرگرمیاں اسلام کے سراسر خلاف ہیں لہذا ہمیں نہیں چاہئے طالبان کا اسلام جس کی تشریح تنگ نظری پر مبنی ہو اور نہ ہی ہم دہشت گردوں کو اس امر کی اجازت دیں گے کہ وہ اپنا تنگ نظری والا اسلام ، پاکستان کے مسلمانوں پر مسلط کریں۔ خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے.اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے.طالبعلموںاور اساتذہ اور مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے اور جہاد نہ ہے۔
غیر سرکاری اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ان سکولوں کی تباہی سے کوئی سات لاکھ سے زیادہ بچوں کا تعلیمی سلسلہ بڑی طرح متاثر ہوا ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہری علاقوں میں سکولوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہےاور ان دھماکوں کی وجہ سے سینکڑوں طلبہ تعلیم کے حصول سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ کئی علاقوں میں سرکاری سکول اور نجی تعلیمی ادارے حملوں کے خوف کے باعث بند پڑے ہیں۔ سکولوں کی تباہی کی وجہ سے ان قبائلیوں کے آنے والی نسلوں کو تعیلم کی سہولت حاصل نہیں ہو گی۔
دولتِ علم سے بہرہ مند ہونا ہر مرد و زن کے لئے لازمی ہے۔ ترقی صرف اس قوم کی میراث ہے جس کے افراد زیورِ علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہوتا ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم ضروری ہے کیونکہ جب علم نہ ہوگا تو اس پر عمل کیسے ہوسکے گا۔
تعلیم کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں پاکستان میں غربت ، پسماندگی ، جہالت اور انتہا پسندی و دہشت گردی جیسے مسائلمزید گھمبیر ہو جائینگے
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں ایک سرکاری سکول کے باہر خود کش حملے میں ایک طالب علم ہلاک ہوا ہے اور 2 طالب علم زخمی ہو گئے۔
دوسری جانب بنوں میں لڑکیوں کے ایک سکول کو بھی دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دیا گیا ہے۔
ہنگو پولیس اہلکاروں کے مطابق خود کش حملے کا واقعہ ہنگو شہر سے بیس کلومیٹر دور کوہاٹ روڈ پر ابراہیم زئی کے مقام پر پیش آیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ آج صبح سکول یونیفارم پہنے ہوئے ایک خود کش حملہ آور سکول کے سامنے پہنچا اور حود کو دھماکےسے اڑا دیا۔ اس دھماکے کی زد میں ایک طالب علم اعتزاز حسن آیا ہے جو پولیس کے مطابق موقع پر ہلاک ہوگیا۔ ضلع پولیس کے سربراہ افتخار احمد کے مطابق سرکاری سکول کے باہر طلباءاپنی وین سے اتر رہے تھے کہ حملہ آور نے خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑا لیا جس کے باعث دو بچے زخمی بھی ہوئے، دھماکے سے اسکول کے دروازے کو کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ خود کش حملہ آور کی جیکٹ میں پانچ سے چھ کلوگرام دھماکہ خیز مواد تھا۔ موقع سے خود کش حملہ آور کی ٹانگیں، جیکٹ کے ٹکڑے اور ایک دستی بم ملا ہے۔
پولیس اہلکار نے بتایا کہ خود کش حملہ آور نے سکول یونیفارم پہنی ہوئی تھی ۔خیبر پختونخوا اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہزاروں سکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔
ادھر ضلع بنوں کے علاقے حوید میں لڑکیوں کے ایک پرائمری سکول میں دو دھماکے ہوئے ہیں جس سے سکول کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے ۔ یہ دھماکے رات دیر سے ہوئے ہیں اس لیے ان دھماکوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2...blast_tk.shtml
دوسری جانب کالعدم لشکر جھنگوی کے ترجمان علی سفیان نے نامعلوم مقام سے جیو نیوز کو فون کرکے ہنگواسکول پرخودکش حملہ کی ذمہ دار قبول کرلی ہے۔یاد رہے کہ طالبان اور لشکر جھنگوی ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں،دونوں القائدہ کےساتھی دہشت گرد ہیں اور دہشت گردی میں ایک دوسرے سے تعاون اور مل کر کاروائیاں کرتے ہیں.
دہشتگرد مسلسل سکولوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مہمند ایجنسی کی تحصیل حلیم زئی میں تعلیم دشمنوں نے لڑکوں کے دو پرائمری سکولوں کو تباہ کردیا۔ دھماکے کے بعد علاقے میں خوف وہراس پھیل گیاتاہم کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک تخریب کاری کے دوران تباہ ہونے والے اسکولوں کی تعداد ایک سو آٹھ ہوگئی ہے–
صوبہ خیبر پختونخواہ میں سکولوں کی تباہی ایک معمول سا بنتا جارہا ہے اور طالبان نہایت بے دردی کے ساتھ قومی دولت کو تباہ کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے چوبیس اضلاع میں بہت کم ایسے علاقے ہوں گے جہاں شدت پسندوں نے سکولوں کو نشانہ نہ بنایا ہو ۔ طالبان کی عقل و سمجھ میں یہ نہ آ رہا ہے کہ سکولوں کو تباہ کرنا ملک و قوم کی موجودہ و آئندہ نسلوں سے عظیم دشمنی ہے۔
سکول ایک قومی دولت ہیں، جہاں پاکستان کے بچے اور بچیاں اپنے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے آئندہ ملک و قوم کی خدمت کر نے کی سعی کرتے ہیں۔۔ تعلیم ایک ایسی بنیاد اور ستون ہے جس پر ملک کی سلامتی کا تمام دارومدار و انحصار ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی ۲۵ ملین بچے اور بچیاں حصول تعلیم کی نعمتوں سے محروم ہیں اور طالبان سکولوں کو تباہ کرکے اس محرومی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔
دہشت گردوں کا سکول پر حملہ اور اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنا نہایت قبیح اور قابل مذمت کاروائی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حکام کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران پانچ سو کے قریب تعلیمی ادارے شدت پسندی کے کارروائیوں میں تباہ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں بچے تعلیم کے حصول سے محروم ہوگئے ہیں . طالبان کی سکول دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہ ہے۔ قرآنی احکامات کی صریح اور کھلی خلاف ورزی کر کے بھی یہ نام نہاد طالبان اسلام اور شریعت کا ڈھول پیٹ رہے ہیں. اُن کی جہالت کا سب سے بڑا شاہکار بچوں کے سکولوں کا نذرِ آتش کرنا اور طالبعلموں کا قتل ہے۔ا ن دہشت گردوں کا سکولوں کی تباہی اور سکول دشمنی کا رویہ بتاتا ہے کہ وہ طالبان نہیں جاہلان ہیں. سکول دشمنی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسلام اور پاکستان دونوں کے مخلص نہیں اور نہ ہی ان کو پاکستانی عوام میں دلچسپی ہے بلکہ یہ تو اسلام ،پاکستان اور عوام کے دشمن ہیں کیونکہ یہ ہمیں ترقی کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے۔ سکولوں کو جلانے اور طالب علموںپر حملوں کے معاملہ میں طالبان کی سرگرمیاں اسلام کے سراسر خلاف ہیں لہذا ہمیں نہیں چاہئے طالبان کا اسلام جس کی تشریح تنگ نظری پر مبنی ہو اور نہ ہی ہم دہشت گردوں کو اس امر کی اجازت دیں گے کہ وہ اپنا تنگ نظری والا اسلام ، پاکستان کے مسلمانوں پر مسلط کریں۔ خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے.اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے.طالبعلموںاور اساتذہ اور مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے اور جہاد نہ ہے۔
غیر سرکاری اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ان سکولوں کی تباہی سے کوئی سات لاکھ سے زیادہ بچوں کا تعلیمی سلسلہ بڑی طرح متاثر ہوا ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہری علاقوں میں سکولوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہےاور ان دھماکوں کی وجہ سے سینکڑوں طلبہ تعلیم کے حصول سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ کئی علاقوں میں سرکاری سکول اور نجی تعلیمی ادارے حملوں کے خوف کے باعث بند پڑے ہیں۔ سکولوں کی تباہی کی وجہ سے ان قبائلیوں کے آنے والی نسلوں کو تعیلم کی سہولت حاصل نہیں ہو گی۔
دولتِ علم سے بہرہ مند ہونا ہر مرد و زن کے لئے لازمی ہے۔ ترقی صرف اس قوم کی میراث ہے جس کے افراد زیورِ علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہوتا ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم ضروری ہے کیونکہ جب علم نہ ہوگا تو اس پر عمل کیسے ہوسکے گا۔
تعلیم کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں پاکستان میں غربت ، پسماندگی ، جہالت اور انتہا پسندی و دہشت گردی جیسے مسائلمزید گھمبیر ہو جائینگے