پولیو ٹیم پر حملہ
پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی اور صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع صوابی میں انسدادِ پولیو ٹیم اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس ٹیم پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک کارکن اور دو پولیس اہل کار ہلاک ہوئے ہیں۔
قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی مقامی انتظامیہ نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ جمرود کے قریب زڑہ غونڈے میں نامعلوم افراد نے انسدادِ پولیو ٹیم کے اہل کار کو اس گھر کے قریب حجرے میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ یہ واقعہ جمعے کی صبح پیش آیا۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق پولیو ٹیم کے اہل کار محمد یوسف پولیو مہم سے فارغ ہونے کے بعد جب گھر واپس پہنچے تو انھیں نشانہ بنایا گیا۔
اس سے پہلے صوابی میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر تعینات نامعلوم مسلح افراد نے نشانہ بنایا۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق جمعے کی صبح صوابی میں ٹوپی روڈ پر پولیس اہل کار اس وقت فائرنگ کی زد میں آئے جب وہ انسدادِ پولیو کی ٹیم کو سکیورٹی مہیا کرنے کے لیے جا رہے تھے۔
فائرنگ سے ایک پولیس اہل کار ہلاک جب کہ دوسرا زخمی ہوا جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں چل بسا۔
ضلع صوابی میں اس سے پہلے بھی انسداد پولیو کی ٹیموں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
پاکستان میں گذشتہ ایک سال سے انسداد پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے ہو رہے ہیں جس کے بعد ان کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان کے ساتھ پولیس اہل کار تعینات کر دیے جاتے ہیں۔
جون میں پولیو ٹیم پر حملے ہونے والے حملے میں حکام کے مطابق دو رضاکار ہلاک ہوئے تھے، جب کہ اس سے پہلے صوابی کے کلا کے علاقے میں بھی پولیو ٹیم کی خواتین رضاکاروں پر ہونے والے حملے میں ایک پولیس کانسٹیبل مارا گیا تھا تاہم اس حملے میں خواتین ورکرز محفوظ رہی تھیں۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان کو ملک اور خصوصاً قبائلی علاقہ جات میں پولیو کے خاتمے کےحوالے سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے جس کی بڑی وجہ پولیو ٹیموں پر حملے ہیں۔
نومبر کے آخر میں بھی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں انسداد پولیو ٹیم کو تحفظ فراہم کرنے والے پولیس پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہوا تھا۔
پاکستان میں گذشتہ ایک سال سے انسداد پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے ہو رہے ہیں جس کے بعد ان کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان کے ساتھ پولیس اہل کار تعینات کر دیے جاتے ہیں۔
ان ٹیموں پر حملوں میں دو درجن کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد ان ٹیموں کو تحفظ فراہم کرنے والے پولیس کے ارکان کی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2...illed_rk.shtml
اسلام نے انسانی جان بچانے کے لئیے ہر طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ دہشت گردوں کا پاکستانیبچوں کو پو لیو کے قطرے نہ پلانے دینا ایک بہت بڑی مجرمانہ اور دہشت گردانہ کاروائی ہے اور یہ پاکستانی بچوں کے ساتھ ظلم ہے اور پاکستان کی آیندہ نسلوں کی صحت کے ساتھ کھیلنے والی مجرمانہ کاروائی ہے، پاکستان کی ترقی کے ساتھ دشمنی ہے اور پاکستانی عوام دہشت گردوں کو اس مجرمانہ غفلت پر انہیں کبھی معاف نہ کریں گے.
طالبان انتہاءپسندوں کی جانب سے بچیوں کی تعلیم کی مخالفت اور تعلیمی اداروں کو دہشت گردانہ کارروائیوں میں تباہ کرنے کے باعث پہلے ہی ہمارا تشخص خراب ہو چکا ہے جبکہ اب انسداد پولیو ٹیموں کے غیرمحفوظ ہونے سے ہمارے معاشرے کا پتھر کے زمانے والا تصور ہی اجاگر ہو گا۔جہالت کے اندھیروں سے روشن مستقبل کی جانب قدم بڑھا کر ہی ہم اقوام عالم میں اپنا تشخص پیدا کر سکتے ہیں.
ملک کے جید علما بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے حق میں ہیں۔دارلعلوم حقانیہ پولیو کے قطرے پلانے کی حمایت کرتا ہے ان کے مطابق اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔مولانا سمیع الحق نے کہا کہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ پولیو کے قطرے نہیں پلانے دیں گے۔میں نے اپنے پوتے کو پولیو کے قطرے پلا کر اس کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ پولیو کے قطرے پلانے میں کوئی نقصان نہیں ہے بلا وجہ کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے پولیو ویکسین کے حق میں فتویٰ جاری کرتے ہوئے والدین پر اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے پر زور دیا ہے۔
دارالعلوم اور مدرسہ حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی جانب سے جاری یہ فتویٰ پاکستانی طالبان کی جانب سے پولیو ویکسین پابندی لگائے جانے کے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس فتوے کی تحریر میں کہا گیا ہے کہ شریعہ کے مطابق کوئی بھی ایسی ویکسین جس کے بارے ڈاکٹروں کا مؤقف ہو کہ یہ کسی بیماری سے بچانے میں مؤثر ثابت ہو گی، اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
پولیو، ٹی بی، تشنج انتہائی خراب امراض ہیں اور بچوں اور حاملہ خواتین کو اس سے بچانے کے لیے ویکسین انتہائی مؤثر کردار ادا کرتی ہیں، ان ویکسین کے بارے میں پھیلائے گئے شکوک شبہات کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔
والدین کو اپنے بچوں کو ان خطرناک بیماریوں سے بچانے کے لیے انجیکشن اور قطرے کا استعمال کرنا چاہیے۔
اس سے پہلے سنی اتحاد کونسل کے 30 مفتیان نے پولیو مہم کی حمایت میں فتویٰ جاری کیا تھا،فتوے کے مطابق پولیو مہم شریعت کے ہرگز متصادم نہیں ،اس مہم کو روکنا اور ہیلتھ ورکرز کا قتل، فساد فی الارض اور اسلام اور پاکستان کی بدنامی کا باعث ہے،سنی اتحاد کونسل کی جانب سے جاری اجتماعی فتویٰ کے مطابق پولیو مہم شرعی نکتہ نظر سے بالکل درست اور صحیح ہے ، پولیو قطرے پلانے سے بچوں کو مستقبل میں معذوری سے بچایا جا سکتا ہے،طبی ماہرین پولیو کے قطروں کو ہر لحاظ سے مفید قرار دے چکے ہیں ،یہ طبی معاملہ ہے،اس مہم کی مخالفت کرنے والے گمراہ ہیں، فتوے میں کہا گیا ہے کہ علاج معالجہ حضور نبی کریمﷺ کی سنت سے ثابت ہے ،علماء اور مشائخ جہالت پرمبنی گمراہ کن تعبیر اسلام کی علمی اور فکری مزاحمت کریں اور پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے درست رہنمائی کریں۔
علمائے کرام نے پولیو ٹیمز پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں شرعی طور پر ناجائز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پولیو ٹیموں کی حفاظت اور حرمت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ انسداد پولیو پر عالمی علماءکانفرنس منعقد ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان بچوں کا پولیو سے بچاﺅ تمام مسلمان والدین کی مذہبی ذمہ داری ہے، ویکسین میں کوئی حرام یا مضر صحت اجزاءشامل نہیں۔ عالمی علماءکانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پولیو ورکرز پر حملے قابل مذمت اور ناقابل برداشت ہیں اور شرعی طور پر ناجائز ہیں۔ والدین بچوں کو پولیو سے بچاﺅں کے قطرے پلائیں اور حفاظتی ٹیکے لگوائیں، پاکستان میں استعمال ہونے والی ویکسین محفوظ و موثر ہے اور اس میں ایسے اجزاءشامل نہیں ہیں جو تولیدی نظام کو نقصان پہنچائیں۔طالبان جاہلان ہیں اور اسلامی احکامات کا انہیں کچھ علم نہ ہے۔
دہشت گرد خود ساختہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستانی عوام پر اپنا سیاسی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی دہشت گردوں کو اجازت نہ دی جا سکتی ہے۔ معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اورپرائیوٹ، ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے اور جہاد نہ ہے۔کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے،اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ دہشت گرد ،اسلام کے نام پر غیر اسلامی و خلاف شریعہ حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں اور اس طرح اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲
قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی مقامی انتظامیہ نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ جمرود کے قریب زڑہ غونڈے میں نامعلوم افراد نے انسدادِ پولیو ٹیم کے اہل کار کو اس گھر کے قریب حجرے میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ یہ واقعہ جمعے کی صبح پیش آیا۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق پولیو ٹیم کے اہل کار محمد یوسف پولیو مہم سے فارغ ہونے کے بعد جب گھر واپس پہنچے تو انھیں نشانہ بنایا گیا۔
اس سے پہلے صوابی میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر تعینات نامعلوم مسلح افراد نے نشانہ بنایا۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق جمعے کی صبح صوابی میں ٹوپی روڈ پر پولیس اہل کار اس وقت فائرنگ کی زد میں آئے جب وہ انسدادِ پولیو کی ٹیم کو سکیورٹی مہیا کرنے کے لیے جا رہے تھے۔
فائرنگ سے ایک پولیس اہل کار ہلاک جب کہ دوسرا زخمی ہوا جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں چل بسا۔
ضلع صوابی میں اس سے پہلے بھی انسداد پولیو کی ٹیموں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
پاکستان میں گذشتہ ایک سال سے انسداد پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے ہو رہے ہیں جس کے بعد ان کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان کے ساتھ پولیس اہل کار تعینات کر دیے جاتے ہیں۔
جون میں پولیو ٹیم پر حملے ہونے والے حملے میں حکام کے مطابق دو رضاکار ہلاک ہوئے تھے، جب کہ اس سے پہلے صوابی کے کلا کے علاقے میں بھی پولیو ٹیم کی خواتین رضاکاروں پر ہونے والے حملے میں ایک پولیس کانسٹیبل مارا گیا تھا تاہم اس حملے میں خواتین ورکرز محفوظ رہی تھیں۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان کو ملک اور خصوصاً قبائلی علاقہ جات میں پولیو کے خاتمے کےحوالے سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے جس کی بڑی وجہ پولیو ٹیموں پر حملے ہیں۔
نومبر کے آخر میں بھی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں انسداد پولیو ٹیم کو تحفظ فراہم کرنے والے پولیس پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہوا تھا۔
پاکستان میں گذشتہ ایک سال سے انسداد پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے ہو رہے ہیں جس کے بعد ان کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان کے ساتھ پولیس اہل کار تعینات کر دیے جاتے ہیں۔
ان ٹیموں پر حملوں میں دو درجن کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد ان ٹیموں کو تحفظ فراہم کرنے والے پولیس کے ارکان کی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2...illed_rk.shtml
اسلام نے انسانی جان بچانے کے لئیے ہر طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ دہشت گردوں کا پاکستانیبچوں کو پو لیو کے قطرے نہ پلانے دینا ایک بہت بڑی مجرمانہ اور دہشت گردانہ کاروائی ہے اور یہ پاکستانی بچوں کے ساتھ ظلم ہے اور پاکستان کی آیندہ نسلوں کی صحت کے ساتھ کھیلنے والی مجرمانہ کاروائی ہے، پاکستان کی ترقی کے ساتھ دشمنی ہے اور پاکستانی عوام دہشت گردوں کو اس مجرمانہ غفلت پر انہیں کبھی معاف نہ کریں گے.
طالبان انتہاءپسندوں کی جانب سے بچیوں کی تعلیم کی مخالفت اور تعلیمی اداروں کو دہشت گردانہ کارروائیوں میں تباہ کرنے کے باعث پہلے ہی ہمارا تشخص خراب ہو چکا ہے جبکہ اب انسداد پولیو ٹیموں کے غیرمحفوظ ہونے سے ہمارے معاشرے کا پتھر کے زمانے والا تصور ہی اجاگر ہو گا۔جہالت کے اندھیروں سے روشن مستقبل کی جانب قدم بڑھا کر ہی ہم اقوام عالم میں اپنا تشخص پیدا کر سکتے ہیں.
ملک کے جید علما بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے حق میں ہیں۔دارلعلوم حقانیہ پولیو کے قطرے پلانے کی حمایت کرتا ہے ان کے مطابق اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔مولانا سمیع الحق نے کہا کہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ پولیو کے قطرے نہیں پلانے دیں گے۔میں نے اپنے پوتے کو پولیو کے قطرے پلا کر اس کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ پولیو کے قطرے پلانے میں کوئی نقصان نہیں ہے بلا وجہ کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے پولیو ویکسین کے حق میں فتویٰ جاری کرتے ہوئے والدین پر اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے پر زور دیا ہے۔
دارالعلوم اور مدرسہ حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی جانب سے جاری یہ فتویٰ پاکستانی طالبان کی جانب سے پولیو ویکسین پابندی لگائے جانے کے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس فتوے کی تحریر میں کہا گیا ہے کہ شریعہ کے مطابق کوئی بھی ایسی ویکسین جس کے بارے ڈاکٹروں کا مؤقف ہو کہ یہ کسی بیماری سے بچانے میں مؤثر ثابت ہو گی، اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
پولیو، ٹی بی، تشنج انتہائی خراب امراض ہیں اور بچوں اور حاملہ خواتین کو اس سے بچانے کے لیے ویکسین انتہائی مؤثر کردار ادا کرتی ہیں، ان ویکسین کے بارے میں پھیلائے گئے شکوک شبہات کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔
والدین کو اپنے بچوں کو ان خطرناک بیماریوں سے بچانے کے لیے انجیکشن اور قطرے کا استعمال کرنا چاہیے۔
اس سے پہلے سنی اتحاد کونسل کے 30 مفتیان نے پولیو مہم کی حمایت میں فتویٰ جاری کیا تھا،فتوے کے مطابق پولیو مہم شریعت کے ہرگز متصادم نہیں ،اس مہم کو روکنا اور ہیلتھ ورکرز کا قتل، فساد فی الارض اور اسلام اور پاکستان کی بدنامی کا باعث ہے،سنی اتحاد کونسل کی جانب سے جاری اجتماعی فتویٰ کے مطابق پولیو مہم شرعی نکتہ نظر سے بالکل درست اور صحیح ہے ، پولیو قطرے پلانے سے بچوں کو مستقبل میں معذوری سے بچایا جا سکتا ہے،طبی ماہرین پولیو کے قطروں کو ہر لحاظ سے مفید قرار دے چکے ہیں ،یہ طبی معاملہ ہے،اس مہم کی مخالفت کرنے والے گمراہ ہیں، فتوے میں کہا گیا ہے کہ علاج معالجہ حضور نبی کریمﷺ کی سنت سے ثابت ہے ،علماء اور مشائخ جہالت پرمبنی گمراہ کن تعبیر اسلام کی علمی اور فکری مزاحمت کریں اور پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے درست رہنمائی کریں۔
علمائے کرام نے پولیو ٹیمز پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں شرعی طور پر ناجائز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پولیو ٹیموں کی حفاظت اور حرمت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ انسداد پولیو پر عالمی علماءکانفرنس منعقد ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان بچوں کا پولیو سے بچاﺅ تمام مسلمان والدین کی مذہبی ذمہ داری ہے، ویکسین میں کوئی حرام یا مضر صحت اجزاءشامل نہیں۔ عالمی علماءکانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پولیو ورکرز پر حملے قابل مذمت اور ناقابل برداشت ہیں اور شرعی طور پر ناجائز ہیں۔ والدین بچوں کو پولیو سے بچاﺅں کے قطرے پلائیں اور حفاظتی ٹیکے لگوائیں، پاکستان میں استعمال ہونے والی ویکسین محفوظ و موثر ہے اور اس میں ایسے اجزاءشامل نہیں ہیں جو تولیدی نظام کو نقصان پہنچائیں۔طالبان جاہلان ہیں اور اسلامی احکامات کا انہیں کچھ علم نہ ہے۔
دہشت گرد خود ساختہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستانی عوام پر اپنا سیاسی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی دہشت گردوں کو اجازت نہ دی جا سکتی ہے۔ معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اورپرائیوٹ، ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے اور جہاد نہ ہے۔کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے،اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ دہشت گرد ،اسلام کے نام پر غیر اسلامی و خلاف شریعہ حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں اور اس طرح اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲
Comment