دہشت گردوں کی شاطرانہ چالیں
حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں سرگرم طالبان کا سب سے مضبوط، موثر اور تجربہ کار گروہ قرار دیا جاتا ہے جس سے منسلک جنگجووں کی تعداد بقول سراج الدین حقانی کے 10 ہزار سے زیادہ ہے۔ گروہ کے بیشتر جنگجو پشتون ہیں مگر بعض پاکستانی قبائلی اور عرب باشندے بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ شمالی وزیرستان القاعدہ ، ازبک ،چیچن ،طالبان، پنجابی طالبان،لشکر ظل( الیاس کشمیری)، جیش محمد، حرکت جہاد اسلامی،لشکر جھنگوی، لشکر جھنگوی العالمی، حقانی اور دوسرےغیر ملکی جنگجووں کا محفوظ ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے، جہاں سے دہشتگرد مقامی پاکستانی اور دوسرے غیر ملکی علاقوں میں باآسانی کاروائیاں کرتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق القائدہ کے مرکزی لیڈر بھی اسی علاقہ میں روپوش بتائے جاتے ہیں۔ یہ تمام گروپس اگرچہ علیحدہ علیحدہ ہیں مگرمل کر کاروائیاں بھی کرتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک سب سے بڑا اور خطرناک گروپ ہے اور یہ دوسرے دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرتا ہے۔ حقانیوں کا گھر جو میران شاہ سے چند میل کے فاصلے پر داندے درپہ خیل میں واقع تھا، جس میں پہلے ایک مدرسہ تھا جس میں ایک ہزار کے قریب طلبا زیر تعلیم تھے ۔
جلال الدین حقانی اپنی پیرانہ سالی کے باعث، عملی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں. ان کی جگہ ان کے صاحبزادے سراج الدین حقانی نے سنبھال رکھی ہے جو اپنے والد سے زیادہ شدت پسند سمجھا جاتا ہے۔حقانی نیٹ ورک کا بانی ،جلال الدین حقانی خوست،افغانستان کا رہنے والا ہے اور سلطان خیل میزائی ،زدران قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ افغانستان سے طالبان کی حکومت کے خاتمہ پر ہجرت کر کے شمالی وزیرستان میں آ گیا اور میران شاہ میں آباد ہو گیا جہاں بڑے حقانی نے مدرسہ منباء العلوم قائم کیا۔ اور اس نے شمالی وزیرستان میں ہی اپنا ہیڈ کوارٹرز قائم کررکھا ہے۔ افغانستان کے صوبہ خوست میں رہنے والے زدران قبائل حقانی نیٹ ورک کے حمایتی ہیں۔ اس گروہ کو قبائلی 1979ء میں افغانستان پر سوویت فوجوں کے حملے کے وقت سے ہی مجاہدین کا سب سے طاقتور گروہ تسلیم کرتے ہیں اور اس کا قبائل میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ اطلاعات کے مطابق القائدہ اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے تحریک طالبان اور ملا عمر سے بھی رابطے ہیں۔حقانی نیٹ ورک، پاکستان کے علاوہ افغانستان میں اس علاقے پر کاروائیاں کرتےہے جسے"خوست کا پیالہ" کہا جاتا ہےاور جس میں پکتیکا، پکتیا اور خوست شامل ہیں۔۔حقانی نیٹ ورک کا طالبان سے الحاق تھا مگر اب حالات پہلے سے نہ رہے ہیں۔ القائدہ سے تعلق رکھنے والا یہ گروپ پاک افغان سرحد کے دونوں جانب پھیلا ہوا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کی قیادت جلال الدین حقانی کے ہاتھ میں ہے مگر جلال الدین حقانی کی مسلسل علالت اور پیرانہ سالی کے باعث ، سراج الدین حقانی، جو خلیفہ بھی کہلاتا ہے، اس گروپ کو کنٹرول کرتے ہیں۔
حقانی نیٹ ورک پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کا ذمہ دار ہے۔ یہ لوگ غیر ملکی ہیں اور فاٹا کے علاقہ کا سکون غارت کر رہے ہیں۔حقانی نیٹ ورک پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں ہونے والی بڑی پرتشدد کارروائیوں کے پیچھے ہے۔ ان کارروائیوں میں کابل کا وہ حملہ بھی شامل ہے جو بیس گھنٹے تک جاری رہا۔حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مغرب، بھارت اور افغانستان میں ہونے والے ہائی پروفائل حملوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں طالبان کے حامی عسکریت پسندوں کی قیادت کرنے والے حقانی نے ہی خودکش بم دھماکے متعارف کرائے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ،دہشت گرد حقانی نیٹ ورک پر پابندی لگادی ہے۔
دہشت گردوں کی دنیا میں ،دہشت گرد گروپوں میں اپنے اپنے مفادات اور اثر و رسوخ بڑہانے کے لئے رسہ کشی اور ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کی روایات ایک معمول کی بات ہیں۔
ابھی حال ہی میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے بیٹے ناصر الدین حقانی کو اسلام آباد میںموٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔
افغان آن لائن اخبار خامہ پریس نے سلامتی کے امور کے تجزیہ کاروں اور انٹیلیجنس حکام کے حوالے سے اپنی ایک خبر میں بتایا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان نے حقانی نیٹ ورک پر حکیم اللہ کے ٹھکانے کا راز افشاء کرنے کا الزام لگایا ہے۔
پاکستان کے انگریزی روزنامہ دی نیوز نے حکام کے حوالے سے اپنی خبر میں بتایا کہ اس کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں نے غالباً نصیر الدین کو قتل کر کے حکیم اللہ کی موت کا بدلہ لے لیا۔
ویسے بھی ملا فضل اللہ مذاکرات کے لئے شدید نفرت رکھتا ہے اور برملا اس چیز کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے فضل اللہ /طالبان نے نصیر حقانی کی قطر مزاکرات سے گہری وابستگی کی بنا پر حقانی کو مروایا ہو۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سلامتی کے امور کے سابق سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ نے کہا کہ نصیر الدین حقانی کے قتل میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کا ٹھوس ثبوت تباہ کن ہو گا اور اس سے تحریک طالبان پاکستان اور حقانیوں کے درمیان سنگین جھڑپ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں افغان حقانی انتہائی مضبوط ہیں اور وہ تحریک طالبان پاکستان کے لیے معاملات کو سخت دشوار بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حقانی نیٹ ورک نے محسودوں (تحریک طالبان پاکستان)کو شمالی وزیرستان ایجنسی سے باہر نکال دیا تو اس سے تحریک کے حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ معاملات بھی بگڑ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی صورت حال پاکستان کی سلامتی کے لیے بہتر ہو گی اور عسکریت پسندوں کا صفایا کرنے میں مدد ملے گی۔قبائلی صحافی ناصر خان داور نے اس بات سے اتفاق کیا۔
ناصر خان داور نے کہا کہ اگر حقانیوں اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان خلیج مزید گہری ہو گئی تو یہ دونوں کے لیے تباہی کا باعث ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر حقانیوں نے اپنی بندوقوں کا رخ ملا فضل اللہ کی زیر قیادت تحریک طالبان پاکستان کی جانب موڑ دیا تو تحریک کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پھر یہ دہشت گرد تنظیم اپنے محفوظ ٹھکانوں سے محروم ہو جائے گی۔
فضل اللہ جو خود تاجک اور اسکا تعلق سوات سے ہے اور پشتونوں و دہشت گرد گروپوں پر غالب آنے اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوششیں کر رہا ہے، اس کا اگلا نشانہ گل بہادر ہو سکتا ہے؟
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ نصیر الدین حقانی کے قتل کا طریقہ کار ، القائدہ کا قتل کا مخصوص طریقہ کارہے۔ ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کی باتوں سے اور پاکستان / افغانستان میں اپنے مستقبل سے متعلق نا امید و خوفزدہ القائدہ نے ، فضل اللہ کے ساتھتعلقات استوار کرنے اور چلنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ہو اور حقانی کو راستے کا کانٹا سمجھتے ہو ئے ،اسے راستے سے ہٹا دیا ہو؟
حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں سرگرم طالبان کا سب سے مضبوط، موثر اور تجربہ کار گروہ قرار دیا جاتا ہے جس سے منسلک جنگجووں کی تعداد بقول سراج الدین حقانی کے 10 ہزار سے زیادہ ہے۔ گروہ کے بیشتر جنگجو پشتون ہیں مگر بعض پاکستانی قبائلی اور عرب باشندے بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ شمالی وزیرستان القاعدہ ، ازبک ،چیچن ،طالبان، پنجابی طالبان،لشکر ظل( الیاس کشمیری)، جیش محمد، حرکت جہاد اسلامی،لشکر جھنگوی، لشکر جھنگوی العالمی، حقانی اور دوسرےغیر ملکی جنگجووں کا محفوظ ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے، جہاں سے دہشتگرد مقامی پاکستانی اور دوسرے غیر ملکی علاقوں میں باآسانی کاروائیاں کرتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق القائدہ کے مرکزی لیڈر بھی اسی علاقہ میں روپوش بتائے جاتے ہیں۔ یہ تمام گروپس اگرچہ علیحدہ علیحدہ ہیں مگرمل کر کاروائیاں بھی کرتے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک سب سے بڑا اور خطرناک گروپ ہے اور یہ دوسرے دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرتا ہے۔ حقانیوں کا گھر جو میران شاہ سے چند میل کے فاصلے پر داندے درپہ خیل میں واقع تھا، جس میں پہلے ایک مدرسہ تھا جس میں ایک ہزار کے قریب طلبا زیر تعلیم تھے ۔
جلال الدین حقانی اپنی پیرانہ سالی کے باعث، عملی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں. ان کی جگہ ان کے صاحبزادے سراج الدین حقانی نے سنبھال رکھی ہے جو اپنے والد سے زیادہ شدت پسند سمجھا جاتا ہے۔حقانی نیٹ ورک کا بانی ،جلال الدین حقانی خوست،افغانستان کا رہنے والا ہے اور سلطان خیل میزائی ،زدران قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ افغانستان سے طالبان کی حکومت کے خاتمہ پر ہجرت کر کے شمالی وزیرستان میں آ گیا اور میران شاہ میں آباد ہو گیا جہاں بڑے حقانی نے مدرسہ منباء العلوم قائم کیا۔ اور اس نے شمالی وزیرستان میں ہی اپنا ہیڈ کوارٹرز قائم کررکھا ہے۔ افغانستان کے صوبہ خوست میں رہنے والے زدران قبائل حقانی نیٹ ورک کے حمایتی ہیں۔ اس گروہ کو قبائلی 1979ء میں افغانستان پر سوویت فوجوں کے حملے کے وقت سے ہی مجاہدین کا سب سے طاقتور گروہ تسلیم کرتے ہیں اور اس کا قبائل میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ اطلاعات کے مطابق القائدہ اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے تحریک طالبان اور ملا عمر سے بھی رابطے ہیں۔حقانی نیٹ ورک، پاکستان کے علاوہ افغانستان میں اس علاقے پر کاروائیاں کرتےہے جسے"خوست کا پیالہ" کہا جاتا ہےاور جس میں پکتیکا، پکتیا اور خوست شامل ہیں۔۔حقانی نیٹ ورک کا طالبان سے الحاق تھا مگر اب حالات پہلے سے نہ رہے ہیں۔ القائدہ سے تعلق رکھنے والا یہ گروپ پاک افغان سرحد کے دونوں جانب پھیلا ہوا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کی قیادت جلال الدین حقانی کے ہاتھ میں ہے مگر جلال الدین حقانی کی مسلسل علالت اور پیرانہ سالی کے باعث ، سراج الدین حقانی، جو خلیفہ بھی کہلاتا ہے، اس گروپ کو کنٹرول کرتے ہیں۔
حقانی نیٹ ورک پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات کا ذمہ دار ہے۔ یہ لوگ غیر ملکی ہیں اور فاٹا کے علاقہ کا سکون غارت کر رہے ہیں۔حقانی نیٹ ورک پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں ہونے والی بڑی پرتشدد کارروائیوں کے پیچھے ہے۔ ان کارروائیوں میں کابل کا وہ حملہ بھی شامل ہے جو بیس گھنٹے تک جاری رہا۔حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مغرب، بھارت اور افغانستان میں ہونے والے ہائی پروفائل حملوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں طالبان کے حامی عسکریت پسندوں کی قیادت کرنے والے حقانی نے ہی خودکش بم دھماکے متعارف کرائے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ،دہشت گرد حقانی نیٹ ورک پر پابندی لگادی ہے۔
دہشت گردوں کی دنیا میں ،دہشت گرد گروپوں میں اپنے اپنے مفادات اور اثر و رسوخ بڑہانے کے لئے رسہ کشی اور ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کی روایات ایک معمول کی بات ہیں۔
ابھی حال ہی میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے بیٹے ناصر الدین حقانی کو اسلام آباد میںموٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔
افغان آن لائن اخبار خامہ پریس نے سلامتی کے امور کے تجزیہ کاروں اور انٹیلیجنس حکام کے حوالے سے اپنی ایک خبر میں بتایا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان نے حقانی نیٹ ورک پر حکیم اللہ کے ٹھکانے کا راز افشاء کرنے کا الزام لگایا ہے۔
پاکستان کے انگریزی روزنامہ دی نیوز نے حکام کے حوالے سے اپنی خبر میں بتایا کہ اس کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں نے غالباً نصیر الدین کو قتل کر کے حکیم اللہ کی موت کا بدلہ لے لیا۔
ویسے بھی ملا فضل اللہ مذاکرات کے لئے شدید نفرت رکھتا ہے اور برملا اس چیز کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے فضل اللہ /طالبان نے نصیر حقانی کی قطر مزاکرات سے گہری وابستگی کی بنا پر حقانی کو مروایا ہو۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سلامتی کے امور کے سابق سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ نے کہا کہ نصیر الدین حقانی کے قتل میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کا ٹھوس ثبوت تباہ کن ہو گا اور اس سے تحریک طالبان پاکستان اور حقانیوں کے درمیان سنگین جھڑپ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں افغان حقانی انتہائی مضبوط ہیں اور وہ تحریک طالبان پاکستان کے لیے معاملات کو سخت دشوار بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حقانی نیٹ ورک نے محسودوں (تحریک طالبان پاکستان)کو شمالی وزیرستان ایجنسی سے باہر نکال دیا تو اس سے تحریک کے حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ معاملات بھی بگڑ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی صورت حال پاکستان کی سلامتی کے لیے بہتر ہو گی اور عسکریت پسندوں کا صفایا کرنے میں مدد ملے گی۔قبائلی صحافی ناصر خان داور نے اس بات سے اتفاق کیا۔
ناصر خان داور نے کہا کہ اگر حقانیوں اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان خلیج مزید گہری ہو گئی تو یہ دونوں کے لیے تباہی کا باعث ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر حقانیوں نے اپنی بندوقوں کا رخ ملا فضل اللہ کی زیر قیادت تحریک طالبان پاکستان کی جانب موڑ دیا تو تحریک کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پھر یہ دہشت گرد تنظیم اپنے محفوظ ٹھکانوں سے محروم ہو جائے گی۔
فضل اللہ جو خود تاجک اور اسکا تعلق سوات سے ہے اور پشتونوں و دہشت گرد گروپوں پر غالب آنے اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوششیں کر رہا ہے، اس کا اگلا نشانہ گل بہادر ہو سکتا ہے؟
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ نصیر الدین حقانی کے قتل کا طریقہ کار ، القائدہ کا قتل کا مخصوص طریقہ کارہے۔ ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کی باتوں سے اور پاکستان / افغانستان میں اپنے مستقبل سے متعلق نا امید و خوفزدہ القائدہ نے ، فضل اللہ کے ساتھتعلقات استوار کرنے اور چلنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ہو اور حقانی کو راستے کا کانٹا سمجھتے ہو ئے ،اسے راستے سے ہٹا دیا ہو؟